ملتان(کرائم سیل)نئی سال کی تقریبات کیلئے ملتان میں شراب کا سٹاک شروع کر دیا گیا ہے اور شہرکے واحد لائسنس یافتہ شراب فروشی کے اڈے رمادا ہوٹل کے ٹھیکیداروں نے بھی سٹاک جمع کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ نئے سال کے موقع پر بلیک میں فروخت ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کی طرح ٹھیکیداروں نے لوکل پارٹی سے شراب فروش کمپنی کی خالی بوتلیں شہر بھر کے کباڑیوں سے خرید کرنا شروع کر دی ہیںجنہیں دھو کر ایک بوتل سے دو یا تین بوتلیں بنائی جا ئیں گی اور ملاوٹ شدہ شراب ایک مرتبہ پھر ملتان کے شہریوں کو سپلائی کی جائے گی۔ اس قسم کی صورتحال ملتان کے گیسٹ ہاؤسوں میں بھی ہے اور اس حرام خوری میں ملتان کا تھانہ کینٹ سرفہرست ہے کیونکہ شراب پرمٹ رکھنے والا ہوٹل اور 30 سے زائد چھوٹے بڑے ہوٹل و گیسٹ ہاؤسز اس تھانے کی حدود میں آتے ہیں۔ اس صورتحال کے حوالے سے جنوبی پنجاب اور ملتان کے اکلوتی لائسنس یا فتہ شرا ب فروش ہوٹل کی انتظامیہ پرمٹ ہولڈرز اور ٹھیکیداروں کو متعلقہ محکموں سے تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی بطریق احسن نبھا تی ہے۔ ہوٹل مالک کا اس حوالے سے منفرد موقف کچھ اس طرح سے ہے کہ شراب فروشی کے ٹھیکے سے حاصل ہونے والی رقم سے تو وہ ہوٹل ملازمین کی تنخواہیں ادا کرتے ہیں اور یہ آمدن اپنے گھر لے کر نہیں جاتے۔ بتایا گیا کہ ہوٹل میں لائسنس ہولڈر ٹھیکیداروں نے ڈولفن فورس کے ملازمین سے بھی ڈیل کر رکھی ہے اور نیو ایئر کے موقع پر منتھلی کی رقم میں مبینہ طور پر اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ ملتان میں رضا آباد ،جلیل آباد، باغ لانگے خان سے ملحقہ آبادیاں اس وقت شراب اور منشیات فروشوں کا گڑھ ہیں۔ جنوبی پنجاب میں گزشتہ 25 سال کے دوران عید الفطر کے موقع پر زہریلی شراب سے بڑی تعداد میں مرنے والوں کے تین بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں اور 25 سال قبل عید کے موقع پر 12 گھوڑے والوں کی زہریلی شراب سے ملتان میں 35 افراد ہلاک اور متعدد اندھے ہو گئے تھے ۔ملتان میں اس سال عید الفطر پر قیامت کا سماں تھا اور ملتان کے ہر غریب محلے سے لاشیں اٹھ رہی تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ وہ شراب چوری شد الکوحل سے بنائی گئی تھی اور یہ الکوحل چوک میتلا کے علاقے میں پیسٹی سائیڈ کے ڈراموں میں بد احتیاطی سے دھو کر اس میں ٹرکوں سے چوری شدہ الکوحل بھر کر ملتان بھجوایا گیا تھا جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس وقت پولیس نے سخت کریک ڈاؤن کیا تھا اور مبینہ شراب فروش 12 گھوڑے والوں کو جیل کی ہوا کھانا پڑی تھی جو بعد ازاں ہر مرنے والےکے ورثا کو معاوضہ دے کر صلح کی بنیاد پر رہا ہوتے تھے۔
