یومِ آزادی پر منعقدہ حالیہ تقریب، جہاں ملک کی عسکری اور سویلین قیادت کو اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا، محض ایک رسمی تقریب نہ تھی بلکہ اس نے ایک گہرا قومی پیغام دیا—یہ کہ قوم اپنے محسنوں کو نہ صرف یاد رکھتی ہے، بلکہ ان کی خدمات کو پوری ریاستی وقار کے ساتھ تسلیم بھی کرتی ہے۔
یہ اعزازات صرف تمغے یا اسناد نہیں، بلکہ ذمہ داری کا اعلان ہیں۔ ستارۂ جرأت، تمغۂ بسالت، ہلالِ امتیاز اور نشانِ امتیاز جیسے اعزازات اُن افراد کو دیے جاتے ہیں جنہوں نے قومی سلامتی، نظریاتی سرحدوں اور بین الاقوامی محاذوں پر ایسی خدمات انجام دی ہوں جو غیر معمولی ہوں۔ ان اعزازات کا مطلب ہے کہ اعزاز پانے والا شخص اپنی ذات سے بلند ہو کر قومی مفاد کو ترجیح دیتا ہے—چاہے وہ میدانِ جنگ میں ہو، سفارتی میز پر ہو، یا اطلاعاتی جنگ میں۔
ایسے مواقع پر یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ اعزازات محض ماضی کی کارکردگی کا صلہ نہیں ہوتے، بلکہ مستقبل کے لیے ایک معیار بھی قائم کرتے ہیں۔ جنہیں یہ اعزازات ملتے ہیں، ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی خدمات کا تسلسل رکھیں گے، بلکہ اپنے شعبے میں دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بنیں گے۔
قومی اعزازات کا اصل مفہوم تب واضح ہوتا ہے جب وہ عوام کے دلوں میں فخر اور جذبۂ تقلید پیدا کریں۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب پوری قوم ایک پیغام دیتی ہے: کہ ملک کے دفاع، استحکام، اور وقار کے لیے قربانی دینے والے تنہا نہیں، بلکہ پوری ریاست اُن کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان اعزازات کی قدر تب اور بڑھ جاتی ہے جب یہ خالصتاً کارکردگی کی بنیاد پر دیے جائیں اور ان کا مقصد صرف شجاعت کا اعتراف ہی نہ ہو، بلکہ عوام کو اعتماد دینا بھی ہو کہ اُن کی ریاست فعال، زندہ اور بیدار ہے۔
یہ اعزازات ہمیں یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ ملک کی حفاظت صرف بارڈر پر تعینات سپاہی کی نہیں، بلکہ ہر اس فرد کی ذمہ داری ہے جو کسی بھی میدان میں ملک کا مقدمہ لڑ رہا ہو۔ چاہے وہ قلم کے ذریعے ہو یا دلیل کے، آواز کے ذریعے ہو یا قربانی کے۔
قوموں کی تاریخ میں ایسے اعزازات قومی یادداشت کا حصہ بن جاتے ہیں—ایک مستقل یاددہانی کے طور پر کہ جرأت، ایثار اور حب الوطنی ہمیشہ زندہ رہتی ہے، اور ان صفات کے حامل افراد کو قوم کبھی فراموش نہیں کرتی۔
یہی وہ جذبہ ہے جو پاکستان کو زندہ قوموں کی صف میں لے آتا ہے۔
