ملتان (سٹاف رپورٹر) خود نمائی، چاپلوسی اور خوشامدی کلچر نے ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں کے انتظامی اور تدریسی امور کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور سب سے ابتر صورتحال سرکاری اور پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی ہے جہاں اس وبا نے وائس چانسلر حضرات کو مفلوج کرکے رکھا ہوا ہے۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں خاص طور پر سرکاری سطح کی یونیورسٹیوں میں انتظامی امور پر بیٹھے افراد کی تمام تر صلاحیتیں خود نمائی کی لت میں تباہ ہو رہی ہیں۔ باوجود اس کے کہ بیشتر نجی سیکٹر یونیورسٹیاں تعلیم و ریسرچ کے کاموں کی سرکاری یونیورسٹیوں کی نسبت بہت پیچھے ہیں اور آج بھی اعلیٰ عہدوں پر سرکاری یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلبہ کی تعداد زیادہ ہے مگر جہاں نجی تعلیمی اداروں کے وائس چانسلر حضرات کا کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا اور نجی تعلیمی اداروں و یونیورسٹیوں کے مالکان اپنی تمام تر توجہ اپنے ادارے کی ساکھ کو بہتر بنانے پر صرف کر دیتے ہیں اور اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہیں وہیں پر سرکاری و پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات کی مدح سرائی میں ان یونیورسٹیوں کا پورے کا پورا سسٹم دن رات ایک کر رہا ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں کے شعبہ تعلقات عامہ اور انتظامیہ کی جانب سے وائس چانسلر حضرات کی تعریفوں کے پل باندھنے کے لیے نت نئے القابات اور الفاظ کا چناؤ کیا جاتا ہے حتیٰ کہ سرکاری یونیورسٹیوں کا تعلقات عامہ کا زیادہ تر بجٹ یونیورسٹیوں کی ساکھ کو بہتر بنانےکے بجائے زیادہ تر وائس چانسلر حضرات کے کیے جانے والے کاموں تعریف اور توصیف پر صرف ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی نجی ادارے کے وائس چانسلر حضرات یا ریکٹر حضرات کو کوئی نہیں جانتا جبکہ اس کے مقابلے میں سرکاری یونیورسٹی کی تدریسی معلومات سے زیادہ ان سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات کے بارے میں معلومات اپلوڈ کی جاتی ہیں۔ حیران کن طور پر کسی بھی سرکاری یونیورسٹی کا فیس بک پیج، واٹس ایپ گروپ دیکھا جائے تو وہاں تقریباً ہر یونیورسٹی کی ہر پوسٹ اسی گھسےپٹے جملے سے شروع ہوتی نظر آتی ہے Under the kind guidance of Worthy Vice Chancellor “Under the esteemed leadership of Worthy Vice Chancellorافسوسناک امر یہ ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے وائس چانسلر حضرات کی چار سالہ مدت ملازمت اپنی تعریفوں ہی میں گزر جاتی ہے اور یہ مدت دور پروٹوکول میں گزار کر یونیورسٹی کو پہلے سے بدتر حالات میں پھینک کر وائس چانسلر حضرات روانگی اختیار کر لیتے ہیں۔ مالی بد انتظامی اور کرپشن کے حوالے سے یونیورسٹیوں کے آڈٹ پیرے اعتراضات سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں مگر سیاسی پشت پناہی اور دیگر مروجہ ذرائع کو استعمال کر کے اکثر وائس چانسلر حضرات پہلے سے بھی بہتر پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور سابقہ یونیورسٹی میں تعیناتی کے دوران کی نااہلی اور کرپشن کے باوجود کسی اور یونیورسٹی میں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان گئے گزرے حالات میں بھی سرکاری اور پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں داخلوں کی تعداد زیادہ ہے مگر سوشل میڈیا کا پراپیگنڈا اس کے برعکس ہے کہ نجی سیکٹر اپنے یونیورسٹیوں کو پروموٹ کرتے ہیں اور سرکاری سیکٹر کی یونیورسٹیاں وائس چانسلر کی شخصیت کو ایلیویٹ کرنے میں پورا زور لگا رہی ہوتی ہیں۔
