تین پر ملک کے وزیراعظم اور اپنی جماعت کے غیر متنازعہ قائد میاں محمد نواز شریف 2017ء میں اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد دوبارہ قومی اسمبلی میں داخل ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی رکنیت کا حلف اٹھایا اور اس کے بعد پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا- اپنے خطاب میں انھوں نے درست اور بروقت توجہ دلائی ہے کہ جب تک منتخب وزرائے اعظم اور منتخب حکومتوں کو متنازعہ عدالتی فیصلوں کے زریعے اقتدار سے نکالنے کا طریقہ ختم ںہیں ہوگا اور منتخب عوامی سیاسی طاقتیں اپنے مفادات عاجلہ کے لیے غیر متخب ہئيت مقتدرہ سے ہاتھ ملاکر اپنے سیاسی حریف کو گرانے کی کوششیں بند نہیں کریں گی تب تک پاکستان کی خوشخالی کا سفر شروع نہیں ہوسکے گا- انھوں نے یہ بھی درست بات کی ہے کہ سیاسی استحکام سے معشیت کا استحکام جڑا ہوا ہے۔ ملک افراتفری کا شکار ہو تو ایسے میں اندرون ملک سرمایہ دار کاروبار نہیں کرتے چہ جائیکہ باہر سے سرمایہ آئے۔ نواز شریف درست نشاندہی کرتے ہیں جب وہ یہ کہتے ہیں ان کي جانب سے 97ء کے ان کے دور حکومت میں پڑوسی ملک کے ساتھ کیا جانے والا امن پروسس اگر چلتا رہاتا اور 12 اکتوبر 1999ء کو مارشل لاء نہ لگایا جاتا آج جنوبی ایشیاء کے ایک فری ٹریڈ کوریڈور کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجاتا- میاں نواز شریف میں بطور وزیراعظم کئی جرآت مند فیصلے کرنے کی ہمت بلاشبہ موجود ہے اور وہ ہمسایہ ممالک سے آزاد تجارت کےجس عظیم الشان خواب کی تعبیر پاک-انڈیا امن پروسس کے اندر دیکھ رہے تھے وہ اپنے اندر اپنے بے پناہ معاشی ترقی کے امکانات رکھتا تھا- انہیں اس بات کا ملال ہے کہ فروری انتخابات میں ان کی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی اور یہی وجہ ہے کہ وہ وزرات عظمی کے امیدوار نہیں بنے کیونکہ ان کے پیش نظر اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کے ساتھ بڑے اہم اور تقدیر بدلنے والے فیصلے نہیں کیے جاسکتے۔ میاں محمد نواز شریف کا عملی سیاسی تجربہ اب 40سالوں پر محیط ہوچکا ہے اور اپنے 40 سالہ دور سیاست میں وہ ہر طرح کے گرم و سرد موسموں کا میدان سیاست میں تجربہ کرچکے ہیں- ان کا پاکستان کی قومی اسمبلی میں ہونا یقینا بہت اہم ہے ان کے تجربے اور دور اندیشی سے ناصرف وفاقی حکومت، قومی اسمبلی و سینٹ کو فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے بلکہ وہ پنجاب کو بھی بہت اچھے سے سمجھتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں چیف منسٹر پنجاب محترمہ مریم نواز پاکستان کے سب سے بڑی آبادی والے صوبے کو مشکلات سے نکال کر ترقی کے بڑے سنگ میل پار کرسکتی ہیں- پاکستان کی سیاسی اور غیر سیاسی مقتدرہ اشرافیہ کو سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے تجربے، زیرک پن، دانائی ، ذکاوت اور وژن سے استفادہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
صدارتی امیدوار اچکزئی کی رہائش پر چھاپہ : غیرجابندار انکوائری کرائیں!
صدارتی امیدوار اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کی کوئٹہ میں واقع رہائش گاہ پر چھاپہ قابل مذمت اقدام ہے اگرچہ مقامی انتظامیہ دعوا کررہی ہے کہ اس نے کاروائی اجکزئی کی رہائش کے ساتھ ملحق زمین پر غیرقانونی قبضہ چھڑوانے کے لیے کی گئی لیکن بادی النظر میں یہ کاروائی شکوک کو جنم دے رہی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ محمود اچکزئی کی گزشتہ روز پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقریر کا ردعمل ہے۔ اس کاروائی کے کیے جانے کا وقت بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ایسے وقت میں کی گئی جب وہ ایک طرف تو سنّی اتحاد کونسل / پی ٹی آئکی کے نامزد صدارتی امیدوار ہیں- دوسری طرف انہوں نے حال ہی میں پاکستان کی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ میں طاقتور منصب پر فآئز لوگوں کے کردار پر بہت سے سوالات اٹھائے ہیں- کیا یہ کاروائی ان کی جانب سے ریاستی اداروں کی پالیسیوں اور اقدامات پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے جواب میں انہیں تنبیہ کرنے کے لیے کی گئی ہے؟ کیا اس سے اچکزئی کے تلخ لہجے میں اور تلخی گھلے گی نہیں ؟ یہاں پر ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سعد اسعد کا بیان بھی محل نظر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کاروائی بلوچستان میں تجاوازات و ناجائز قبضوں کے خاتمے کے لیے چل رہی مہم کا حصّہ لے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی مہم میں ایک ایسے سیاست دان کے خلاف کاروائی کے لیے کیا یہ وقت درست تھا جبکہ وہ پی پی پی کے امیدوار برائے صدر پاکستان آصف علی زرداری کے مقابلے میں انتخاب لڑ رہے ہیں- اس سے اس کاروائی کو مذموم مقاصد ی حاطر کی جانے والی کاروائی کہنے کا جواز پیدا ہوگیا ہے۔ پی کے ایم پی ، پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ اس پر انسانی حقوق اور غیر جانبدار سیاسی و صحافتی حلقوں کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے۔ عالمی برادری، انسانی حقوق کے ادارے اس واقعے کو پاکستانی سیاست میں موجود تناؤ اور گھلی تلخی کے وسیع تناظر میں اس حقیقت کے عکس میں دیکھ رہے ہیں جہاں پر سیاسی شخصیات کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات اکثر و بیشتر واقعی قانونی وجوہات سے کہیں پرے واقع سیاسی وجوہات کے سبب بروئے کار لائے جاتے ہیں- اس وقت سیاسی فضا میں جس قدر تناؤ موجود ہے ایسے قانون کے نام پر اس طرح کے اقدامات سے معاملہ کھلی محاذ آرائی کی شکل اختیار کرسکتا ہے – اس صورت حال میں حکومت بلوچستان کو چاہئیے وہ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے –
ایم ڈی اے ملتان میں غیر شفافیت:چیف منسٹر پنجاب نوٹس لیں!
روزنامہ قوم ملتان میں شایع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی – ایم ڈی اے میں شفافیت کے حوالے سے زوال پذیری کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے – نوبت بہ ایں جا رسید کہ اب ڈی جی ایم ڈی اے زاہد اکرام سمیت کئی ایک افسران کا نام گزشتہ سال رمضان پیکچ کے تحت سستے آٹے کی مد میں مبینہ سوا کروڑ روپےے کے کمیشن اور ترقیاتی کاموں کی مد میں جاری چیکوں پر دو فیصد کمیشن کی بندر بانٹ پر ہوئے جھگڑوں اور مقدمات بازی میں بھی لیا جا رہا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ دعوا کیا گیا ہے کہ حال ہی میں ایم ڈی اے کے ایک ملازم کی جانب سے اسٹور کیپر شوزب رافع کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست کے پیچھے بھی وہی کمیشن کی بندر بانٹ کا جھگڑا چل رہا ہے۔ ایم ڈی اے ملتان کی اسٹبلشمنٹ پر
ہاؤسنگ اسکیم ماڈل ٹاؤن میں ملتان پولیس کو دو کینال کی جگہ 6 کینال اراضی ناجائز طور پر دیے جانے کا اسکینڈل بھی سامنے آیا ہے۔ مبینہ کرپشن سے کمیشن کی تقسیم پر جھگڑے میں ملوث ایم ڈی اے کے جن افسران کا نام سامنے آ رہا ہے ان میں ایم ڈی اے کے موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس احسان قدیر بھی شامل ہیں جن کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ موجودہ ڈپٹی کمشنر رضوان قدیر کے چھوٹے بھائی ہیں اور ان پر الزام ہے کہ ایم ڈی اے ملتان میں تعیناتی کے دوران انہوں نے ہی اپنے بھائی کی ایم ڈی اے میں تعیناتی کرائی تھی اور اس تعیناتی پر بھی قواعد و ضوابط گی خلاف ورزی کے الزامات لگائے جارہے ہیں – جبکہ موجودہ ڈی سی ملتان کی ایم ڈی اے میں مختلف عہدوں پر تعیناتی کے دوران بھی قواعد و ضوابط سے ہٹ کر اقدامات اٹھانے کے الزامات ہیں- تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایم ڈی اے اسٹور کیپر شوذب رافع کا موقف ہے کہ ان پر مبینہ غیرقانونی کام کرنے کا دباؤ تھا اور انکار پر ان کے خلاف انتقامی کاروائیاں کی جارہی ہیں- یہ ساری تفصیلات انتہائی تشویش ناک ہیں- زاہد اکرام جب سے ایم ڈی ملتان تعینات ہوئے ہیں تب سے ایم ڈی اے کی اسٹبلشمنٹ پر مالیاتی بے ضابطگیوں، رشوت خوری اور قواعد وضوابط کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات پر مبنی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں- ایم ڈی اے ملتان ، ڈپٹی کمشنر ملتان جیسے دفاتر بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ان دفاتر میں مالیاتی اور انتظامی شفافیت کو گدلا کرنے والی میڈیا رپورٹس انتہائی تشویش ناک ہیں- ایم ڈی کی جانب سے ہاؤسنگ اسکیموں میں اسکول اور ڈسپنسری کے لیے مختص زمینوں کو قبضہ گروپوں کے حوالے کیے جانے اور مالیاتی بدعنوانی کے الزامات ایک ایسے وقت میں سامنے ائے ہیں جب صوبہ پنجاب کی مالیاتی حالت اور بجٹ دونوں انتہائی مشکلات کا شکار ہیں- عالمی ادارے جیسے آئی ایم ایف ہے وہ نئے قرضوں اور گرانٹ کو اداروں میں مالیاتی شفافیت، کارپوریٹ گورننس اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ پر مبنی پالیسیاں اور اقدامات سے مشروط کررہے ہیں – ایسے میں ایم ڈی اے ملتان جیسے ترقیاتی اداروں میں مالیاتی شفافیت، کارپوریٹ گورننس کو بہتر بنانے اور اس کے امیج کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم سمجتے ہیں کہ ایم ڈی اے ملتان کے معاملات کا نومنتخب چیف منسٹر محترمہ مریم نواز شریف کو فی الفور نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ بہتر ہوگا وہ چیف سیکرٹری پنجاب کو کہیں کہ وہ گزشتہ سال رمضان پیکج کے تحت سستے آٹے کی اسکیم کے تحت ایم ڈی اے کی جانب سے تقسیم کا آڈٹ کرائیں – اس کے ساتھ ساتھ ایم ڈی اے ملتان کی مالیاتی شفافیت کی جانچ کرنے کے لیے اس کے سپیشل آڈٹ کا حکم نامہ بھی جاری کیا جآئےے تاکہ اس ادارے کی اسٹبلشمنٹ کے اہم عہدے داروں پر لگنے والے انتہائی سنگین الزامات کی تحقیقات ہوسکیں۔