حالیہ دنوں ایک تشویشناک خبر منظر عام پر آئی کہ پاکستان شدید ماحولیاتی بحران کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت کے نئے چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرنے کا عندیہ دیا اور کہا کہ ’’بھارت کا پانی اب بھارت کے مفاد میں استعمال ہوگا۔‘‘ یہ بیان نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان موجود پرانے تنازعات کو مزید بھڑکا سکتا ہے بلکہ ایک ایسے معاہدے کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے جو ساٹھ برس سے زائد عرصے تک دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کو منصفانہ انداز میں قائم رکھے ہوئے ہے۔ سندھ طاس معاہدہ عالمی سطح پر ایک کامیاب اشتراکِ عمل کی مثال سمجھا جاتا ہے جس نے برصغیر کے کروڑوں انسانوں کو پانی کی فراہمی اور خوراک کی سلامتی کا سہارا دیا۔
پاکستان کی صورتحال اس وقت اور بھی سنگین ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی نے پانی کے نظام کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔ درجہ حرارت بڑھنے سے ہمالیہ کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، بارشوں کا نظام بگڑ چکا ہے، کبھی شدید خشک سالی اور کبھی تباہ کن سیلاب ملک کے زرعی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہ بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ صرف ۲۰۲۲ کے سیلاب میں ایک کروڑ سے زائد افراد صاف پانی سے محروم ہو گئے اور لاکھوں ایکڑ رقبہ کھڑی فصلوں سمیت تباہ ہوا۔ اگست ۲۰۲۵ میں ایک بار پھر پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع میں شدید بارشوں اور بھارت کی جانب سے ڈیموں سے پانی چھوڑنے کے نتیجے میں دریاؤں میں طغیانی آئی، جس سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا اور آٹھ سو سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جو ’’انتہائی شدید پانی کے خطرے‘‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔ انیس سو اکاون میں فی کس پانی کی دستیابی تقریباً پانچ ہزار دو سو ساٹھ مکعب میٹر تھی جو اب کم ہو کر محض ایک ہزار مکعب میٹر رہ گئی ہے، اور پیش گوئی ہے کہ ۲۰۲۵ تک یہ آٹھ سو ساٹھ مکعب میٹر تک گر جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان عملی طور پر ’’پانی سے محروم‘‘ ملک بن چکا ہے۔ پانی کے اس قلیل ذخیرے کا ۹۳ فیصد زرعی شعبے میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ گھریلو ضروریات کے لیے صرف پانچ فیصد اور صنعتی شعبے کے لیے دو فیصد بچتا ہے۔ نتیجتاً نہ صرف شہروں میں پانی کی قلت بڑھ رہی ہے بلکہ زرعی شعبہ بھی دباؤ کا شکار ہے۔
زرعی پیداوار پر پانی کی کمی کے اثرات واضح ہیں۔ گندم، کپاس اور چاول جیسی بنیادی فصلیں غیر یقینی بارشوں اور پانی کی قلت کے سبب متاثر ہو رہی ہیں۔ پاکستان کی برآمدات کا بڑا حصہ انہی فصلوں سے جڑا ہوا ہے۔ اگر پانی کی فراہمی میں تسلسل برقرار نہ رہا تو زرعی برآمدات کا سکڑ جانا معیشت کو مزید بحران میں دھکیل دے گا۔ سندھ طاس ڈیلٹا میں پانی کے بہاؤ میں کمی نے صورتحال مزید خراب کر دی ہے۔ پچھلے سات دہائیوں میں یہاں پانی کی مقدار میں اسی فیصد کمی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں سمندری پانی اندر تک داخل ہو گیا اور زمین کی زرخیزی تباہ ہو گئی۔ اب ڈیلٹا کے ستر فیصد رقبے میں نمکینیت بڑھ چکی ہے، جس سے مچھلی، جھینگا اور دیگر سمندری وسائل بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
سندھ طاس معاہدہ ماضی میں جنگوں، ایٹمی تناؤ اور سیاسی بحرانوں کے باوجود قائم رہا لیکن آج اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تبدیلی اور سیاسی بے یقینی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ معاہدہ صرف پانی کی تقسیم نہیں بلکہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہمارے کسانوں کی بقا، ہماری توانائی کے منصوبے اور ہماری معیشت کا انحصار انہی دریاؤں پر ہے۔ اگر معاہدے کے تحت طے شدہ پانی کے بہاؤ کو بھارت یکطرفہ طور پر روکنے کی کوشش کرے یا موسمیاتی تبدیلی کے دباؤ کو نظر انداز کیا جائے تو پاکستان کے لیے صورت حال ناقابلِ برداشت ہو سکتی ہے۔
اس وقت دونوں ممالک کو چاہیے کہ معاہدے کو نئی روح کے ساتھ فعال کریں۔ اس میں موجود دفعات، جیسے مشترکہ تکنیکی کمیٹیاں اور آرٹیکل ہفتم کے تحت مستقبل کے تعاون کی شق، کو بروئے کار لایا جائے۔ بدلتے حالات میں ڈیٹا شیئرنگ، مشترکہ تحقیق، گلیشیائی نظام کے تحفظ کے اقدامات اور ڈیموں و آبی ذخائر کی بہتر منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ یہ سب اقدامات صرف پاکستان یا بھارت کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔
سندھ طاس معاہدہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ بین الاقوامی اشتراک کیسے ایک خطے میں امن اور پائیدار ترقی لا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے اور بڑی طاقتیں اب بھی اس معاہدے کو محفوظ رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ لیکن اصل ذمہ داری پاکستان اور بھارت پر ہے۔ انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ پانی کے مسائل قومی مفادات کی حدود سے نکل کر اجتماعی بقا کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ اگر دونوں ممالک تعاون نہ کریں تو نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا کی خوراک کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ یا تو پاکستان اور بھارت مل کر اس معاہدے کو موسمیاتی تبدیلی کے دباؤ کے مطابق ڈھالیں گے اور اپنے لوگوں کی بقا کو یقینی بنائیں گے، یا پھر یہ خطہ پانی کے بحرانوں، قحط اور تنازعات میں الجھتا چلا جائے گا۔ سندھ طاس معاہدہ ایک ایسی بنیاد ہے جس پر مستقبل کی سلامتی اور استحکام تعمیر ہو سکتا ہے۔ ضرورت صرف اس عزم کی ہے کہ دونوں ممالک اپنی سیاسی کشیدگی کو پسِ پشت ڈال کر عوام اور خطے کے وسیع تر مفاد کو ترجیح دیں۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے جنوبی ایشیا موسمیاتی بحران کے باوجود ایک پائیدار اور محفوظ مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
