ملتان (وقائع نگار) میڈیکل یونیورسٹیوں کے ڈھیر لگ گئے قوانین اور ایکٹ کا کوئی پتہ نہیں ۔پاکستان میں گزشتہ دس سالوں میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی تعداد 2015 میں 144 تھی جو اب بڑھ کر 2025 میں 230 سے زائد ہو چکی ہے۔ ہر صوبے ہر شہر اور ہر سیاسی شخصیت کی خواہش ہے کہ اس کے حلقے میں ایک میڈیکل یونیورسٹی ضرور ہو لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان نئی یونیورسٹیوں کے لیے نہ تو کوئی جامع ایکٹ تیار کیا جاتا ہے اور نہ ہی قوانین نافذ کیے جاتے ہیں۔صوبہ پنجاب میں گزشتہ پانچ سالوں میں 9 نئی میڈیکل یونیورسٹیاں قائم کی گئیں جن میں سے 6 کے لیے اب تک کوئی الگ ایکٹ یا چارٹر پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی سے پاس نہیں ہوا۔ ذرائع کے مطابق یہ یونیورسٹیاں صرف ایک نوٹیفکیشن پر قائم کر دی جاتی ہیں، پھر وائس چانسلر تعینات، عمارتیں الاٹ اور فیسوں کا تعین شروع ہو جاتا ہےلیکن گورننس، امتحانات کا نظام ڈگریوں کی قانونی حیثیت اور مالیاتی خودمختاری کے قوانین کہیں نظر نہیں آتے۔پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 42 میڈیکل یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن کا کوئی قانونی ایکٹ موجود نہیں۔ ان میں سے کئی یونیورسٹیاں تو صرف “ایکٹ ان پروسیس” کے بورڈز لگا کر طلبہ کے داخلے کر رہی ہیں پی ایم ڈی سی کے ایک سینئر افسر نے بتایا جب ہم انسپکشن کے لیے جاتے ہیں تو یونیورسٹی انتظامیہ کہتی ہے کہ ‘ایکٹ تو بن رہا ہے۔ دس دس سال گزر جاتے ہیں ایکٹ نہیں بنتا، لیکن ڈگریاں ضرور دے دی جاتی ہیں۔وزارتِ صحت کے ایک افسر نے بتایا سیاسی دباؤ کی وجہ سے یونیورسٹیاں کھول دی جاتی ہیں۔ ایکٹ بنانے میں وقت لگتا ہے قانون سازی کے مراحل ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی سیاستدان یہ نہیں دیکھتا کہ قانونی خلا کی وجہ سے مستقبل میں طلبہ اور ادارے کو کیا نقصان ہوگا۔سابق وائس چانسلر نے کہا کہ یہ سراسر غیر ذمہ داری ہے۔ یونیورسٹی ایکٹ کے بغیر کوئی ادارہ قانونی طور پر یونیورسٹی نہیں کہلا سکتا۔ یہ طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھیل ہے اور میڈیکل ایجوکیشن کے معیار کو تباہ کر رہا ہے۔جب تک سیاسی افتتاحوں کی بجائے قانونی ڈھانچہ اولین ترجیح نہیں بنے گا تب تک نئی نئی میڈیکل یونیورسٹیاں تو کھلتی رہیں گی لیکن ان کی ڈگریوں کی قانونی حیثیت، طلبہ کا مستقبل اور میڈیکل ایجوکیشن کا معیار سوالیہ نشان بنا رہے گا۔







