اپنی بھارت یاترا کے حوالے سے کالموں کی سیریز کی آخری قسط 3 جولائی 2024ء کو شائع ہوئی جس میں منو بھائی کے کالم گریبان بعنوان ’’ دل دریا سمندروں ڈونگے‘‘ جو کہ 12 جنوری 1980ء کو شائع ہوا اسے من وعن دوبارہ بطور حوالہ میں نے اپنے کالم روداد زندگی کا حصہ بنایا۔ تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا مگر بقول غالب ’’پر طبیعت ادھر نہیں آتی‘‘ کی سی کیفیت میں رہا کیونکہ 4 اگست کو اپنے بیٹے عبدالرحمٰن سے ملنے جرمنی چلا گیا اور 13 ستمبر کو اٹلی، آسٹریا، سلوینیا ، ہالینڈ اور فرانس کی خاک چھانتے ہوئے ترکی سے ہوتا ہوا 40 روزہ چلہ کشی کے بعد پاکستان آیا۔ بھارت یاترا سے واپسی پر ڈاکٹر آفتاب چھاوڑی کے پاس 8 جنوری 1980ء کو K.E کے ہاسٹل میں قیام کیا تھا اور لاہور ہی میں معروف دانشور اور کالم نگار منو بھائی تک رسائی ہوئی اور گرمیل سنگھ کی خواہش پوری ہوئی۔ لاہور میں ڈاکٹر چوہدری آفتاب چھاوڑی کے دوستوں ڈاکٹر امتیاز شیرازی، ڈاکٹر اکرم خان اور ڈاکٹر عبدل سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ ڈاکٹر آفتاب میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہیں ان کے بڑے بھائی افتخار فخر چھاوڑی مرحوم میرے کلاس فیلو تھے۔ یہ خاندان اپنی مہمان نوازی رواداری تعلق قائم رکھنے اور نبھانے کی روایات کا پہلے کی طرح اب بھی امین پے انہیں کے وجہ سے ڈاکٹر امتیاز شیرازی ڈاکٹر اکرم خان اور ڈاکٹر کرنل عبدل سے جو تعلق قائم ہوا وہ آج بھی قائم ہے۔ گزشتہ 45 برس میں معاشرتی اور سماجی روایات میں مسلسل تنزلی کے ہمارے عہد کے لوگ عینی شاہد ہیں ہماری پیڑھی کے لوگ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو ہی نہ سکے۔ یہ اپنی جگہ ایک المیہ بھی ہے۔ میرے جیسے پینڈو یا قصباتی پس منظر رکھنے والے لوگ جب پردیس جاتے ہیں تو رہائش کیلئے کسی دوست رشتہ دار یا تعلق دار کا ٹھکانہ ڈھونڈ لیا کرتے ہیں جسے آپ معصومانہ مفاد پرستی بھی کہہ سکتے ہیں۔ مگر پہلے لوگ مہمان کو اللہ کی رحمت سمجھتے تھے اور ہم جیسے لوگ اس رحمت سے فیض یاب ہونے والے آخری پیڑھی ہیں۔ مجھے یاد ہے ہمارے گائوں روہیلانوالی سے رانا طیب مرحوم 1960 کے قریب کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملازم ہو گئے۔ ہمارے گاوں کا جو بھی بندہ کراچی میں وارد ہوتا، انہیں کا مہمان ٹھہرتا۔ حج اور عمرہ کیلئے جانے والے تو خاص طور پر انہی کے مہمان ہوتے۔ میں 1976ء میں کراچی گیا تو رانا طیب کے رشتہ دار نے کچھ سامان دیا کہ اسے رانا صاحب کے گھر پہنچا دینا۔ میں کراچی میں اپنے دوست کے پاس ڈائو میڈیکل ہاسٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے طیب صاحب کو فون کیا اور بتایا کہ ان کا کچھ سامان ہے کہاں پہنچا دوں تو انہوں نے پوچھا تم کہاں ہو میں نے کہا آپ کہاں ہیں اس نے بتایا میں اپنے دفتر ڈرائی پورٹ ٹرسٹ میں ہوں میں ان کے دفتر پہنچ گیا اور ان کا سامان ان کے حوالے کیا وہ بڑے حیران ہوتے ہوئے بولے کہ تم میرے پاس کیوں نہیں ٹھہرے کہاں ٹھہرے ہو۔ میں نے بتایا کہ دوست کے پاس ٹھہرا ہوں تو طیب صاحب کہنے لگے کہ جب میرے پاس چھوٹا گھر تھا تو زیادہ مہمان بھی ہوتے تھے، گزارہ کر لیتے تھے، اب میں نے مہمانوں کیلئے دو کمرے الگ سے بنوا لئے ہیں اب مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اگر تم میرے پاس ٹھہرتے تو مجھے خوشی ہوتی۔ طیب صاحب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں چھاوڑی خاندان جیسے چند گنے چنے گھرانے رہ گئے ہیں جو پرانی روایات کو ابھی تک سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل بزرگوں کے دوستوں کو مہمان کی بجائے بلائے جان تصور کرتی ہے۔ تکلفات اور مہنگائی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے اور اب مہمان بھی موجودہ دور کی تمام اسائشوں کا طلب گار ہوتا ہے شائید اسی لئے شادیوں پر مہمانوں کیلئے ہوٹلوں میں کمرے بک کروائے جاتے ہیں۔ روایتی پیار محبت کی جگہ دکھاوے، ظاہر داری اور جعلی شان و شوکت نے لے لی ہے زیورات، کپڑوں کے مقابلوں کی وجہ سے شادی بیاہ یا منگنی کی تقریبات نے فیشن شو کا روپ دھار لیا ہے ۔ شادی تقریبات یعنی مہندی، ولیمہ، ڈھولکی وغیرہ لوئر مڈل اور اپر مڈل کلاس کیلئے اب تو “ایمان” کا درجہ پا چکی ہیں۔اب تو شادی خاص طور پر بیٹی کی شادی والدین کیلئے پل صراط بن چکی ہے۔ شادی کی خریداری پر بقول میرے دوست جن کا میں نام نہیں لکھ رہا تاہم وہ ضرور سمجھ جائیں گے “خواتین جب تک دوچار ماہ خجل خوار نہ ہولیں تو انہیں شادیوں کا مزہ نہیں آتا” اب دوستی اور رشتہ داری کا تعلق پیار و محبت کی بجائے مفاد پرستی کے بنیاد پر قائم ہوتا ہے میں پھر بھٹک گیا۔ بات منو بھائی کے کالم سے شروع ہوئی تھی کہاں جا پہنچی ۔ منو بھائی کے کالم کی اشاعت کے بعد مجھے گرمیل سنگھ کا خط ملا جو کہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں اس نے کسی سے لکھوایا تھا، جس میں اس نے بتایا کہ اس کی بہن مریم کا اپنے والد ولی محمد سے رابطہ ہو گیا ہے اس سے پہلے میں نے منو بھائی کا کالم خط کے ذریعے گرمیل سنگھ کو بھیج دیا تھا۔ گرمیل سنگھ کا خط کافی عرصہ میرے پاس رہا مگر مسلسل نقل مکانی کی وجہ سے بہت کوشش کے بعد بھی مجھے نہیں ملا۔ منو بھائی کے کالم نے دو بچھڑنے والوں کو ملا دیا اور وہ باپ بیٹی کے درمیان رابطے کا سبب بن گئے۔ دم توڑتی روایات کی طرح منو بھائی جیسے مخلص اور انسانیت پرست دانشور بھی اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
