آج کی تاریخ

مفاہمت کا بادشاہ کیا 'وسیع تر مفاہمت کرا پائے گا؟

مفاہمت کا بادشاہ کیا ‘وسیع تر مفاہمت کرا پائے گا؟

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین پاکستان کی تاریخ کے پہلے دوسری بار منتخب ہونے والے صدر مملکت
بن گئے ہیں- صدارتی انتخابات بارے ان سے شکست کھانے والے پاکستان کے جہاں دیدہ پشتون قوم پرست سیاست دان محمود خان اچکزئی کا صارتی انتخاب بارے یہ تبصرہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے کہ ‘ پہلا صدارتی انتخاب ہے جس میں ووٹوں کی خرید و فرخت نہیں ہوئی- آصف علی زرداری جو ‘مفاہمت کے بادشاہ کہلانے لگے ہیں جن کے سیاسی جوڑ توڑ کے ان کے مخالف بھی معترف ہیں صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کریں گے وہ انتہائی کرم اور تناؤ پر مبنی سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا اور باہم متحارب اور اگلے مورچوں پر تیار کھڑے سیاسی کھلاڑیوں کے درمیان کھلی جنگ کے ہونے کا خطرہ ہے۔ انہیں ایک طرف تو پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے سب سے طاقتور سیکشن جس کی قیادت عمومی طور پر مسلح افواج کا سربراہ کرتا ہے کو پاکستان تحریک انصاف کے جیلوں میں بند اسیر رہنماؤں اور کارکنوں کے بارے میں اب تک کی سب سے غیر لجک دار پوزیشن کو کم لچک دار بنانے پر قائل کرنا ہے ۔ تو
دوسری جانب انہیں اپوزیشن اور حکومت کو اپنی اپنی تلواریں میان میں رکھ کر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے آمادہ کرنا ہے۔ یہ وہ ٹاسک ہیں جو سب سے مشکل ترین ہیں لیکن آصف علی زرداری کی 44 سالہ سیاست کا یہ امتیاز رہا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ بند گلی کی سیاست کے منظرنامے میں آگے جانے کا راستا نکال ہی لیا ہے۔ کیا اس مرتبہ بھی ان سے یہ امید رکھی جائے گی؟ آصف علی زرداری کے لیے یہ آسان ٹاسک ہرگز نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی 24 کروڑ عوام کے سامنے اس وقت سب سے مایوس کن منظر یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور قیادتوں نے تاریخ سے کوئی سبق تاحال سیکھنے سے انکار کیا ہے۔ وہ سب کے سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا سب سے بڑا سرچشمہ کیا ہے؟ یہاں تک کہ وہ سیاسی جماعتیں جو آج اسٹبلشمنٹ کے ساتھ شیر وشکر ہیں وہ بھی جانتی ہیں کہ جلد بدیر انہیں پھر اسی صورت حال کا سامنا ہوگا جس سے وہ مارچ 2021ء سے پہلے گزر رہی تھیں- تو آگر ایسا ہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کی قیادتیں باہم مل بیٹھ کر ایک معاہدہ عمرانی کیوں نہیں کرلیتیں؟ بلکہ ان جمہوریت پسند جماعتوں کی قیاادتیں ان سے اور زیادہ مدد کی طلبگار نظر آتی ہیں جن پر اپنے مینڈیٹ سے آگے جاکر اختیار استعمال کرنے کا الزام ہے۔ پاکستان میں سویلین بالا دستی کے جو لوگ ‘ووٹ کو ‏عزت دو کے نعرے لگا کر سب سے بڑے علمبردار بںے تھے افسوس کا مقام ہے وہیسب سے پہلے اس سے فرار کرنے والے بن گئے ہیں-حالیہ عام انتخابات نے صورت حال کو اور پیچیدہ بنایا ہی تھا لیکن صدارتی انتخابات سے پہلے سنّی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے فیصلے نے اسے اور پیچیدہ بنادیا ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی کہتے ہیں کہ پہلے ان کا مینڈیٹ واپس دیا جائے تب وہ حکومتی اتحاد سے بات کریں گے- یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومتی اتحاد نے یہ کہا کہ پی ٹی آئی پہلے 2018ء میں ان کے چوری مینڈیٹ کو واپس کرے تو کیا ہوگا؟ یہ وہی بند گلی کی سیاست کا منظر ہے جس سے صدر مملکت آصف علی زرداری کو سامنا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا مشورہ یہی ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈر ایک میز پر بیٹھیں اور بات چیت کریں اس سے یقینی بات ہے آگے کی طرف جانے کا راستا نکلے گا- ابھی تک تو ایسی کوئی سنجیدہ کوشش سیاسی جماعتوں کی طرف سے دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ آصف علی زرداری سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ایسی کسی سنجیدہ کوشش کا آغاز کرسکیں گے۔ پی ٹی آئی ہو یا کوئی اور جماعت اسے اچھے سے یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ ہی انہیں ‘جواز دے سکتے ہیں اور سیاست دانوں کا آپس میں مل جل کر بیٹھنا ہی حل نکالے گا۔

میڈیا میں خواتین کا مقام

میڈیا میں خواتین نے ایک طویل سفر طے کیا ہے – پوری دنیا میں اور پاکستان میں۔ لیکن یہ اب بھی کافی نہیں ہے۔ جہاں ہمارے پاس ملک میں صحافیوں کے طور پر کام کرنے والی کچھ بہادر اور انتہائی محنتی خواتین موجود ہیں وہیں ہمارے پاس اب بھی شیشے کی چھت ہے جو جگہ جگہ شگاف پڑ سکتی ہے اور ٹوٹ سکتی ہے لیکن پھر بھی اسے مکمل طور پر بکھرنے کی ضرورت ہے۔ ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان (ڈبلیو جے اے پی) اور فریڈم نیٹ ورک کی جانب سے کیے گئے نیوز آرگنائزیشنز کے صنفی آڈٹ کے مطابق، پاکستانی میڈیا انڈسٹری کو اس وقت صنفی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔ سروے میں اسلام آباد میں تقریباً 15 نیوز آرگنائزیشنز کے کام کے حالات کا تجزیہ کیا گیا ہے اور پتہ چلا ہے کہ نیوز آؤٹ لیٹس میں خواتین صحافیوں کا اوسط حصہ صرف 11 فیصد ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے صنفی حساسیت کے جائزے سے پتا چلا کہ مجموعی طور پر 15 نیوز آؤٹ لیٹس میں سے تقریباً 75 فیصد صنفی نابینا تھے۔ سروے میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ بہت سے خبر رساں اداروں کے پاس ہراساں کرنے کے خلاف انکوائری کمیٹی نہیں ہے۔ برسوں کے دوران، چھوٹے خبروں کے آؤٹ لیٹس میں اضافہ ہوا ہے، اور ان میں سے زیادہ تر حکومت کے تقاضوں کی تعمیل نہیں کرتے ہیں۔ ایسے اداروں کی طرف سے پیش کردہ تنخواہ کے پیکجز بھی کافی کم ہیں، اور وہ زیادہ تر نئے گریجویٹس پر انحصار کرتے ہیں جو تنخواہوں پر بات چیت کرنے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔نوجوان صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کی کہانیاں اکثر میڈیا سے پوشیدہ رہتی ہیں۔ یہ خواتین عام طور پر سوشل میڈیا پر صرف خواتین کے گروپس میں اپنی کہانیاں شیئر کرتی ہیں اور اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرنے کے بجائے خاموش رہنے یا استعفیٰ دینے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس طرح کے معاملات نوجوان خواتین کو میڈیا میں کیریئر بنانے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ سیاست کی کوریج کرنے والی خواتین کو اکثر سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 2021 میں، کئی خواتین صحافیوں نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے اور سائبر ہراسمنٹ پر اس وقت کی حکومت کی خاموشی پر زور دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انہیں درخواست کے لیے ہی شیطانی ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا۔صنعت کو اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بہت سی خواتین اچھے مواقع سے محروم رہتی ہیں کیونکہ وہ قبرستان کی شفٹوں میں کام نہیں کر سکتیں۔ ایسا زیادہ تر اس لیے ہوتا ہے کہ ملک میں نقل و حمل کا ایک محفوظ نظام نہیں ہے، اور زیادہ تر خواتین ایسی ملازمتوں کو ترجیح دیتی ہیں جہاں انہیں طویل سفر کا وقت نہیں گزارنا پڑتا۔ ہماری نوجوان نسل میں بہت زیادہ صلاحیت ہے۔ انہیں صرف ایک محفوظ کام کرنے والے ماحول کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔ میڈیا میں خواتین کی کم نمائندگی اکثر خواتین کے مسائل پر رپورٹنگ کی کمی کا باعث بنتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ متعلقہ محکمے اس اہم مسئلے پر توجہ دیں اور میڈیا میں مزید خواتین صحافیوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے اقدامات کریں۔

پشاور بم دھماکہ : وفاق و صوبہ مخاذ آرائی ختم کریں

بورڈ بازار پشاور میں حالیہ بم دھمکے میں انسانی جانوں کا ضیاع اور زخمی ہونا یاد دلاتا ہے کہ پاکستان میں بالعموم اور صوبہ خیبر پختون خوا میں بالعموم ایک مستقل اور سنگین خطرہ ہے۔ بم ڈھماکہ ایک موٹر سائیکل میں نصب دھماکہ خيزمواد کو ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کے زریعے پھاڑ کر کیا گیا- دھماکہ خیز مواد پاکستان میں زیادہ تر افغانستان کے راستے سے اسمگل کرکے لایا جا رہا ہے اور پاکستانی حکام نے بارہا افغانستان پر حکمران افغان طالبان سے ان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کی گغی بار درخواست کی ہے۔ یہ بم ڈھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دو روز پہلے ہی پاکستان کے اقوام متحدہ میں مندوب اکرم منیر نے اقوام عالم سے کہا تھا کہ وہ افغان طالان کو کہیں کہ وہ اپنا تلق تحریک طالبان پاکستان سے ختم کرے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز ، کے پی کی پولیس دہشت گردی کے خلاف بڑی بہادریی سے مقابلہ کررہے ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے بھی دے رہے ہیں- کے پی کے میں اس وقت بظاہر جو نئی حکومت بنی ہے اس کے اور وفاق میں حکومت کے درمیاں تعلقات سرد ہیں- وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی پشاور آمد کے وقت ان کا استقبال کرنے کے لیے چیف منسٹر کے پی کے موجود نہ تھے اور نہ ہی دونوں کی ملاقات ہوئی – یہ اگرچہ نوے کی دہائی میں اس وقت کی یاد دہانی تھی جب نواز شریف بطور چیف منسٹر پنجاب محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان کآ استقبال کرنے لاہور کے ہوائی اڈے تک نہیں آتے تھے اور وزیراعظم کو گورنر ہاؤس پنجاب ٹھہرنا پڑتا تھا- لیکن اس زمانے میں دہشت گردی کا انتا بڑا چیلنج سر پر نہیں تھا- کے پی کے کی عوام کی جان و مال کی حفآظت اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے مورال کو گرنے سے بچانے کا معاملہ ہے۔ اس لیے دونوں حکومتوں کو ہوش کے ناخن لیکر دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں