دنیا ایک بار پھر ایک نئے نظام کی جانب بڑھ رہی ہے—یا کم از کم یہی تاثر دیا جا رہا ہے۔ پرانے عالمی نظام کی بنیادیں، جو ایک صدی سے مغرب کے غلبے پر کھڑی تھیں، اب بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ مگر جب عمارت گرنے لگتی ہے، تو صرف ملبہ باقی نہیں رہتا، کچھ ہاتھ اسے سنوارنے کی کوشش بھی کرتے ہیں—اپنے اپنے انداز میں، اپنے اپنے مفاد میں۔ حالیہ اجلاس، جس میں ایشیا اور یوریشیا کے بیس سے زائد ممالک شریک ہوئے، اسی کوشش کا تسلسل تھا۔ اسے کثیر قطبی دنیا کے خواب کی تعبیر کہا گیا، لیکن کیا یہ واقعی تعبیر ہے یا صرف ایک اور خواب، جس میں آنکھیں کسی اور کی، مفاد کسی اور کا، اور قیمت کسی تیسرے نے چکانی ہے؟اجلاس میں “برابری” کی بات ہوئی، “منصفانہ” نظام کا ذکر آیا، اور “کولڈ وار ذہنیت” سے باہر نکلنے کی تلقین کی گئی۔ مگر ان الفاظ کی حقیقت کیا ہے؟ جب وہی ریاستیں جو ایک دوسرے کو ترقی کے شراکت دار کہہ رہی ہیں، سرحدوں پر افواج بڑھا رہی ہیں، جب ایک طرف ترقیاتی معاہدے ہو رہے ہیں اور دوسری طرف خفیہ مفادات کی جنگ جاری ہے، تو ان بلند و بانگ بیانات کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ برابری کا خواب صرف اسی وقت سچ ہو سکتا ہے جب اسے دیکھنے والے سب آنکھیں یکساں رکھیں—اور یہی اس وقت ممکن نہیں، کیونکہ آنکھوں میں خواب سے زیادہ خوف ہے، مفاد ہے، اور تاریخ کے اندھے دھبے ہیں۔پاکستان بھی اس اجلاس میں موجود تھا۔ رسمی طور پر اسے اس فورم میں اہم شراکت دار تصور کیا گیا، اور اقتصادی تعاون، علاقائی ترقی اور مشترکہ مفادات جیسے الفاظ سے سجی تقریریں ہوئیں۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے کا اعلان بھی ہوا، جو بظاہر خوش آئند ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم خود ان تمام “معاہدات” میں کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم برابر کے شریک ہیں، یا صرف سہولت کار؟ کیا ہمیں اپنی اقتصادی خودمختاری پر پورا اختیار حاصل ہے، یا ہم نئے عالمی اقتدار کے ایک اور بلاک میں خاموشی سے شامل کر لیے گئے ہیں؟ پاکستان کی حیثیت اس وقت ایک ایسے مسافر کی ہے جو کئی دہائیوں سے نئی منزل کا متلاشی ہے، مگر ہر بار پرانی راہوں پر نئے جھنڈے لگا کر مطمئن ہو جاتا ہے۔بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات، اس اجلاس میں ایک بار پھر تماشائی بن کر رہ گئے۔ نہ مصافحہ ہوا، نہ مکالمہ۔ صرف خاموش الزامات، غیر رسمی اشارے، اور پھر وہی سفارتی مصلحتیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک ملک آپ کے وجود، آپ کی تاریخ، اور آپ کے عوام کے حقِ خود ارادی کو ہی تسلیم نہیں کرتا، تو اس سے بار بار “امن کی تلاش” آخر کیوں؟ کیا یہ تلاش ہے، یا اپنی عالمی شبیہہ کو بہتر بنانے کی ناکام کوشش؟ اور عالمی اسٹیج پر وہ کون سے عناصر ہیں جو ہر بار بھارت کو رعایت دیتے ہیں، اور پاکستان کو بردباری” کا سبق پڑھاتے ہیں؟ یہ بھی ایک غیر مرئی طاقت کا کھیل ہے، جس میں بیانیہ ہمیشہ طاقتور کے ہاتھ میں ہوتا ہے، اور کمزور صرف “ردعمل” میں زندہ رہتا ہے۔روس کی موجودگی نے اس اجلاس کو ایک علامتی رنگ دیا۔ وہی روس جسے مغرب نے یوکرین پر حملے کے بعد تنہا کر دیا تھا، اب “امن” کی تقریبات میں شریک ہے۔ چین کی میزبانی میں ہونے والی عسکری پریڈ میں اس کی شرکت اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کے اتحاد اب پرانی اخلاقیات پر نہیں، بلکہ نئے سیاسی مفاد پر بن رہے ہیں۔ جنہیں کل تک انسانی حقوق کا دشمن کہا گیا، آج ان کے ساتھ اقتصادی راہداریوں پر دستخط ہو رہے ہیں۔ تو کیا اخلاقیات واقعی کوئی مستقل اصول ہیں؟ یا یہ بھی ایک سفارتی آلہ ہے، جو صرف کمزوروں پر لاگو ہوتا ہے؟ طاقتور نہ صرف اصول بناتے ہیں، بلکہ جب چاہیں انہیں توڑنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہر نیا نظام بدلنے کا دعویٰ کرتے وقت بھول جاتی ہے۔اجلاس میں جن دہشتگردوں، علیحدگی پسندوں اور شدت پسندوں کے خلاف عزم ظاہر کیا گیا، وہ بھی ایک تضاد سے بھرا باب ہے۔ دہشتگردی کی تعریف کون طے کرے گا؟ علیحدگی پسند کب تحریکِ آزادی بن جاتے ہیں، اور کب دہشتگرد؟ دنیا میں ایسی کئی تحریکیں ہیں جنہیں بعض ممالک “قومی سلامتی” کا خطرہ کہتے ہیں، اور دوسرے انہیں “انسانی حقوق” کی علامت سمجھتے ہیں۔ اگر ہر ریاست اپنی سہولت کے مطابق فیصلہ کرے گی کہ کون مجرم ہے اور کون محبِ وطن، تو پھر عالمی انصاف کا تصور کیسے قائم ہوگا؟ درحقیقت، عالمی انصاف ایک ایسا خواب ہے جو ہمیشہ طاقت کے تکیے پر سویا رہتا ہے۔پاکستان جیسے ملکوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ کب تک دوسروں کی ترجیحات کے گرد اپنے فیصلے گھماتے رہیں گے؟ اگر کل ہم نے مغرب کے ساتھ اپنی قسمت جوڑی تھی، اور آج مشرق کے ساتھ بندھن باندھنے جا رہے ہیں، تو کیا ہم نے کبھی اپنی سمت کا تعین خود کیا؟ کیا ہم نے کبھی اپنی معیشت، اپنی خارجہ پالیسی، اور اپنی سیکیورٹی کو مقامی تناظر میں ازسرنو سوچا؟ یا ہم ہر بار عالمی طاقتوں کے بیچ ایک ایسے ثالث کی طرح کودتے ہیں جسے کھیل کی نوعیت کا بھی علم نہیں ہوتا؟ سی پیک ہو یا کسی عالمی تنظیم کی شمولیت، ہمیں ہر فیصلہ اپنی داخلی ضرورت اور خودمختاری کو مدنظر رکھ کر کرنا ہوگا، ورنہ یہ شراکت داری بھی ایک اور تابع داری بن کر رہ جائے گی۔نئے عالمی نظام کی بات ضرور ہو رہی ہے، لیکن یہ نظام اگر پرانی اجارہ داری کی نئی شکل ہے تو ہمیں دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ جب تک طاقت کا مفہوم وہی رہے گا—دوسرے پر غلبہ، اختلاف کی نفی، خاموشی پر اختیار—تب تک کوئی بھی نیا عالمی آرڈر محض ایک نیا ماسک ہوگا، ایک نیا کاسٹیوم، جسے پہن کر پرانا جبر ہی دہرا جائے گا۔ پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اس ماسک کا حصہ بنے گا یا اس کو چیر کر اپنی شناخت خود تراشے گا۔ کیونکہ اگر ہم نے اپنے فیصلے خود نہ کیے، تو ہمارے لیے فیصلے ہمیشہ کہیں اور ہوتے رہیں گے—خاموش کمروں میں، بند دروازوں کے پیچھے، جہاں ہمارے مفادات صرف عددی جدولوں میں گم ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا اب وہ نہیں رہی جہاں سچ صرف ایک ہوتا تھا۔ ہر سچ کے پیچھے کئی سوال ہیں، ہر معاہدے کے نیچے کئی غیر تحریر شدہ شقیں ہیں، اور ہر بیانیے کے درمیان ایک خاموش جھوٹ بسا ہوتا ہے۔ اور اگر ہم نے اس جھوٹ کو پہچاننے سے انکار کیا، تو ہم بار بار نئے نظاموں کا استقبال کریں گے، مگر ہر بار پرانے زنجیروں میں ہی جکڑے جائیں گے۔ دنیا شاید بدل رہی ہے، لیکن کیا ہم بھی بدل رہے ہیں؟ یا ہم صرف نیا تماشہ دیکھنے کے لیے پرانی نشستوں پر بیٹھے رہنے کے عادی ہو چکے ہیں؟ یہ سوال اب ہم سب کو خود سے کرنا ہوگا۔
