
اسلام آباد: ماہرین کے مطابق بھارت پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، اور حالیہ واقعات نے ایک بار پھر اس کے دوغلے پن اور منافقانہ پالیسیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارت جو اقوامِ متحدہ میں بارہا افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کے الزامات لگاتا رہا، اب اسی افغان طالبان حکومت کے ساتھ اپنے مفادات کے لیے ہاتھ ملا رہا ہے۔
افغان طالبان کے وزیرِ خارجہ کا حالیہ دورۂ بھارت اور اس کے فوراً بعد پاکستان پر ہونے والا حملہ اس گٹھ جوڑ کی واضح مثال ہے۔ پاکستان پہلے ہی کئی بار شواہد کے ساتھ ثابت کر چکا ہے کہ بھارت فتنۂ خوارج اور طالبان عناصر کا سہولت کار ہے، جو پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ کو ہوا دے رہا ہے۔
بھارت کے اندر بھی مودی حکومت کے اس رویے پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے مودی پر ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی اور اخلاقی پستی کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مودی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ:
“جن طالبان کو بھارت کل تک دہشت گرد کہتا تھا، آج انہی سے مذاکرات کر رہا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ: “کل تک آپ کے لوگ داڑھی والوں کی داڑھیاں نوچتے تھے، ٹوپیاں اتارتے تھے، آج بڑی پگڑی والے آتے ہیں تو آپ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں۔”
تجزیہ کاروں کے مطابق، مودی حکومت کا افغان طالبان سے تعلقات استوار کرنا نہ صرف دوغلی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھارت کے پاکستان مخالف عزائم کی بھی تصدیق کرتا ہے۔
یہ گٹھ جوڑ دراصل پاکستان کے خلاف پراکسی نیٹ ورک کو مضبوط کرنے کی ایک منظم کوشش ہے۔