ملتان (سٹاف رپورٹر) کمشنر ملتان ڈویژن عامر کریم خاںکی طرف سے بائی پاس روڈ پر ملتان کے جدید ترین کمرشل پراجیکٹ ملتان ایونیو کے تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں کی براہ راست نگرانی کے بعد ٹھیکے داروں اور ہائی وے افسران کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ای ٹینڈرنگ کی بنیاد پر یہ ٹھیکے میرٹ پر جہانیاں سے تعلق رکھنے والی وحید کنسٹرکشن کمپنی کو دو کام جبکہ لیہ سے تعلق رکھنے والی ایک کنسٹرکشن کمپنی کو 6 کام الاٹ ہوئے تھے مگر بعد ازاں نوٹس دیئے بغیر قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایکسین ہائی وے حیدر علی نے ایس ای ہائی وےچوہدری غلام نبی کی مشاورت سے یہ تمام ٹینڈر منسوخ کر دیئے اور پھر ریکارڈ میں ہیر پھیر کرکے تمام تر ٹینڈر اپنے من پسند ٹھیکے دار فالکن کنسٹرکشن کے جگنو شاہ کو ان میں سے 80 فیصد پراجیکٹس9کروڑ روپے زائد ریٹ پر الاٹ کر دیئےگئے۔ فالکن کنسٹرکشن کمپنی گزشتہ کئی سال سے صرف ملتان میں کام کرتی ہے اور ملتان ڈویژن کے علاوہ کہیں کام نہیں کرتی کیونکہ ان کے معاملات نیب کے ایک پراسیکیوٹر کے تعاون سے اینٹی کرپشن اور دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ بھی سالہا سال سے اچھے خاصے درست ہیں۔ فالکن کمپنی اندر خانے ملی بھگت کی بدولت یہ کام مکمل طور پر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ یہ اوپن ٹینڈر میں بہت زیادہ کم ریٹس پر پراجیکٹ حاصل کر لیتے ہیں اور حال ہی میں جلال پور پیر والا کے علاقے میں اس کمپنی نے ایک ٹینڈر 57 فیصد کم ریٹ پر لیا اور پاکستان بھر کی کوئی کنسٹرکشن کمپنی اتنے کم ریٹ پر ترقیاتی کام کر ہی نہیں سکتی۔ ایسا صرف اس صورت میں ہوتا ہے کہ بعد ازاں ملی بھگت سے شیڈول اور نان شیڈول آئٹمز میں تبدیلی کروا کر تخمینہ لاگت بڑھا لیا جاتا ہے۔ پھر ہائی وے افسران سرکاری تارکول جو کہ سڑکوں کے پیچ ورک کے لیے لائی جاتی ہے ان ٹھیکے داروں کو 10 ہزار روپے فی ڈرم کم قیمت فراہم کر دیتے ہیں جبکہ اوپن مارکیٹ میں تارکول کے ایک ڈرم کی قیمت 40 سے 42 ہزار روپے ہے۔ ہائی وے ڈیپارٹمنٹ وہی ڈرم ٹھیکے داروں کو 30 ہزار روپے میں دے دیتا ہے اور سرکاری ریکارڈ میں اس تارکول کا استعمال ضلع بھر کی سڑکوں کے پیچ ورک میں ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے ٹھیکے داروں کو دوسری سہولت کاری مٹی کی لیڈ کے ذریعے دی جاتی ہے اور یہ لیڈ فارمولا بھی ہائی وے ڈیپارٹمنٹ میں دہائیوں سے کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تارکول کی اس طرح سے چوری فروخت کی وجہ سے سڑکیں بیچ ورک نہ ہونے کے باعث ہمیشہ ٹوٹی ہی رہتی ہیں اور سرکاری تارکول کی پرائیویٹ شعبے میں فروخت کے حوالے سے ملتان بہت زیادہ بدنام ہے حتیٰ کہ فیصل آباد ،ساہیوال، جھنگ اور لاہور کے ٹھیکے دار بھی ملتان کی سرکاری تارکول خرید کر لے جاتے ہیں۔ فالکن کنسٹرکشن کمپنی کے مالک جگنو شاہ کے بارے میں بتایا گیا کہ آج سے 13 سال قبل وہ ہائی وے ڈیپارٹمنٹ میں صرف اور صرف کوٹیشن ورک لیتے تھے جو کہ ایک لاکھ روپے سے کم کا ہوتا تھا اور پھر جگنو شاہ اور بھٹہ کنسٹرکشن کمپنی کے مالکان عمران بھٹہ واصف بھٹہ نے اپنا نیٹ ورک اتنا مضبوط کر لیا کہ سرکاری تحقیقاتی ادارے بھی ان کی سہولت کاری کرنے لگے جبکہ سابق ایکسین ہائی وے ملتان غلام نبی چوہدری جو کہ اس وقت ملتان ڈویژن میں ایس ای ہائی ویز کے طور پر کام کر رہے ہیںمبینہ طور پر اس منظم نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ اس نیٹ ورک کی مضبوط گرفت کا عالم یہ ہے کہ اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ اور پنجاب ہائی وے کی ملتان میں واقع مٹیریل ٹیسٹنگ لیبارٹری کا عملہ بھی اس نیٹ ورک کی مکمل سہولت کاری کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملتان میں کبھی بھی سڑکوں کا نیٹ ورک درست نہیں ہو سکا۔ اگر جنوبی پنجاب کی انتظامیہ یہی ٹیسٹ لاہور میں واقع پنجاب ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کی میٹریل ٹیسٹنگ لیباٹری سے کرائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ خانیوال سے تعلق رکھنے والے غلام نبی نے بہاولپور میں اپنے قریبی عزیز لیاقت رحمانی کے نام پر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ملتان میں گولڈ کے بڑے خریداروں میں مبینہ طور پر بعض ہائی وے افسران کے نام بھی شامل ہیں۔ بوسن روڈ پر واقع جدید ہاؤسنگ سوسائٹی بچ ولاز کے چند اہم انویسٹرز میں غلام نبی ایس ای ہائی وے بھی شامل ہیں جبکہ بچ ولاز میں ان کی سرمایہ کاری کی نگرانی محمد علی سب انجینئر ہائی وے کرتے ہیں۔







