آج کی تاریخ

مہنگائی کنٹرول پالیسی و میکنزم کی ناکامی کا ذمہ دار کون؟

مہنگائی کنٹرول پالیسی و میکنزم کی ناکامی کا ذمہ دار کون؟

پنجاب اور وفاق میں انتظامیہ کے سربراہان کا تعلق پاکستان مسلم ليگ نواز سے ہے۔ وفاق میں وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف (مریم نواز شریف کے چچا) اور صوبہ پنجاب میں وزیر اعلی محترمہ مریم نواز شریف (سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور وزیراعظم پاکستان کی بھتیجی) ہیں – دونوں کی طرف سے عوام کو یہ یقین دلانے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے کہ وہ عوام کو فوری طور پر مہنگائی سے ریلیف دلانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات اٹھانے والے ہیں جن کی ثال ماضی میں نہیں ملے گی-
وزیر اعظم پاکستان نے 4 مارچ 2024ء کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالا، تب سے لیکر اب تک ان کے بیانات، اعلانات اور اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ان کا ڈسکورس صاف نظر آتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو مہنگائی میں جو یوٹیلٹی سروسز کے بلوں پر ٹیکسز، ڈیوٹی، ایڈجسٹمنٹ سرچارجز لگانے اور سبسڈیز کے خاتمے کا جو کردار ہے وہ ‘معقول اور بلا جواز نہیں ہے۔ وہ اس میں اور اضافوں کو ‘مجبوری قرار دے رہے ہیں- لیکن دوسری جانب اشیائے ضرورت میں جو بازار کی تیزی ہے اس بارے ان کا کہنا ہے کہ یہ تیزی پرچون سطح دکانداروں، ریڑھی بانوں کی ناجائز منافع خوری کا نتیجہ ہے۔ ان کی طرف سے اس کا وہ پرانا حل سامنے آیا ہے کہ رمضان ریلیف پیکج کا اعلان کردیا گیا۔
وزیر اعلی پنجاب صوبے کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیر اعلی ہیں اور وہ خود بھی اس میں /صنفی/ جینڈر پہلو کو نمایاں کرنے کا زبردست رجحان رکھتی ہیں اور اسے پنجاب کی سیاست میں ہی نہیں بلکہ صوبے کی انتظامی تاریخ کا ‘ انقلابی موڑ’ قرار دیتی ہیں- ایسا لگتا ہے جیسے وہ عوام کو یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ پنجاب کی انتظامی سربراہی ایک ‘خاتون کے ہاتھ آنے سے انتظامی پالیسی اور اقدامات کے میکنزم میں جوھری بدلاؤ آئے گا اور آ رہا ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہو رہا ہے؟ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے انھوں نے زور و شور سے جس پالیسی کا اعلان کیا اور جو اقدامات اٹھائے ہمیں افسوس سے یہ لکھنا پڑ رہا ہے، وہ ‘پرائس کنٹرول میکنزم’ میں کوئی نیا بدلاؤ نہیں لائے۔ ان سے مہنگائی میں یک دم اضافے کا گھن چکر وقفوں وقفوں سے چلنے کے پيجھے موجود اصل جڑ تک پہنچنے میں زرا مدد نہیں ملی۔
حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ‘ افراط زر ہے جس سے نمٹنے میں کامیابی ابھی تک دور ہے۔ غریب افراط زر کے بلند شعلوں سے جھلس رہے ہیں۔ اور ایسا بلندافراط زر جو 23 فیصد ہو یونہی جاری رہا تو یہ سیاسی میدان میں ‘آتش فشاں بنکر کسی وقت بھی پھٹ پڑے گا-
پاکستان میں سروے برائے گھرانہ آمدن و اخراجات ( ہاؤس ہولڈ انکم اینڈ ایکسپنڈیچر سروے) – ایچ آئی ای ایس آخری بار 2018ء میں ہوا تھا اور اس کے بعد نہیں ہوا- اس وقت سے لیکر اب تک افراط زر سمیت کئی عوامل نے یقینی بات ہے پاکستان میں ہر گھرانے کی آمدن اور اخرجات میں بڑا تفاوت ہے اور آمدن اگر منفی ہوئی تو خرچ لامحالہ بہت زیادہ بڑھ کئے ہوں گے۔ لیکن محکمہ شماریات پاکستان نے 6 سال ہونے کو آئے ہیں پاکستان کے کل گھرانوں کی آمدن اور اخراجات کا سروے ہی نہیں کیا تو ہمیں کیسے اصل صورت حال کا پتا چلے گا- جیسے اس نے چار سال کزرگئے پاکستان لیبر سروے نہیں کیا ہے۔ لیکن ہمارے پاس محکمہ شماریات پاکستان کی ماہانہ، چار ماہی اور سالانہ شرح مہنگائی کی رپورٹیں دستیاب ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ جیسے 16 ماہ میں پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت اور ششماہی نگران حکومتی سیٹ اپ اور منتخب حکومت کا 12 روزہ دور تینوں میں ‘حساس قیمتوں کے اشاریے (ایس پی آئی) کو قابو میں کرنے کے سارے دعوے ‘سعی ناکام ثابت ہوئے ہیں- بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں کے اشاریے کو محکمہ شماریات ‘حساس قیمتوں کا اشاریہ -ایس پی آئی کہتا ہے۔ اور اسی کا ایک پیمانہ ‘مجموعی حساس قیمتوں کا اشاریہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ ہفتہ وار، ماہانہ و دیکر عرصے میں مختلف آمدنی کے حامل لوگوں پر اشیائے بنیادی ضرورت و خدمات کی قیمتیں سال رواں کے اعتبار سے کیا اثر ڈال رہی ہیں- اگر ہم یہاں پی ڈی ایم اول کی حکومت سے پی ڈی ایم دوم کی حکومت تک کے دورانیے میں بنیادی اشیائے ضرورت و خدمات کی قیمتوں میں اضافے کی شرح اور اس کے عام آدمی کی آمدن پر اثرات کا جائزہ لیں تواپریل2022ء میں جب پی ڈی ایم حکومت آئی تو مجموعی ایس پی آئی /مہنگائی کی شرح 181ء42فیصد تھی اور ماہانہ شرح مہنگائی 14ء22 فیصد تھی- اور جب 16 ماہ بعد آکست 2023ء میں اس نے نگران حکومت کے لیے میدان خآلی کیا تو اس وقت مجموعی ایس پی آئی/ شرح مہنگائی 280ء03 فیصد اور ماہانہ ایس پی آئی/ مہنگائی کی شرح 27ء83 فیصد ہوچکا تھا- اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ پی ڈی ایم اول کے دور میں ایک عام آدمی پر آمدن پر بنیادی اشیائے ضرورت اور سروسز کی قیمتوں کے مجموعی بوجھ میں قریب قریب 100 فیصد اور مہانہ بنیادوں پر قریب قریب پونے چھے فیصد اضافہ ہوگیا تھا- نگران حکومت فروری 2024ء تک یعنی 6 ماہ میں مجموعی سی پی آئی 309ء48 فیصد ( یعنی 29 فیصد زائد) اور ماہانہ سی پی آئی 30ء 37 کر چکی تھی- یعنی اس میں بھی 10 فیصد کا اضافہ ہوگیا تھا- تازہ ترین اعداد و شمار 14 مارچ تک کے ہیں جس کے مطابق اس وقت مجموعی ایس پی آئی /شرح مہنگائی 327 فیصد ہوچکا ہے۔ اور اگر ہفتہ وار مہنگائی کی شرح کے اعتبار سے اگر حالیہ 3 ہفتوں کی شرح مہنگائی کو دیکھ لیں تو یہ 29 فروری سے 14 مارچ تک 311 فیصد سے 320 فیصد تک جا پہنچکی ہے۔ یعنی 3 ہفتوں میں عام آدمی کی آمدن پر بنیادی اشیائے ضرورت اور خدمات کی خریداری کا بوجھ 9 فیصد بڑھ گیا ہے۔ پی ڈی ایم اول، نگران اور پی ڈی ایم دوم تینوں کے ‘مہنگائی کنٹرول پالیسی اور میکنزم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن پالیسی اور میکنزم کے اس اشتراک نے پاکستان کے عام آدمی کو بنیادی اشیائے ضرورت اور خدمات کے باب میں قیمتوں میں کہیں کوئی ریلیف نہیں پہنچایا اور 23 ماہ 16 دن کے دورانیے میں بنیادی اشیائے ضروریات اور خدمات کی قیمتوں کے اشاریے میں 23 ماہ میں مجموعی اضافہ 128 فیصد اور باقی کے 16 دن میں مزید 9 فیصد یعنی یہ 137 فیصد بن جاتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کے ہمسایہ ممالک کو دیکھیں جہاں پر مہنگائی کا ایشو بہت زیادہ زیر بحث آ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی عوامی لیگ حکومت پر بہت دباؤ بھی ہے اور یہ دباؤ اس صورت حال کے باوجود ہے کہ وہاں مجموعی افراط زر محض 18 فیصد جبکہ پاکستان میں یہ 23 فیصد ہے وہاں پر ایک ڈالر کی ٹکا کے مقابلے میں شر تبادلہ 92 روپے ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 37 ارب ڈالر سے زائد اور معشیت سالانہ 5 اعشاریہ 2 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے جبکہ پاکستان کے لیے اسے 2 فیصد پر برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ وہاں غربت 18 فیصد ہے اور ہمارے ہاں یہ 40 فیصد ک پہنچ چکی ہے۔
یہ تفصیل ہمارے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ آخرکار پاکستان کی حکمان اشرافیہ کے پاس پاکستان کی معیشت کے بڑے اشاریوں کو ٹھیک کرنے، عام آدمی کو کم از کم بنیادی اشیائے ضرورت و خدمات کی سستی قیمتوں میں فراہمی کا کوئی لائحہ عمل ایسا کیزں نہیں ہے جو عام آدمی کو ریلیف فراہم کرسکے۔ عام آدمی کے ذہن میں اب ایک ہی سوال کردش کرنے لگا کہ آخر پاکستان کے ٹیکس دہندگان دنیا کی چند مہنگی ترین حکومتی اخراحات کی حامل اتنی بڑی سرکاری نوکر شاہی کا بوجھ کیوں برداشت کریں جس کا ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کروڑوں روپے کی فارچونر رکھتا ہو اور اے ڈی سی جی و اسٹنٹ کمشنر بھی کروڑوں روپے کی گاڑیاں رکھتے ہوں۔ عوام کے اندر یہ سوال بھی گردؤ کرے گا کہ آخر ایسے صوبے یا ملک کے انتظامی سربراہوں کو آرمڈ مرسڈیز جیسی سرکاری گاڑیوں میں سفر کرنا زیب دیتا ہے جس کے محض ٹائر ہی 10000 کلومیٹر سفر کے بعد تبدیل کرنے پڑیں اور ٹائروں، پوشش و نشستیں تبدیلی کا کام ہی 2 کروڑ 72 لاکھ روپے میں پڑتا ہو- جب کہ وفاقی حکومت کا حال یہ ہے اسے اپنی آمدن سے کہیں زیادہ ادائیگی تو لیے گئے غیر ملکی قرضوں کی سود کی اقساط کی مد میں دینا پڑ رہی ہے۔ جبکہ پنجاب حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے صرف کمرشل بینکوں کو قرضوں کی مد میں فروری تک 600 ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہے جو جون 2024 رواں مالی سال کے اختتام تک 11 کھرب ہوجآئيں گے۔ حکومت کی اپنی آمدنی فروری تک 180 ارب روپے تھی اور اس نے وفاقی حکومت سے 800 ارب لیے ۔ باقی کمی قرض اٹھا کر پورا کی- اتنی خوفناک مالیاتی صورت حال میں گھرے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی انۃطامی مشینری کو کیا بھاری بھر پروٹوکول و اللّے تللوں پر خرچ زیب دیتا ہے؟ یہ وہ مسئلہ ہے جسے چیف منسٹر پنجاب کو حل کرنا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں