سالوں بعد رات کے آخری پہر میں اچانک خیال آیا کہ ملتان کے قومی اخبارات کے ریزیڈنٹ ایڈیٹرز/ سٹیشن ہیڈز کون کون سے لوگ رہ چکے ہیں اور کون کون ان دنوں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ پھر سوچا کہ کب سے یعنی کتنے برسوں پہلے سے۔
راقم الحروف نے 1991 سے صحافتی میدان میں قدم رکھا تھا ان دنوں ملتان سے شائع ہونے والے اخبارات میں روزنامہ امروز تو آخری سانسیں لے رہا تھا اور ایم اے شمشاد صاحب اس کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھے دوسرے قومی اخبار روزنامہ نوائے وقت کے شیخ ریاض پرویز ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔ اسی دور سے ریزیڈنٹ ایڈیٹرز کا شمار کرنے کا فیصلہ کیا وقت گزرتا رہا روزنامہ امروز بتدریج بند ہوتا گیا۔ بتایا جاتا کہ اس وقت بھی روزنامہ امروز کی ملتان سے ہزاروں میں اشاعت ہوا کرتی تھی۔ تب سے 13 جون 1997 تک ملتان میں روزنامہ نوائے وقت اکلوتا قومی اخبار پھل پھول رہا تھا ۔
پھر 14 جون 1997 کو گلدین کالونی ملتان سے روزنامہ خبریں کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز ہوا تو بظاہر کھلنڈرے اور کم صحافتی تجربے کے حامل میاں غفار احمد لاہور سے ملتان آ کر پہلے ریزیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان بن گئے اور صحافت کے میدان میں اپنی اننگز کا آغاز کیا۔ اپنی بھرپور صلاحیت، محنت اور لگن سے خبریں ملتان کے ابتدائی چند ماہ چھوڑ کر جو کہ سخت مشکلات کے تھے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو منواتے ہوئے اپنی ٹیم کے ساتھ اس طرح کامیابی کی سیڑھی پر خبریں کو چڑھایا کہ دیکھتے دیکھتے خبریں ملتان کامیابیوں کی منازل طے کرتا چلا گیا اور چند برسوں میں خبریں ملتان سب سے بڑی اشاعت والا اتنا بڑا اخبار بن گیا کہ اس اکیلے کی اشاعت دیگر تمام اخبارات کے برابر بلکہ کبھی کبھار زیادہ ہو جاتی تھی۔
میری محترم میاں غفار احمد سے پہلے باقاعدہ تعارف کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے، ہوا یوں کہ جب میاں صاحب نے جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع کے شہروں میں کھلی کچہریاں شروع کر نے کا فیصلہ کیا تو پہلا انتخاب کہروڑ پکا کا کیا اور کھلی کچہری کی کوریج کیلئے رپورٹنگ سیکشن سے دو تین رپورٹرز بلوائے تو معلوم ہوا کہ ملتان شہر میں بہت زیادہ ایونٹس ہیں لہذا وہ اپنی اپنی بیٹس میں کوریج کے لیے جا چکے ہیں تب میاں صاحب نے مجھے میگزین سیکشن سے بلوایا اور فوٹو گرافر خالد چودھری کو ساتھ لیکر ڈرائیور سلطان سے گاڑی نکال کر چلنے کا حکم دے دیا۔ خیر جیسے جیسے گاڑی چلتی گئی میاں صاحب کا موڈ بھی اچھا ہوتا گیا اور پھر میاں صاحب کی طلسماتی شخصیت کا ایسا جادو چلا کہ ہم جو ڈرے سہمے چپ کرکے بیٹھے تھے ان کے ساتھ ایسے گھل مل گئے جیسے ہماری میاں صاحب سے بڑی پرانی جان پہچان اور دوستی ہو ۔
قارئین کے علم میں یہ بات لاتا چلوں کہ میاں صاحب کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ جو بھی ان سے پہلی بار ملاقات کرتا ہے تو نشست ختم ہونے کے بعد وہ ملاقات اکثر گہرے تعلق میں تبدیل ہو چکی ہوتی۔ اوپر سے میاں صاحب کی یادداشت بھی کمال کی ہے، جو ان کو ملاقات اور بات بھولنے ہی نہیں دیتی ہے۔ کہروڑ پکا میں کامیاب کھلی کچہری ہوئی جس میں انتظامیہ، پولیس اور دیگر محکموں کے افسران کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی بڑی تعداد موجود تھی ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، موقع پر احکامات جاری ہو رہے تھے اور لوگوں کے مسائل حل ہو رہے تھے۔ تین گھنٹے سے زائد وقت تک کھلی کچہری جاری رہی بعد ازاں میاں صاحب کے ساتھ ہم ہوٹل پہنچے تو میاں صاحب نے کہا کہ دو گھنٹے آرام کے بعد خبر بنائیں گے۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی تو میں نے کھلی کچہری کی رپورٹ لکھنا شروع کردی ‘جھلکیاں اور شارٹ نیوز جن کو ہم اپنی زبان میں (انڈے بچے) کہتے تھے وہ بھی لکھ ڈالے۔ میاں صاحب نے آرام کے بعد چائے کا کہہ کر مجھے کہا کہ نوٹس نکالو، خبریں بناتے ہیں۔ میں نے میاں صاحب سے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ یہ رپورٹ آپ کے آرام کے دوران لکھی ہے، اسے ایک نظر دیکھ لیں۔ میاں صاحب وہ پڑھتے جاتے اور صفحات پلٹتے جاتے، جب سب دیکھ لیا تو میں میاں صاحب سے کہا کہ اب لکھوانا شروع کریں تو انہوں نے اپنے پنجابی انداز میں کہا “شاباش، واہ جی واہ، بس ہن کی رہ گیا اے کریڈٹ لائن ای پا دیو” ان کی یہ میرے لئے ایک ایسی داد تھی جسے میں کبھی نہیں بھلا سکتا، پھر ان کے ساتھ قلم اور کاغذ کا ایسا رشتہ جڑا کہ وہ بول کر لکھواتے جاتے، ہم لکھتے اور سیھکتے جاتے۔ اس طرح کئی برس گزر گئے پھر میاں صاحب کا اسلام آباد ٹرانسفر ہو گیا ۔
سال 2002 میں میاں صاحب کا دوسرے قومی اخبار روزنامہ اوصاف میں بطور ریزیڈنٹ ایڈیٹر ملتان کا آغاز بھی بڑا دھماکے دار تھا۔ ملتان میں بیٹھ کر سنتے تو رہتے تھے کہ میاں صاحب ملثان میں کوئی قومی اخبار اشاعت کے لئے لا رہے ہیں خیر ایک دن میاں صاحب کا فون آ یا کی سورج میانی کے پاس ان کی رہائش گاہ پر پہنچو موٹر سائیکل اٹھائی اور پہنچ گئے وہاں دیکھا کہ صحافی اور گہرے دوست طاہر شیخ، نثار اعوان اشفاق احمد اور رضا ملک بھی موجود ہیں گپ شپ کے بعد میاں صاحب نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے تم میں سے دو رپورٹرز اوصاف ملتان کی باقاعدہ اشاعت کے لیے ان کو جوائن کریں آپ لوگ فیصلہ کر لیں اور بتائیں کن دو نے پہلے آنا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے تو کچھ دیر خاموشی کے بعد طاہر شیخ نے کہا میاں صاحب آپ ہی بتا دیں ہم تیار ہیں میاں صاحب نے کہا اگر مجھ سے پوچھتے ہو تو مجھے آغا محمد علی اور طاہر شیخ دے دو میں نے جھٹ سے کہا کہ معذرت میں فی الحال نہیں آ سکتا مجھے دوسری کھیپ میں شامل کر لیں کیونکہ خبریں کے کچھ اشتہارات کی ادائیگی رہتی ہے وہ کر دوں مگرمجھے کیا معلوم تھا کہ میاں صاحب نے مجھے کتنی چاہت سے مانگا تھا، جس کا مجھے اس وقت پتا چلا جب میں دفتر بھی نہیں پہنچا کہ پہنچنے سے پہلے وہ ہوگیا جس کا میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دفتر جانے سے پہلے ہی فون پر مجھے روزنام خبریں سے فراغت کے احکامات مل جائیں گے۔ اگلے روز میاں صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ میاں صاحب نے ہنستے ہوئے کہا “میں تینوں کیہا سی آ جا” روزنامہ اوصاف ملتان جوائن کرکے کام شروع کر دیا حالات و واقعات دیکھتے تو کچھ نظر نہیں آ تا تھا۔۔۔ لیکن میاں صاحب کی بھاگ دوڑ محنت لگن اور حوصلہ دیکھتے تو ہمیں حوصلہ مل جاتا اور پھر سب اپنے اپنے طور کوشش کرتے لگ جاتے۔ تب پرویز مشرف کے دور میں نیا بلدیاتی نظام نافذ ہو چکا تھا اور اخبار کی اشاعت کے لیے ڈیکلریشن جاری کرنے کا اختیار ابھی کسی بھی ڈپٹی کمشنر جو کہ نئے نظام کے تحت ڈی سی او بن چکے تھے، انہیں ٹرانسفر نہیں ہوا تھا۔ ان دنوں ملتان میں میجر ریٹائرڈ اعظم سلیمان ڈی سی او تھے۔ میاں سامنے روزنامہ صاف کا ڈیکلریشن اپلائی کر رکھا تھا مگر ڈی سی او کا موقف تھا کہ انہیں ابھی اختیارات تفویض نہیں ہوئے لہذا وہ ڈیکلریشن جاری نہیں کر سکتے۔ صورتحال گمبھیر تھی بغیر ڈیکلریشن اخبار نکالا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ جب کہ درخواست دیے ہوئے 90 دن گزر گئے تو میاں غفار صاحب مجھے لے کر ڈی سی او کے پاس گئے اور انہیں کہنے لگے کہ میں 11 اگست کو اخبار نکال رہا ہوں کیونکہ اپ کے پاس ڈیکلریشن جاری کرنے کا اختیار نہیں تو پھر اپ کے پاس مجھے اخبار شائع کرنے سے روکنے کا بھی اختیار نہیں۔ ڈی سی او حیران رہ گئے اور انہوں نے فوری طور پر اپنے لیگل ٹیم کو بلایا۔ لیگل ٹیم نے کہا کہ میاں خار صاحب کی بات تو ٹھیک ہے جب ہمارے پاس قانونی اختیار ہی نہیں تو ہم روک بھی نہیں سکتے اور ڈیکلریشن جاری بھی نہیں کر سکتے۔ معاملہ الجھا ہوا تھا اور تب میاں غفار صاحب نے اعظم سلیمان صاحب سے کہا کہ میں 11 تاریخ کو اخبار نکالوں گا، اپ اسے دیکھیں گے پڑھیں گے اور اگر اس میں کوئی اینٹی سٹیٹ، اینٹی اسلام یا مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے کوئی قابل اعتراض مواد ہوگا تو اپ کا قانون حرکت میں ا سکتا ہے اور اپ پھر اخبار کے اخبار کو بند کر سکتے ہیں مگر جونہی اپ بند کرنے کے احکامات جاری کریں گے میں جنوبی پنجاب کے تمام شہروں سے حکم امتنائی لے لوں گا۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ کا وہ پہلا اخبار روز نما اوصاف تھا جو 11 اگست سے لے کر 22 مارچ 2003 تک بغیر کسی ڈیکوریشن یا اجازت ہم میں سے مسلسل شائع ہوتا رہا اور پھر جب ڈی سی او حضرات کو ڈیکوریشن جاری کرنے کے اختیارات ملے تو پہلا ڈیکلریشن روزنامہ اوصاف ملتان ہی کے نام جاری ہوا۔ اس طرح ایک دن ایسا بھی آ گیا کہ ملتان کے صحافتی میدان میں میاں غفار نے دو قومی اخبارات کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہونے کا اعزاز اپنے نام کر لیا پھر جیسے وقت نہیں رکتا ویسے میاں صاحب بھی رکنے والے تھے ہی نہیں کہ کہ ہر وقت نت نئے تجربے کرنے کی لگن میں جتے رہتے ہیں۔ (جاری ہے)
ان دونوں ٹی وی چینلز کا دور آ گیا تو ملتان سے جناب طاہر خان نے پہلا سرائیکی ٹی وی چینل وسیب” کے نام سے شروع کیا تو وہاں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے مذکورہ سرائکی ٹی وی چینل کو اتنے عروج پر پہنچا دیا کہ اسے جنوبی پنجاب کا سی این این کہا جانے لگا۔ جنوبی پنجاب میں جو مقام اور عروج وسیب نے حاصل کیا وہ کسی ٹی وی چینل کو نصیب نہیں ہو سکا مگر اس دوران ان کے ساتھ ایک حادثہ ہو گیا اور اچانک 2007 میں ان کی اہلیہ جوانی میں ہی دل کے دورے کے باعث زندگی کی بازی ہار گئیں, اس طرح دو معصوم اور ایک شیر خوار بیٹی کی ذمہ داری میاں غفار صاحب پر ڈال کر اگلے جہان سدھار گئیں۔ میاں صاحب کا چونکہ سارا خاندان لاہور تھا ملتان میں وہ اکیلے تھے تو وہ بھی لاہور دنیا ٹی وی میں شفٹ ہو گئے۔ جب بھی بات ہوتی وہ یہ ذکر کرتے کہ میاں عامر محمود اور ان کی ٹیم کے ایم ڈی نوید کاشف نے ان کی زندگی کے مشکل ترین حالات میں ان کا بہت ساتھ دیا ہے اور پانچ سال تک انہیں دفتری امور میں بہت سی رعایتیں دیے رکھیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ نوکری کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی پالتے رہے۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ 2017 میں ضیا شاہد صاحب کے بار بار کہنے پر میاں غفار صاحب ایک مرتبہ پھر خبر ملتان کی عدالت سنبھال لیں گے اور ان کا رزق انہیں پھر ملتان لے آئے گا۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر روزنامہ خبریں کو چار چاند لگا دی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کووڈ کے دنوں میں جہاں بڑے بڑے اداروں نے تنخواہیں بند کر دی سٹاف نکال دیا وہاں روزنامہ خبریں ملتان میں تنخواہ کم ہونا تو دور کی بات ایک دن بھی تنخواہ لیٹ نہیں ہوئی اور کسی ایک سٹاف ممبر کو بھی کووڈ کے دنوں میں نہیں نکالا گیا۔ میاں صاحب کی صاف گوئی اور بے چین طبیعت یہاں بھی چین سے نہ بیٹھ سکی اور اگلی منزل کی طرف اب کی بار میاں صاحب روزنامہ نوائے وقت ملتان کے اسٹیشن ہیڈ بن کر ذمہ داریاں نبھانے لگ گئے اور ملتان کے صحافتی میدان کی تاریخ میں تیسرے قومی اخبار کی ادارت سنبھال کر اپنی ہیٹرک مکمل کر لی۔ دانت کی تاریخ کا یہ وہ اعزاز تھا جو تاحال کسی بھی صحافتی شخصیت کو نہیں مل سکا۔
طویل مدت تک قومی اخبارات میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ پاکستان کا اعزاز محترم شوکت اشفاق کے پاس ہے اور ان دنوں ان کے پاس گروپ جوائنٹ ایڈیٹر کا بڑا صحافتی عہدہ ہے۔ محترم شیخ ریاض پرویز مرحوم روزنامہ نوائے وقت ملتان اور محترم شکیل انجم روزنامہ ایکسپریس ملتان ریزیڈنٹ ایڈیٹر و بیورو چیف، محترم ظفر آہیر روزنامہ جنگ ملتان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر، فرحان ملغانی ریزیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت ملتان، روزنامہ دنیا میں نعمان خان بابر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ آصف علی فرخ مرحوم روزنامہ ایکسپریس اور جہان پاکستان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ انتہائی دلچسپ اور منفرد ریکارڈ کی بات یہ بھی ہے کہ ملتان کے تمام ریزیڈنٹ ایڈیٹرز میاں غفار صاحب کے کشی نہ کسی حوالے سے شاگرد ہیں جبکہ از خود میاں غفار یہ کہتے ہیں کہ انہیں جرنلزم میں شوکت اشفاق صاحب کی سرپرستی نہ ہوتی تو وہ کب کا یہ میدان چھوڑ چکے ہوتے ہیں اور اس طرح وہ شوکت اشفاق صاحب کو ہمیشہ استاد گرامی کہہ کر بلاتے ہیں۔
اب میاں صاحب کی ملتان کے صحافتی میدان میں ریزیڈنٹ ایڈیٹر کی ہیٹرک پلس کی بات کر لیں تو وہ ان کے روزنامہ قوم کے چیف ایڈیٹر بننے کی پے اور غالباََ ان کی جو کھل کھلا کر نیوز دینے کی خواہش تھی وہ اب پوری ہو رہی ہے جو کہ وہ دیگر اخبارات میں وہ پوری نہ کر سکے ہوں گے جو اب وہ بطور چیف ایڈیٹر روزنامہ قوم میں وہ پوری کررہے ہیں اور اس میدان میں بھی ایک نئے انداز اور خبروں سے بھرپو رروزنامہ قوم ملتان سے ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے قارئین کی پیاس بجھاتے ہوے کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔ انتہائی منفرد اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ انہوں نے روزنامہ قوم ملتان ایسے وقت میں نکالا اور کامیاب کیا جب عمومی تاثر یہ ہے کہ اخبارات کا دور ختم ہو چکا ہے اور ہو بھی چکا ہے۔ مجھے میاں صاحب کا مقولہ یاد آتا ہے وہ کہا کرتے تھے کہ آپ اپنے گھر کی دیوار پر ایک بلیک بورڈ بنا دیں اور اس پر کوئی بہت ٹاپ کی خبر لکھ چاک سے لکھ دیں تو شام تک پانچ ہزار بندہ وہ خبر پڑھ چکا ہو گا۔ ان کا ہمیشہ یہی موقف رہا کہ اخبار نہیں بکتی، خبر بکتی ہے، اخبار نہیں خبر پڑھی جاتی ہے جب ہم خبر ہی دینا چھوڑ دیں گے تو پھر اخبار برباد ہو جائیں گے اور ان کے بقول اصل بات یہ ہے کہ رپورٹرز اور نمائندگان نے اخبارات کی صنعت کو برباد کیا ہے۔ وہ فرمان نبوی کا حوالہ دیتے ہوئے اکثر کہا کرتے ہیں کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، جب آپ قلم پکڑتے ہو تو قدرتی طور پر آپ کا ہاتھ اوپر والا ہوتا ہے اور جب اپ مائیک پکڑتے ہو تو آپ کا ہاتھ نیچے والا ہوتا ہے۔ پھر وہ یہ بھی حوالہ دیتے ہیں اگر قلم کی قسم چونکہ قران مجید میں اللہ تبارک و تعالی نے کھائی ہے لہذا قلم کا زوال نہیں ہو سکتا اور نہ ہی لکھے ہوئے کو زوال ہے تو ہمارے ہاتھوں کو، ہماری سوچ کو، ہمارے لالچی زہن کو۔
میاں صاحب کے پاس ایک اور منفرد اعزاز یہ بھی ہے کہ ان کے ملتان کی صحافتی دنیا میں سب سے زیادہ شاگرد ہیں۔ شاگرد حضراتِ اس بات کو مانتے ہیں یا نہیں مانتے ان کی اپنی مرضی ہے۔
ان شاگرد حضرات میں میں محترم ظفر آہیر، محترم ‘شکیل انجم، محترم نثار اعوان، محترم فرحان ملغانی، محترم رضا ملک، محترم مسعود احمد، محترم اشفاق احمد، ‘محترم طاہر شیخ، محترم رؤف مان، محترم نوید شاہ، محترم احتشام الحق، ‘محترم طارق اسماعیل، محترم رفاقت انجم، محترم ظفر لون، محترم رفیق قریشی، محترم شاہد صدیق، ‘محترم یعقوب سید، محترم قلب حسن، محترم فضیل سہو، جیو نیوز والے عمران چوہدری، سمیت بڑی تعداد میں بطور ایڈیٹرز رپورٹرز، بیورو چیفس، چیف نیوز ایڈیٹرز اور سب ایڈیٹرز نہ صرف ملتان بلکہ آسلام اباد اور لاہور سمیت ملک بھر میں اپنے صحاضتی فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور اگر ان میں نمائندگان کو شامل کر لیا جائے تو میاں غفار صاحب کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ جاتی ہے اور شاید ہی اتنا بڑا اعزاز پاکستان میں کسی کے پاس ہو کیونکہ دنیا نیوز کا نیٹ ورک بھی انہوں نے ہی بنایا تھا جو پاکستان کے تمام میڈیا چینلز میں منفرد اور مضبوط ترین نیٹ ورک ہے اور جس کے ہزاروں نمائندے پاکستان کے کونے کونے میں موجود ہیں اور اپنے فرائض بڑی محنت اور لگن سے ادا کر رہے ہیں۔
مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک بار محسن نواز جو کہ بطور جونیئر سب ایڈیٹر روزنامہ خبریں ملتان کے نیوز روم میں ڈیوٹی دے رہے تھے، میاں صاحب کے پاس خبر کی سرخی دکھانے اور خبر ڈسکس کرنے کے لیے گئے تو وہ اعلی اور معیاری تھی۔ میاں صاحب نے محسن نواز کو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ تم ایک دن ضرور” سی این ای “بنو گے۔ چند ہی ماہ بعد چیف نیوز ایڈیٹر روزنامہ خبریں قمر الحق قمر کا انتقال ہو گیا اور ان کی جگہ جونیئر ترین محسن نواز چیف نیوز ایڈیٹر تھے اور ان دنوں محسن نواز ایک بڑے نیوز نیٹ ورک میں سی این ای فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ایسے ہی لیہ میں کھلی کچہری سے واپسی پر سینئر فوٹو گرافر خالد چودھری نے میاں صاحب سے کہا کہ ان کو نوائے وقت ملتان میں بطور چیف فوٹو گرافر خبریں کی نسبت 2 ہزار اضافی تنخواہ کی آفر ہے۔ میاں صاحب نے کہا کہ میں کوشش کروں گا کہ خبریں میں ہی تمہاری تنخواہ میں 2 ہزار کا اِضافہ کرا دوں کیونکہ میں نے تم پر بہت محنت کی ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکا تو میاں صاحب نے خالد چودھری کو دعا دیتے اور ان کی ترقی کے راستے میں نہ آتے ہوئے نوائے وقت کیلئے رخصت کر دیا اور خالد چودھری آ ج بھی اس پر میاں صاحب کا شکریہ ادا کرتے نظر آتے ہیں میاں صاحب کے شاگرد ان دنوں اپنی اپنی جگہ پر اور اپنی قابلیت کی بنیاد پر صحافتی آسمان پر روشن ستارے کی طرح چمک رہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں
میاں صاحب کو رب العزت نے صحافتی دنیا کیلئے بہترین صلاحیتوں سے نوازا جو کہ بہت کم خوش نصیب شخصیات کے حصے میں آ تی ہیں۔ ٹربل شوٹنگ یعنی مشکل حالات کا مقابلہ کرنا کوئی ان سے سیکھے۔
ملتان کی صحافتی تاریخ میں یہ منفرد ریکارڈ ضرور تحریر ہوگا کہ کس طرح داتا صاحب کی نگری سے آنے والی ایک صحافتی شخصیت میاں غفار احمد نے صرف 28 برس میں اولیاء کرام کی نگری میں ریزیڈنٹ ایڈیٹرز بننے کی ہیٹرک اور ایک روزنامہ قوم ملتان کے چیف ایڈیٹر بننے کا اعزاز پایا اور اب بھی وہ اپنی محنت ولگن کے ساتھ سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جناب میاں صاحب آپ ایسے ہی صحافتی میدان میں جھنڈے گاڑتے رہیں۔ مظلوم اور پسی ہوئی عوام کی خدمت کرتے رہیں طاقتور اور ظالم سے لڑتے رہیں۔ آپ کے ساتھ کئی سال گزارے میرا خدا جانتا ہے میں اپنے اللہ تعالی کو گواہ بنا کر درجنوں انکھوں دیکھے واقعات کی روشنی میں کہتا ہوں کہ آپ کہ اپ نے اپنی بات سچ کر دکھائی جو اپ کہا کرتے تھے کہ میں حضرت ابو بن ادم کی تھیوری کی پیروی کرتا ہوں میں اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتا ہوں میں طاقتور کے مقابلے میں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں اور اللہ میری مدد کرتا ہے اور میاں صاحب میں گواہ ہوں بہت سے مواقع پر اللہ نے اپ کی ایسی مدد کی ہے کہ بندہ دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ اللہ اپ کو سلامت رکھے اور اپ کے قلمی جہاد کو اسی طرح طاقت دیتا رہے کہ اپ کے دشمن بہت زیادہ ہیں اور اب تو مجھے بھی یقین ہو چلا ہے جو اپ کہا کرتے تھے کہ اغا صاحب جمعہ والے دن سورۃ کہف پڑھا کرو، سیدھی گولی بھی تمہارے قریب ا کر مڑ جائے گی کہ تم نور کے حصار میں رہو گے۔ زندگی میں اپ سے بہت کچھ سیکھا ۔۔۔ ویلڈن میاں غفار








