ملک بھرمیں عام انتخابات کی تیاریاں تیزی سےجاری ہیں۔سیاسی جماعتیں اپنامنشورلیکرمیدان میں اتری ہوئی ہیں تودوسری جانب نگران حکومت اورالیکشن کمیشن اپنے فرائض کی بجاآوری میں مصروف ہیں۔عام انتخابات میں چندروزباقی رہ گئے ہیں۔تمام شکوک وشبہات اب ختم ہوجانےچاہئیں۔گزشتہ روز وفاقی کابینہ نےبھی عام انتخابات کے لیے فوج اور آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری دے دی ۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہواجس میں ملک کی موجودہ، معاشی اور انتخابی صورت حال سے متعلق امور پر غور کیا گیا۔اجلاس میں وفاقی کابینہ نے الیکشن کے دوران سول آرمڈ فورسز کی تعیناتی کی منظوری دے دی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ حساس علاقوں میں کوئیک رسپانس فورس کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔اس سے قبل وزارت داخلہ نے 8 فروری کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں فوج کی کوئیک رسپانس فورس کے طور پر تعیناتی کی سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کی تھی۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی انتخابات کے دوران فوج تعینات کرنے کے لیے خط لکھا تھا، جس میں 2 لاکھ 77 ہزار پاک فوج، رینجرز اور ایف سی کے اہل کاروں کی خدمات طلب کی گئیں تھیں۔دوسری جانب سکیورٹی خدشات کے باعث صوبہ پنجاب میں محکمہ داخلہ نے آٹھ فروری کو ہونے والی عام انتخابات سے قبل دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ’انتخابی مہم کے دوران صوبے میں امن و امان کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے دفعہ 144 لگائی جا رہی ہے۔‘نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’دفعہ 144 کے تحت جائز اور ناجائز اسلحہ لے کر نکلنے اور ہوائی فائرنگ پر پابندی ہوگی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی بھی دفعہ 144 کے زمرے میں آئے گی۔‘محکمہ داخلہ کے مطابق ’آٹھ فروری کو جنرل الیکشن میں سکیورٹی خطرات کی اطلاعات ہیں، دہشت گردی کے علاوہ امیدواروں میں لڑائی جھگڑے کے امکانات ہیں۔ حکومت پنجاب کی جانب سے دفعہ 144 کا نفاذ 12 فروری تک رہے گا۔‘قارئین کرام پاکستان میں عام انتخابات سے قبل سوشل میڈیا ویڈیو ایپ ٹک ٹاک نےبھی اپنے پلیٹ فارم پر انتخابی اخلاقیات کے اقدامات کے حوالے سے اپنا ضابطہ اخلاق جاری کر دیا ہے۔پلیٹ فارم کی جانب سے جاری گائیڈ لائن کے مطابق ’اس اقدام سے ٹک ٹاک اس عزم کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ خاص طور پر اہم سماجی ایونٹس کے دوران ایک ذمہ دار اور قابلِ اعتماد معلومات کا ذریعہ ثابت ہو۔‘ٹک ٹاک کے مطابق: ’کمیونٹی گائیڈلائنز کو مدِنظر رکھتے ہوئے غلط معلومات، تشدد اور نفرت انگیز تقاریر سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔‘’یہ پلیٹ فارم ووٹر رجسٹریشن، امیدوار کی اہلیت، بیلٹ کاؤنٹنگ اور انتخابی نتائج جیسے سرکاری عوامل کے بارے میں گمراہ کن معلومات کو ہٹانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔‘بیان کے مطابق: ’ٹک ٹاک کی پالیسیاں ایسے مواد پر قدغن لگاتی ہے جو ووٹرز کو دھمکانے، ووٹنگ کے عمل کو متاثر کرنے، یا کسی کو تشدد پر اکساتا ہو۔‘ٹک ٹاک کے مطابق اس کے عالمی سطح پر 40 ہزار سے زائد کارکنان جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ پلیٹ فارم پر صارفین کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے وقف ہیں جس کے لیےانٹیلی جنس فرمز، انڈسٹری پارٹنرز اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کا مکمل تعاون حاصل ہے۔غلط معلومات کی روک تھام میں مدد کے لیے ٹک ٹاک مقامی اور علاقائی فیکٹ چیکرز کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے تاکہ پلیٹ فارم سے مسلسل اور درست طریقے سے غلط معلومات کو ہٹایا جاسکے۔دوسری جانب نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ بین الاقوامی مبصرین اور صحافی آئندہ ماہ کی آٹھ تاریخ کو ہونے والے عام انتخابات کی نگرانی اور کوریج کے لیے پاکستان کا دورہ کریں گے جن میں سے 49 کو ویزے جاری کیے جا چکے ہیں اور باقی پر کارروائی جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ مبصرین اور غیرملکی صحافیوں کو 49 ویزے جاری کیے گئے ہیں جبکہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو موصول ہونے والی 24 درخواستیں ویزا کے لیے زیرِ غور ہیں۔درخواستوں پر کارروائی کی تفصیلات بتاتے ہوئے نگران وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’غیر ملکی صحافیوں کو اب تک 49 ویزے جاری کیے جا چکے ہیں جب کہ 32 پر کارروائی جاری ہے۔‘وزیر اطلاعات نے کہا کہ مختلف غیر ملکی میڈیا اداروں سے مجموعی طور پر 175 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔مرتضیٰ سولنگی نے بتایا کہ سی این این، بی بی سی، ڈی ڈبلیو اور جاپان کے متعدد بین الاقوامی میڈیا ادارے پہلے ہی پاکستان میں موجود ہیں اور وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کی کوریج کریں گے۔مرتضیٰ
سولنگی نے کہا کہ غیر ملکی مبصرین کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواستوں پر بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ سے 25، روس سے آٹھ، جاپان سے 13، کینیڈا سے پانچ، جنوبی افریقہ سے دو اور دولت مشترکہ سے پانچ درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ بین الاقوامی صحافیوں اور مبصرین کو تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں انتخابی عمل کی نگرانی اور کوریج کے لیے اجازت نامے دیے جا رہے ہیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی غیر ملکی صحافی کسی دوسرے شہر کا دورہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے کیس پر کیس کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔‘وزیر اطلاعات نے کہا کہ مقامی صحافیوں کو عام انتخابات کی کوریج کے لیے ایکریڈیشن کارڈ فراہم کیے جا رہے ہیں اور ملک بھر میں اب تک چھ ہزار 65 ایکریڈیشن کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں۔مرتضیٰ سولنگی نے شہر کے حساب سے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ لاہور میں 1200، کراچی میں 1470، پشاور میں 1050، کوئٹہ میں 600، حیدرآباد میں 355 اور فیصل آباد میں 290 کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔ادھرالیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 17 جنوری 2024 کو جاری کیے جانے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق ادارے نے ملک بھر کے بلدیاتی و کینٹ بورڈز کے ترقیاتی فنڈز منجمد کر دیئے ہیں۔نوٹیفکیشن کے مطابق: ’صوبہ سندھ، خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور کینٹ بورڈز کے بلدیاتی اداروں کے ترقیاتی فنڈز عام انتخابات 2024 کی تکمیل تک منجمد رہیں گے جبکہ بلدیاتی ادارے صرف روز مرہ کے امور نمٹائیں گے۔‘نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ بلدیاتی ادارے انتخابات تک صفائی اور سینیٹیشن کا کام کریں گے اور نئی سکیم کا اجرا یا ٹینڈر جاری نہیں کر سکیں گے۔’وہ ترقیاتی کام جاری رہیں گے جن کا اعلان عام انتخابات کے شیڈول کے اجرا سے پہلے ہوا ہو۔‘نگران وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات و پارلیمانی امور مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تمام مفروضے اور افواہیں دم توڑ چکی ہیں اور آٹھ فروری کو صبح آٹھ بجے پولنگ سٹیشنز کھلیں گے اور پاکستان کے عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گے۔انہوں نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ 17 اگست 2023 کو نگران کابینہ کے حلف اٹھانے کے بعد سے وہ مسلسل یہی کہہ رہے ہیں کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے اور الیکشن کمیشن کو معاونت فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔’پاکستان کے آئین کے دیباچے میں لکھا ہے کہ یہ ملک اس کے منتخب نمائندے چلائیں گے۔ انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔‘انہوں نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے میڈیا کی ذمہ داری پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے، میڈیا کو اس ضمن میں ذمہ دارانہ رپورٹنگ کرنا ہوگی۔الیکشن کی تیاریوں کی نگرانی کے لیے وزیر اعظم کی قائم کردہ کمیٹی کے کنوینر اور نگران وفاقی وزیر برائے مواصلات، میری ٹائم افیئرز اور ریلوے شاہد اشرف تارڑ نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے پیر کو الیکشن کمیشن سیکرٹیریٹ میں ملاقات کی۔الیکشن کمیشن کےبیان کے مطابق ملاقات کے دوران نگران وفاقی وزیر نے الیکشن کمشنر کو انتخابات کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تیاریوں سے تفصیلی آگاہ کیا۔چیف الیکشن کمشنر نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سراہتے ہوئے نگران وفاقی وزیر کو ضروری ہدایات اور تجاویز دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ ذاتی طور پر ان تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے اسی ہفتے چاروں صوبائی دارالحکومتوں کا دورہ کریں اور نگران صوبائی حکومتوں، چیف سیکرٹری صاحبان اور آئی جی صاحبان سے ملاقات کر کے انتخابات کی تیاریوں کا تفصیلی جائزہ لیں۔دوسری جانب صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب اعجاز انور چوہان نے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسران کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ترجمان الیکشن کمیشن پنجاب کے مطابق بھکر میں ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر نے ٹینڈر منسوخ کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے ضلع کونسل بھکر کے چیف آفیسر کو مراسلہ جاری کر دیا ہے۔ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر نے پی پی 136 کے امیدوار احمد چٹھہ اور ننکانہ صاحب کے امیدواروں شازرا منصب، رانا ارشد اور آغا علی کو نوٹس جاری کر دیے جبکہ این اے 75 کے امیدوار دانیال عزیز کو 50 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔پی پی 265 اور این اے 143 کے امیدواروں کو بھی نوٹس جاری کر دیے گئے۔عام انتخابات کے لیے 26 کروڑ واٹر مارک والے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام زور و شور سے جاری ہے۔سرکاری ریڈیو نے سرکاری ذرائع سے خبر دی ہے کہ کراچی میں بلوچستان اور سندھ کے حلقوں کی چھپائی جاری ہے جب کہ خیبرپختونخوا، پنجاب اور اسلام آباد کے حلقوں کے لیے اسلام آباد میں سرکاری پرنٹنگ آفس میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی جاری ہے۔بیلٹ پیپر کی تیاری کے عمل کے دوران پرنٹنگ کارپوریشن کے احاطے میں سخت حفاظتی اقدامات نافذ کیے گئے ہیں۔ملک میں واٹر مارک والے بیلٹ پیپرز 2018 کے عام انتخابات کے دوران متعارف کرائے گئے تھے۔تین پرنٹنگ مشینیں، بشمول سکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن، پاکستان پوسٹل فاؤنڈیشن اور پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان، اس کوشش کے لیے کام کا بوجھ بانٹنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات سے قبل 92 ہزار 500 پولنگ سٹیشنز میں سے 17 ہزار 500 سے زائد پولنگ سٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دے دیا۔ریڈیو پاکستان کے مطابق الیکشن کمیشن نے کل حلقوں میں سے 32 ہزار 508 کو حساس اور 42 ہزار 500 کو نارمل قرار دیا ہے۔پولنگ اسٹیشنز کو اے، بی اور سی گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس کا تعین ان کی حساسیت کی سطح سے ہوتی ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر میں 17 ہزار 500 سے زائد پولنگ سٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ان میں سے چھ ہزار 599 پنجاب میں اور چار ہزار 430 سندھ میں ہیں جن کی نگرانی سی سی ٹی وی کیمروں سے کی جائے گی۔بلوچستان میں دو ہزار 38 اور خیبر پختونخوا میں چار ہزار 344 پولنگ سٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ملک میں آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں جہاں تیزی آئی ہے، وہیں ان کی جانب سے اپنے مخالفین پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔قارئین کرام عام انتخابات میں چندروزہی باقی رہ گئے ہیں۔تمام سیاسی جماعتیں انتخابی مہم چلارہی ہیں۔ووٹرزکواپنامنشورپیش کررہی ہیں۔اب عوام پرمنحصرہے کہ وہ8فروری کوآئندہ 5سال کیلئے کونسے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔اللہ سےدعاہے 8فروری کے انتخابات کے بعدجوبھی حکومت بنےوہ ملک اورقوم کیلئے سودمندثابت ہو۔عوام کومہنگائی ،بدامنی سے نجات ملے اورملک خوشحالی کےراستےپرچلے۔
