آج کی تاریخ

مفاہمت کا بادشاہ کیا 'وسیع تر مفاہمت کرا پائے گا؟

نئی حکومت، نئی امیدیں

انتظارکی گھڑیاں ختم ہوگئیں۔جمہوری عمل کے ذریعے جمہوریت کانیاسفرشروع ہوگیاہے۔گزشتہ روزپاکستان کی 16ویں قومی اسمبلی معرض وجود میں آ گئی ۔ نو منتخب اراکین اسمبلی نےگزشتہ روز حلف اٹھا لیا۔ 16ویں قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت سوا گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا، اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور پھر نعت رسول مقبول پیش کی گئی۔سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے سپیکر کے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا، جس پر سپیکر نے انہیں متنبہ کیا کہ پہلے حلف لیں گے، پھر بات ہوگی۔سپیکر راجا پرویز اشرف نے نومنتخب ارکان سے حلف لیا، تاہم اس دوران ایوان میں شدید شور شرابا رہا، جس پر سپیکر اسمبلی نے اظہارِ برہمی کیا۔حلف لینے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے کہا کہ رکن اسمبلی بننے کیلئے پہلے دستخط کر لیں، پھر بات کریں گے۔حلف لینے والوں میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم نواز شریف، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف، سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان، خورشید شاہ، سردار ایاز صادق اور دیگر نو منتخب اراکین شامل ہیں۔سنی اتحاد کونسل کے عمر ایوب، بیرسٹرگوہر،علی محمد خان نے بھی حلف اٹھا لیا، استحکام پاکستان پارٹی کے علیم خان کو دستخط کرنے کیلئے بلایا گیا تو سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے لوٹا لوٹا کے نعرے لگائے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں بانی پی ٹی آئی کی حمایت میں نعرے بازی کی گئی،قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں کی جانب سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے حق میں نعرے لگائے گئے۔لیگی اراکین کی جانب سے بھی نوازشریف کی آمد پر نعرے بازی کی گئی، لیگی ارکان نے شیر آیا، شیر آیا کے نعرے لگائے، مہمانوں کی گیلری میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز، اسحاق ڈار، مریم اورنگزیب اور آصفہ بھٹو زرداری بھی موجود تھیں۔دوسری جانب پاکستان سنی اتحاد کونسل کے ممبران قومی اسمبلی اسد قیصر بیرسٹر گوہر عمر ایوب ،علی محمد سپیکر سے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت مانگتے رہے اور مطا لبہ کیا کہ مخصوص نشستوں کا معاملہ حل نہیں ہوا ہے ایوان کے اراکین سے حلف نہ لیا جائے ۔ دونوں اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر کافی دیر تک احتجاج کیا اور سپیکر سے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت چاہی انہوں نے متعدد مرتبہ سپیکر کی ڈائس کے پاس جا کر بھی احتجاج کیا مگر سپیکر نے ان کی بات نہیں مانی اور انہیں بات کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما ممبر قومی اسمبلی حنیف عباسی نے گھڑی اتار کر قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف نعرے لگوائے جس پر اپوزیشن کے اراکین نے بھی آصف زرداری اور نواز شریف کے خلاف نعرہ بازی کی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں لیگی اراکین نے شہباز شریف اورنواز شریف کے گرد حفاظتی حصار بنائے رکھا ،اپوزیشن کے مشتعل اراکین نواز شریف تک نہ پہنچ سکے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ایوان میں گیارہ بجکر گیارہ منٹ پر ایوان میں پہنچے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے اتحاد نے ان کا نعروں سے استقبال کیا ۔ دوسری جانب نئے وزیراعظم کا انتخاب تین مارچ بروز اتوار کو ہوگا۔اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق وزیراعظم کے عہدے کے لیے کاغذات نامزدگی کل دو مارچ بروز ہفتہ کو دن دو بجے تک جمع ہوں گے۔کاغذات کی سکروٹنی اسی روز تین بجے ہوگی جس کے بعد لسٹ جاری کردی جائے گی اور نئے قائد ایوان کا انتخاب اتوارکو ہوگا۔مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے شہباز شریف امیدوار ہوں گے جبکہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے عمر ایوب خان میدان میں ہوں گے۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن)کے رہنما سردار ایاز صادق نے سپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے،پیپلزپارٹی کے غلام مصطفیٰ شاہ نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، سیکرٹری قومی اسمبلی نے ایوان کے اندر ہی کاغذات نامزدگی وصول کئے،دوسری جانب سنی اتحاد کونسل کی جانب سے سپیکر قومی اسمبلی کے لئے ملک عامر ڈوگر کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جبکہ ڈپٹی سپیکر کیلئے جنید اکبر خان کے کاغذات نامزدگی جمع ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ نئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا چنائو(آج) ہوگا۔ادھرسپیکراورڈپٹی سپیکرکےانتخاب کیلئےقومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے6نکاتی ایجنڈاجاری کردیا۔ قومی اسمبلی کےجاری کردہ ایجنڈامیں تلاوت قرآن ،حدیث اور قومی ترانہ کے بعد حلف نہ اٹھانے والے اراکین حلف اٹھائیں گے، بعد ازاں قومی اسمبلی کے نئے سپیکر کا انتخاب کیا جائے گا۔ذرائع کےمطابق منتخب سپیکر ایوان میں ہی حلف اٹھائیں گے،نو منتخب سپیکر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کرائیں گے اور ان سے حلف لیں گے۔
قارئین کرام ملک میں نئی حکومت کاقیام قریب آگیاہے۔آج سپیکراورپرسوں وزیراعظم کے انتخاب کے بعدنئے وزیراعظم کومختلف چیلنجزکاسامناکرناہوگا۔اس وقت آنے والی حکومت اور اپوزیشن کو کم از کم دو نکاتی ایجنڈے پر مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے ایک تو میثاق معیشت اور دوسرا ایسے انتخابی اصلاحات جس سے دھاندلی کا رستہ ہمیشہ کے لیے بند ہوسکے۔کل اگر ن لیگ چلا رہی تھی تو آج تحریک انصاف چیخ و پکار کر رہی ہے۔ کیوں اسکا مکمل اور ہمیشہ کے لیے سدباب نہیں کیا جا سکتا؟۔پھر یہی بات بار بار دہرائی جائے گی کہ سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی اور سیاست کا محور یہی ہے کہ کیسے دوسرے کے خلاف اپنا کندھا دے کر کرسی پر لپک پر بیٹھا جائے۔ پھر اس کرسی سے چمٹنے رہنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور مخالفین کو اتنا دبایا جائے کہ وہ اٹھنے کے قابل نہ رہیں۔افسوس کے ہر چار پانچ سال بعد یہی کھیل اسی رفتار، اسی ترتیب اور اسی لائن و لنتھ کے ساتھ منعقد ہوتا رہتا ہے اور کوئی چیز بدلتی ہے تو وہ اس پورے تھیٹر میں سیاسی جماعتوں کا رول یا کردار ہے حکومت اوراپوزیشن کوملکی مسائل کاادراک کرتے ہوئےمل جل کرمسائل کے حل کیلئے اکٹھا ہونا ہوگاتاکہ ملک اورقوم ترقی کرسکیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں