ملتان (وقائع نگار) پاکستان میں غیر معیاری اور جعلی ادویات کا کاروبار عروج پر، مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا پاکستان میں غیر معیاری، سب سٹینڈرڈ اور جعلی ادویات تیار کرنے کا گھناؤنا دھندہ اس قدر دھڑلے سے چل رہا ہے کہ اب یہ صرف “انڈسٹری کا مسئلہ” نہیں بلکہ قومی صحت کے لیے قاتلِ خاموش بن چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملک بھر میں درجنوں ایسی دوا ساز کمپنیاں موجود ہیں جو کاغذی کارروائی اور بھاری معاوضوںکے بل بوتے پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) سے رجسٹریشن حاصل کر لیتی ہیںلیکن ان کے پلانٹس میں تیار ہونے والی ادویات کا معیار چیک کرنے والا کوئی نہیں۔لاہور کے علاقے کوٹ لکھپت اور سمن آباد میں قائم کئی “مینوفیکچرنگ یونٹس” کا دورہ کرنے پر جو منظر سامنے آیا وہ انتہائی خوفناک تھا۔ ایک یونٹ میں تو لائف سیونگ اینٹی بائیوٹک بنائی جا رہی تھی مگر وہاں نہ تو ایئر لاک سسٹم تھا، نہ جراثیم کش فلٹر اور نہ ہی کوالٹی کنٹرول لیب۔ مزدور بغیر گلوز اور ماسک کے کھلے ہوئے خام مال کو ہاتھوں سے مکس کر رہے تھے۔”ہمارے پاس جو آتا ہے وہ پیک کر دیتے ہیں، کوئی انسپکٹر نہیں آتا۔ سال میں ایک بار جو آتا بھی ہے اسے بس چائے پلائی اور لفافہ تھما دیا جاتا ہے، کام ہو گیا”، نام نہ بتانے کی شرط پر ایک کمپنی کے پروڈکشن منیجر نے انکشاف کیا۔ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈریپ کے اندر بھی کچھ افسران نے “ریٹ مقرر کر رکھے ہیں ۔نیا پراڈکٹ رجسٹر کرانے کے لیے 10 سے 25 لاکھ روپے پلانٹ انسپکشن’’منظم‘‘کرانے کے لیے 5 سے 15 لاکھ لیبارٹری ٹیسٹ رپورٹس “ایڈجسٹ” کرنے کے لیے الگ سے فیس مقرر ہے گزشتہ تین سال میں پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں 40 سے زائد دوا ساز کمپنیوں کے خلاف کارروائی ہوئی مگر صرف 3 کمپنیوں کی رجسٹریشن منسوخ کی گئی باقی کو صرف وارننگ لیٹر” دے کر چھوڑ دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق ملک میں گردش کرنے والی 30 سے 40 فیصد ادویات یا تو سب سٹینڈرڈ ہیں یا بالکل جعلی۔ماہرِ امراضِ قلب کہتے ہیںہمارے پاس دل کے مریض آتے ہیں جنہیں سٹروک پڑ جاتا ہے کیونکہ خون پتلا کرنے والی دوائی میں ایکٹو اجزا ہی نہیں ہوتا۔ اینٹی بائیوٹک ریزسٹنس کی بڑی وجہ بھی یہی جعلی اور کم معیار کی ادویات ہیں۔حکومتی سطح پر دعوے تو بہت ہیں۔ وفاقی وزیرِ صحت نے گزشتہ ماہ پارلیمنٹ میں کہا کہ “جعلی ادویات بنانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا” مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج تک ایک بھی بڑی کمپنی کا مالک جیل نہیں گیا۔عوام اب سوال اٹھا رہے ہیں:جب تک رشوت اور سفارش کا نظام ختم نہیں ہوگا ہماری ادویات کیسے معیاری ہوں گی کیا ہمارے بچوں اور بوڑھوں کی جانیں اتنی سستی ہو گئی ہیں کہ جعلی ادویات سے کھیلا جا رہا ہے ڈریپ حکام کا کہنا تھا کہ “ہمارے وسائل محدود ہیں عملہ کم ہے، لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں۔” مگر یہ “کوشش” کب رنگ لائے گی، یہ وہی جانے جن کی جیبوں میں لفافے جا رہے ہیں اور جن کے گھروں میں مریضِ لا علاج تڑپ رہے ہیں۔







