بہاولپور (کرائم سیل) شجاع آباد، بہاولپور میں جعلی ٹکٹ سکینڈل، سمہ سٹہ اور شیخوان سیکشن میں اربوں روپے مالیت کی ریلوے اراضی پر ریلوے ملازمین کی ملی بھگت سے قبضے، اور زمینوں کے سرکاری ریکارڈ کے غائب ہونے کے بعد ملتان ڈویژن کے مختلف سیکشنز میں درجنوں جعلی اور گھوسٹ ملازمین کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ افراد تنخواہیں تو محکمہ ریلوے سے وصول کرتے ہیں مگر اپنے متعلقہ سیکشن کے (پی ڈبلیو آئی) کو طے شدہ حصہ دے کر پرائیویٹ کاروبار میں مصروف رہتے ہیں۔ڈی ایس آفس کے انتظامی افسران ان کرپٹ ملازمین کی پشت پناہی کرتے ہیں کیونکہ انہیں ان سے باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔اسی لیے محنت کش یونین کے چیئرمین قاضی منور کے احتجاج کے باوجود بھی ڈی ایس ریلوے نے ان کرپٹ عناصر کے خلاف نشاندہی کے باوجود کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ کی۔ ریلوے کے معتبر ذرائع کے مطابق ڈی این ٹو ریحان کے ایک سیکشن میں پی ڈبلیو آئی کی کرپشن سے متعلق ملازمین کی طرف سے دی گئی درخواست میں واضح طور پر بتایا گیا کہ ایک پی ڈبلیو آئی کے تحت 100 کلومیٹر کا علاقہ ہوتا ہے جس میں 14 لیبر گینگز کام کرتی ہیں۔ ہر گینگ میں 12 سے 14 ملازمین ہوتے ہیںجن میں سے پانچ سے چھ افراد افسران کو پیسے دے کر فرضی حاضری لگواتے ہیں اور ڈیوٹی سے استثنیٰ حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ گینگ مین اور دیگر ملازمین سے گندم اور موسمی پھل بھی زبردستی افسران کے نام پر لیے جاتے ہیں۔ایسی شکایات سپیشل برانچ کو متعدد بار موصول ہو چکی ہیں۔ ملتان کے ایک افسر نے اس کی تحقیقات بھی کی۔ ان تمام معاملات کو کوٹ ادو سیکشن کے متعلق ڈی این ٹو کو بھجوایا گیامگر چونکہ تمام تر معاملات پہلے سے طے ہوتے ہیں، اس لیے کسی نے جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔یاد رہے کہ جعلی ٹکٹ سکینڈل میں بہاولپور میں کمرشل انسپکٹر کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 9/25 جبکہ تھانہ سمہ سٹہ میں 25/25 پرائیویٹ شخص عبید اللہ کی مدعیت میں درج ہوا۔ ان مقدمات میں ریلوے سپیشل برانچ کے اہلکار گواہ ہیں۔ ریلوے ملتان پولیس کی شفافیت کا عالم یہ ہے کہ کمرشل انسپکٹر غلام کو اپنی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمے کے متعلق معلومات ہی حاصل نہ ہو سکیں کہ کن افراد کو شاملِ تفتیش کیا گیا اور کسےبے گناہ قرار دیا گیا۔مقدمہ 25/25 کے مدعی عبید رضا نے روزنامہ “قوم” کو بتایا کہ جعلی ٹکٹیں دینے میں ریلوے بہاولپور کا عملہ بھی ملوث تھا مگر سپیشل برانچ اور ایس ایچ او ریلوے سمہ سٹہ نے مجھے اعتماد میں لیے بغیر میرے نام پر خود ساختہ ایف آئی آر درج کی اور اپنے ریلوے ملازمین کو تحفظ فراہم کیا۔اسی طرح انسپکٹر آف ورکس ریلوے محمد عثمان اعجاز نے ریلوے اراضی واقع چک نمبر 38-بی سی (کل رقبہ: 665 کنال ایک مرلہ)، موضع غنی پور (177 کنال 12 مرلے)، چک نمبر 9 (687 کنال 13 مرلے)، چک نمبر 12-الف بی سی (385 کنال 17 مرلے)، اور ہوت والا میں بھی قبضے کروائے۔ ریونیو ریکارڈ اور موقع کی نشاندہی سے معلوم ہوا کہ ان علاقوں میں غیر قانونی طور پر رائیس ملز، ٹف ٹائل فیکٹریاں، دکانیں، مکانات اور حتیٰ کہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بھی قائم ہو چکی ہیں۔تاہم ڈی ایس ریلوے، ڈی این تھری ناصر حنیف اور ڈی ایس آفس کا عملہ محمد عثمان اعجاز کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کو تیار نہیں۔ روزنامہ “قوم” کی نشاندہی پر وزیر ریلوے حنیف عباسی کے احکامات پر ایک انکوائری بھی کی جارہی ہے، لیکن ڈی ایس آفس اپنے متعلقہ عملے کو بچانے کے لیے انکوائری کو گول مول کرکے دبانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اسی لیے ڈپٹی ڈی ایس ریلوے شاہد رضا کو بھی تاحال ریلیو نہیں کیا گیا کیونکہ وہ ملازمین اور ڈی ایس کے درمیان رابطہ کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس وجہ سے وزیر ریلوے کے احکامات کو ہوا میں اڑاتے نئی تعیناتی پر روانہ نہیں کیا جا رہا جبکہ اس بارے میں شاہد رضا کا کہناہے کہ افسران ریلیو نہیں کررہے اب افسران کی پتہ نہیں کیا مجبوری ہے۔اگر وزیراعظم پاکستان، وزیر داخلہ، وزیر ریلوے، سی ای او ریلوے اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، ملتان ڈویژن میں ہونے والی کرپشن اور ریلوے اراضی پر ناجائز قبضے کے خلاف ایک اعلیٰ سطحی جے آئی ٹی تشکیل دیں تو نہ صرف اربوں روپے کی سرکاری زمین واگزار کروائی جا سکتی ہے، بلکہ کرپٹ عناصر کے خلاف ناقابلِ تردید ثبوت بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
