ملتان (وقائع نگار) جعلی تاریخ پیدائش کے سکینڈل میں ملتان ڈویژن کے 10 یونین کونسلوں کے سیکرٹریز ملوث، کمشنر ملتان نے ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ملتان کو انکوائری کا حکم دے دیا تفصیل کے مطابق ملتان ڈویژن میں ایک بڑا مالیاتی اور دستاویزی فراڈ کا انکشاف ہوا ہے، جہاں ملتان سمیت 10 مختلف یونین کونسلوں کے سیکرٹریز پر شہریوں سے ہزاروں روپے وصول کرکے جعلی تاریخ پیدائش (ڈیٹ آف برتھ) کے ریکارڈ تیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ جعلی دستاویزات تعلیمی بورڈ ملتان میں پیش کی گئیں، جس سے تعلیمی نظام کی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن (BISE) ملتان کے سیکرٹری خرم شہزاد قریشی نے اس مبینہ دھاندلی کا فوری نوٹس لیا اور معاملے کو کمشنر ملتان عامر کریم کی جانب رپورٹ کیا، جس کے بعد ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ملتان کو مکمل انکوائری کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔۔ ایک متاثرہ شہری نے بتایا: “ہمارے خاندان کے بچوں کی تعلیم کی خاطر ہمیں 20 ہزار روپے سے زائد کی رقم ادا کرنی پڑی، صرف یہ یقین دہانی کے لیے کہ ان کی تاریخ پیدائش درست ہو جائے۔ اب پتہ چلا ہے کہ یہ سب جعلی تھا۔” ایسے متعدد کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں شہریوں نے یونین کونسلوں کے سیکرٹریز سے رابطہ کرکے جعلی ریکارڈ بنوائے، جو بعد میں تعلیمی بورڈ میں داخل کر دیے گئے۔بورڈ کے سیکرٹری نے 10 جعلی رجسٹرڈ تاریخ پیدائش کے ریکارڈز کی نشاندہی کی یونین کونسل نمبر 67 نیل کوٹ ملتان کے سیکرٹری عثمان فاروق یونین کونسل نمبر 9 چک ڈبلیو بی وہاڑی ،یونین کونسل نمبر 8/9r خانیوال ،یونین کونسل چک 305 بورے والا ،یونین کونسل نمبر 51 کہروڑ پکا ،یونین کونسل نمبر 48 بورے والا شامل ہیں ۔ ان دستاویزات میں واضح تضادات پائے گئے، جیسے غلط تاریخیں، ناموں میں املا کی غلطیاں اور غیر مصدقہ دستخط۔ سیکرٹری نے فوری طور پر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرکے اور ریکارڈ قبضے میں لے کر کمشنر ملتان کو بھیج دی، جس میں تمام متعلقہ دستاویزات اور ابتدائی شواہد شامل تھے۔ کمشنر عامر کریم نے اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ملتان کو حکم دیا ہے کہ 7 دن کے اندر انکوائری مکمل کی جائے اور مجرموں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ انکوائری ٹیم تمام یونین کونسلوں کے ریکارڈز کا جائزہ لے گی اور متاثرین کو انصاف دلایا جائے گا۔” ذرائع کا کہنا ہے کہ انکوائری میں 10 سے زائد سیکرٹریز کے خلاف کارروائی کا امکان ہے، اور اگر الزامات ثابت ہوئے تو انہیں معطل بھی کیا جا سکتا ہے۔یہ واقعہ جنوبی پنجاب کے یونین کونسلوں کے انتظامی نظام میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی نشاندہی کرتا ہے، جو طلبہ کےمستقبل کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ متاثرین کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوری طور پر ان کی رقم واپس کی جائے اور جعلی ریکارڈز کو منسوخ کیا جائے۔








