آج کی تاریخ

معلم یا درندے

میاں اظہر، حوالے رب دے( قسط اول)

شرافت، بردباری، عاجزی، انکساری، ایمانداری، وضعداری، حسن اخلاق اور سچائی کا آخری قطب مینار بھی رخصت ہوا۔ دور حاضر میں پاکستان کے کونے کونے میں چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تو میاں محمد اظہر جیسا ایماندار شخص نہیں ملے گا۔ لوگ ان کی سٹیل مل کا سریا خریدنے کیلئےسال ،چھ ماہ پہلے ہی پیسے جمع کرواتے کہ پیمانے، معیار اور قیمت میں ان کا کوئی مقابلہ نہ تھا، گو کہ میاں محمد اظہر مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے مگر جو لاہور کا رنگ ان پر چڑھا شاید ہی کسی پر چڑھ سکا ہو۔ قول و فعل کا تضاد ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا تھا۔ لگی لپٹی رکھے بغیر صاف اور کھری بات کرتے اور پھر جو کہتے اس پر قائم رہتے۔ ان کا جس سے بھی تعلق بنا زندگی بھر کا بنا۔
طیب لوگوں کی یادیں رہ جاتی ہیں۔ میاں اظہر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو کر مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کی دعاؤں میں تازندگی بس گئے ہیں۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب میں روزنامہ خبریں اسلام آباد کا ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھا اور ملک بھر میں ضلعی نظام نافذ ہو چکا تھا۔ سابق صدر مشرف نے ملک بھر کے تمام اضلاع کے ضلعی ناظمین کے فیصلے کر لیے تھے اور ان کا اعلان بھی ہو چکا تھا مگر لاہور کا فیصلہ نہیں ہو رہا تھا اور ضلع ناظم لاہور کے لیے بہت سے ہیوی ویٹ امیدوار اور سیاسی پارٹیاں میدان میں تھیں، سہ پہر کے وقت مجھے میاں محمد اظہر کا ٹیلی فون آیا کہنے لگے:’’میاں غفار تینوں مبارک ہووے، میں میاں عامر نوں لاہور دا ضلعی ناظم بنان دی منظوری لے کے ایوان صدر توں نکلدا پیاں، ایہہ لے میاں عامر نوں مبارکباد دے‘‘۔ میں نے میاںاظہر کو مبارکباد دی اور ضد کی کہ مٹھائی کھائے بغیر آپ لاہور نہیں جا سکتے، میاں اظہر کا کہنا تھا کہ ہم نے جلدی نکلنا ہے اور لاہور جا کر انتخابی مہم شروع کرنی ہے، پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکا ہوں اب وقت نہیں مگر میری ضد کے سامنے انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے،میں نے ستارہ مارکیٹ سے فوری طور پر مٹھائی منگوائی اور اپنے دفتر سے نکل کر مین روڈ پر آ گیا۔ دونوں نے منہ میٹھا کیا۔ میاں اظہر کے چہرے پر خوشی دیکھی نہیں جا رہی تھی اور میں نے اس سے قبل کبھی ان کو اتنا خوش نہیں دیکھا تھا، ایسے جیسے کہ وہ بہت بڑا معرکہ مار کر جا رہے ہوں کیونکہ لاہور کی ضلعی نظامت چوہدری برادران اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے تھے اور اپنے کسی من پسند بندے کو لانا چاہتے تھے مگر ان دنوں میاں محمد اظہر مسلم لیگ ق کے سربراہ تھے اور چوہدری برادران پر پرویز مشرف اپنے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز کی تمام تر کوششوں کے باوجود اعتماد نہیں کر رہے تھے۔ انہیں اس وقت دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ضلع ناظم لاہور میاں عامر محمود نہیں بلکہ خود میاں اظہر بن رہے ہوں کہ خوشی میاں محمد اظہر سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔ پھر میاں عامر ضلع ناظم لاہور بن گئے مگر نہ جانے کیوں چند ہی ماہ بعد میاں عامر محمود اور میاں اظہر کے درمیان فاصلے پیدا ہو گئے اور میاں عامر نےچودھری پرویز الٰہی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ سچ یہ ہے کہ میاں محمد اظہر فاصلے پیدا کرنے والوں میں سے تھے ہی نہیں۔ وہ لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑتے تھے انہیں توڑنا تو آتا ہی نہیں تھا۔ ریا کاری اور منافقت تو ویسے بھی میاں اظہر سے پناہ مانگتی تھی اور ان سے دور ہی سے گزر جاتی تھی۔ میں پانچ سال دنیا ٹی وی سے وابستہ رہا اس دوران ہر اہم شخص کو دنیا ٹی وی کے دفتر آتے دیکھا، تقریبات میں شرکت کرتے اور میاں عامر محمود سے ملتے دیکھا، نہیں دیکھا تو میاں اظہر کو نہ دیکھا۔ مجھے اس سوال کا آج تک جواب نہیں مل سکا کہ میاں محمد اظہر اور میاں عامر کے درمیان اتنا گہرا فاصلہ کیوں اور کیسے پیدا ہوا۔
میاں اظہر کیا ہی طیب آدمی تھے جوں جوں ان کے عہدوں کا گراف بڑھتا گیا توں توں ہی ان میں عاجزی بھی بڑھتی گئی۔ بطور لارڈ میئر لاہور ایک تقریب میں موجود تھے، لوگوں نے شہر میں بڑھتی ہوئی تجاوزات کی طرف توجہ دلائی، وہیں بیٹھے بیٹھے میاں محمد اظہر نے بلدیہ کے ایک ذہین افسر چوہدری منیر جو کئی سال قبل دنیا سے جا چکے ہیں، سے سوال کیا۔ “دس کس طراں کریے” چوہدری منیر نے جواب دیا بیڈن روڈ پر میاں نواز شریف کے ماموں عبدالحمید کا آئس کریم کارنر کی آڑ میں قبضہ ختم کروا دیں پورے شہر میں پیغام چلا جائے گا اور پھر کوئی بھی مزاحمت نہیں کرے گا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے آرڈر جاری کیا، فورس بھجوائی اور اسی شام نواز شریف کے ماموں کا قبضہ ملیا میٹ اور نرالا آئس بار کے ساتھ نرالا ہی سلوک ہو چکا تھا۔ بس پھر اگلے ہی روز سے لوگوں نے از خود تجاوزات گرانے کا کام شروع کر دیا اور اس جیسا میرٹ پر مبنی آپریشن لاہور میں آج تک نہیں ہو سکا۔ میاں نواز شریف پر ان کے حلقے کے ووٹروں اور شہریوں کا بہت سخت دباؤ تھا کہ میاں اظہر کو تجاوزات کے خلاف آپریشن سے روکا جائے مگر میاں اظہر کی فیملی کے احسانات تلے دبے ہوئے نواز شریف کسی بھی طور پر میاں اظہر کو روک نہیں سکتے تھے تو حل یہ نکالا گیا کہ میاں اظہر کو گورنر پنجاب لگا دیا جائے اور اس طرح ان کے گورنر پنجاب بننے کے بعد خواجہ ریاض محمود نے لارڈ میئر کا چارج سنبھالا تو تجاوزات کے خلاف آپریشن خود بخود رک گیا۔ ان کے گورنر بنتے ہی گورنر ہاؤس عوامی ڈیرہ اور سکول کے بچوں کا پکنک پوائنٹ بنا دیا گیا ۔دو سال کے عرصے میں لاکھوں بچوں نے گورنر ہاؤس کا دورہ کیا جبکہ دوسری طرف پنجاب میں امن و امان کی ذمہ داری بھی میاں نواز شریف نے اس وقت کے گورنر پنجاب کو سونپ دی تو ان دنوں پنجاب میں گوجرانوالہ، کبیر والا، پتوکی اور گجرات کے بعض علاقوں سمیت پنجاب کے کئی علاقے نو گو ایریا بنے ہوئے تھے اور شام ہوتے ہی سرکاری اداروں و پولیس کا کنٹرول ختم اور ڈاکوؤں کا کنٹرول شروع ہو جاتا تھا۔ شاید کوئی یقین کرے نہ کرے کہ کسی دور میں بھائی پھیرو اور پتو کی کے درمیان اسی طرح خانیوال اور کبیر والا بائی پاس کے درمیان رات کو باقاعدہ پولیس کی گاڑیوں کی حفاظت میں کانوائے چلتے تھے کہ ان سڑکوں پر ڈاکوؤں کا قبضہ ہوتا تھا، میاں اظہر نے تھانہ واہنڈو ضلع گوجرانوالہ میں غنڈا عناصر کا صفایا کیا تو دو ہی ہفتوں میں پورے پنجاب میں تمام تر نو گو ایریاز ختم ہو گئے۔ گورنر کی اس مداخلت سے اراکین اسمبلی نکونک ہو گئے اور ان میں سے بعض کے راکھویں اشتہاریوں پر زمین تنگ ہوتی گئی تو اراکین اسمبلی کے وفد نے میاں نواز شریف سے مل کر یہ سلسلہ بھی بند کروا دیا۔ (جاری ہے)

شیئر کریں

:مزید خبریں