ملتان (سٹاف رپورٹر) ملتان کی بلدیاتی حدود میں واقع پاک عرب فرٹیلائزر سے خارج ہونے والی زہریلی اور خطرناک ترین گیس نائٹرک آکسائیڈ کے بارے میںبتایا جاتا ہے کہ یہ انتہائی خطرناک دھماکا خیز مواد بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے حتیٰ کہ بم گولے بنانے اور خودکش جیکٹس میں بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ نائٹرک آکسائیڈکی بہت کم مقدار ان سے پاکستان کے حساس ادارے بھی خریدتے ہیں مگر چونکہ یہ بنتی بہت زیادہ مقدار میں ہے لہٰذا اس کو ہر ایک گھنٹے بعد فضا میں چھوڑ کر ضائع کیا جاتا ہے جو کہ گرین ہاؤس کے لیے انتہائی خطرناک اور انسانی زندگیوں کے لیے مہلک اور جان لیوا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سال 2005 میں جب ملتان کے فاطمہ گروپ کے ساتھ اس فیکٹری کی فروخت کے معاملات اندر خانے شروع ہوئے تو فاطمہ گروپ نے اس کھاد فیکٹری کے انتظامی افسران کو یہ لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا کہ ان کی ملازمتیں اور تمام تر مراعات اسی طرح جاری رہیں گی جس پر اس وقت کے عملے نے فیکٹری کی فروخت میں جب سٹاک کا ریکارڈ مرتب کیا تو سٹاک میں پڑی ہوئی کھاد سمیت تقریباً 6 ارب روپے مالیت کا سٹاک کم ظاہر کیا گیا اور اس مد میں بھی حکومت پاکستان کو نقصان پہنچایا گیا۔فیکٹری کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد فاطمہ گروپ نے بلیک مارکیٹنگ شروع کر دی اور منصوبہ بندی کے تحت پورے پاکستان میں ایک ہی شخص کو ملک بھر کی ڈسٹری بیوشن دے کر تمام ایجنسی ہولڈرز کو ان کے ماتحت کر دیا اور ایجنسی ہولڈرز مل سے مال خریدنےکے بجائے فاطمہ گروپ کے مقرر کردہ اکلوتے ڈسٹری بیوٹر سے مال لینے پر مجبور ہوئے اور مذکورہ ڈسٹری بیوٹر کے ساتھ اندر خانے فاتح گروپ کی ڈیل ہو گئی کہ بلیک مارکیٹنگ میں سے جتنا بھی پیسہ آئے گا اس کا 70 فیصد فاطمہ گروپ کو جائے گا اور 30 فیصد مذکورہ اکلوتے مین ڈسٹری بیوٹر کو جائے گا۔ اس طرح ایک ایک بوری اپنی اصل قیمت سے ڈیڑھ سے دو ہزار روپے زائد قیمت تک بھی بلیک میں فروخت کی گئی اور بعض جگہوں پر تین ہزار سے بھی زائد فی بوری قیمت پر ڈی اے پی کھاد مجبور کاشتکاروں نے خریدی کیونکہ ملک بھر میں مصنوعی ڈی اے پی کی قلت پیدا کرنے کے لئے تاخیر سے ڈی اے پی کھاد باہر سے امپورٹ کی گئی۔ اس کی تقسیم بھی مذکورہ مین ڈسٹری بیوٹر کے ذریعے ملک بھر کے سب ایجنٹ حضرات کو سپلائی کی گئی اور اس میں بھی مین ایجنٹ نے اسی 70 اور 30 کے فارمولے پر عمل درآمد جاری رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ دو سال قبل بلیک مارکیٹنگ میں بہترین سیل کی وجہ سے مذکورہ سول ڈسٹری بیوٹر کو اس کے طے شدہ کمیشن کے علاوہ فاطمہ گروپ نے 24 گھنٹے میں 13 فارچونر گاڑیاں سکیم کے تحت گفٹ کی تھیں۔







