فلسطین، وہ سرزمین جو صدیاں پہلے انبیاء کی سرزمین کہلاتی تھی، آج انسانیت کی بدترین تذلیل کی علامت بن چکی ہے۔ مغربی کنارے سے لے کر غزہ تک، اسرائیلی ریاست کی جارحیت ایک لمحے کو بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ بستیوں کی بستیاں مٹا دی جاتی ہیں، بچوں کے اسکولوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا جاتا ہے، عورتوں کی چیخیں دیواروں میں جذب ہو جاتی ہیں، اور بزرگوں کی ہڈیاں ٹینکوں کے نیچے روند دی جاتی ہیں۔ ماسافر یطا، وہ علاقہ جو کبھی زیتون کے درختوں، چرواہوں اور امن کے خوابوں سے آباد تھا، اب فقط آنسوؤں، بلڈوزروں اور خوف کی تصویر ہے۔
یہ کوئی وقتی ظلم نہیں، بلکہ ایک طویل، سوچا سمجھا، منظم نسلی امتیاز ہے، جسے اسرائیل ریاستی پالیسی کے طور پر نافذ کر رہا ہے۔ 1967 سے جاری اس قبضے کو نہ تو اقوام متحدہ کے قراردادیں روک سکی ہیں، نہ عالمی قانون، نہ ہی انسانیت کے علمبردار کہلانے والے مغربی ممالک کی ضمیر نے کوئی اثر لیا۔ عالمی میڈیا میں فلسطینی لاشیں صرف اعداد و شمار بن کر ابھرتی ہیں، اور پھر نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ ہر روز کسی نہ کسی فلسطینی بستی میں “سیکورٹی خدشات” کی آڑ میں گھروں کو ملبے میں بدلا جاتا ہے، اور پھر اعلان کر دیا جاتا ہے کہ یہ “فوجی زون” ہے۔
انہی تاریکیوں میں ایک روشنی کی کرن اُبھری — فلسطینی ہدایتکار باسل ادرا، جس نے کیمرہ اٹھایا اور ان مظالم کو اس انداز میں دنیا کے سامنے لایا جو الفاظ نہ کہہ سکے۔ ان کی ڈاکیومنٹری No Other Land نے صرف آسکر ایوارڈ نہیں جیتا، بلکہ انسانی درد کو ایک نئی زبان دی۔ وہ فلم جس میں ماسافر یطا کی کہانی سنائی گئی — زمینوں کی زبردستی چھین، گھروں کی مسماری، اسکولوں کا انہدام، اور روزانہ کی بنیاد پر آبادکاروں کی درندگی — ایک ایسا عکس ہے جو آنکھیں بند کر لینے سے بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔
ادرا کہتا ہے: “میں نے کیمرہ اس لیے اٹھایا کیونکہ میں دیکھتا تھا کہ بلڈوزر ہمارے گاؤں میں آتے ہیں اور ہمارے گھر مٹاتے ہیں۔ میں چاہتا تھا دنیا دیکھے کہ ہم زندہ ہیں، ہم یہاں رہتے ہیں، اور ہم ظلم سہہ رہے ہیں۔” لیکن ادرا کی فریاد، اس کی فلم، اور اس کا ایوارڈ — سب عالمی برادری کی بے حسی کے سامنے بے اثر ہو گئے۔ فلم کے بعد نہ اسرائیلی مظالم رکے، نہ عدالتوں نے کوئی انصاف دیا، نہ ہی اقوام متحدہ نے کوئی مؤثر قدم اٹھایا۔ الٹا ادرا کے ساتھی ہدایتکار ہمدان بلال کو آسکر جیتنے کے “جرم” میں نہ صرف اسرائیلی آبادکاروں کے ہاتھوں تشدد سہنا پڑا، بلکہ پولیس نے بھی ان پر تشدد کیا۔
فلسطین کے درد پر دنیا کی یہ خاموشی سب سے بڑا جرم ہے۔ جن ملکوں نے یوکرین پر حملے پر فوراََ پابندیاں عائد کیں، جو ہانگ کانگ میں انسانی حقوق کے نعرے لگاتے ہیں، وہی فلسطین کے ذکر پر یا تو خاموش ہو جاتے ہیں یا اسرائیلی بیانیے کو دہراتے ہیں۔ No Other Land جیسی فلم بھی امریکا جیسے ملک میں بمشکل چند سینماؤں میں دکھائی جاتی ہے، حالانکہ وہ آسکر ایوارڈ یافتہ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب آزادی اظہار اور انسانی ہمدردی کے دعوے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں، انسانی حقوق کے منشور، جنیوا کنونشنز — سب فلسطین کے معاملے میں کاغذی خواب بن چکے ہیں۔ اسرائیل نہ صرف ان قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے بلکہ ان پر عملدرآمد کے مطالبے کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ یہ عالمی برادری کی منافقت نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف وہ اسرائیلی مظالم کو روکنے میں ناکام ہے، اور دوسری طرف فلسطینی مزاحمت کو “انتہا پسندی” کے خانے میں فٹ کرتی ہے؟
ادرا کی فلم چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ یہ زمین ہماری ہے، یہاں ہماری قبریں ہیں، ہمارے خواب ہیں، ہمارے بچے ہیں، لیکن دنیا ان چیخوں کو سننا نہیں چاہتی۔ شاید اس لیے کہ فلسطینیوں کے پاس تیل نہیں، نہ عالمی منڈیوں میں اثرورسوخ، نہ ہی دفاعی سودے۔ لیکن کیا انسانیت صرف دولت، وسائل اور سیاسی مفادات کا نام ہے؟ اگر ایسا ہے، تو پھر ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم ایک غیر انسانی دنیا میں جی رہے ہیں، جہاں مظلوم کی کوئی آواز، کوئی اہمیت نہیں۔
پچھلے کئی مہینوں میں غزہ میں ہونے والی تباہی نے دنیا کو ایک بار پھر فلسطین کی طرف متوجہ کیا، لیکن یہ توجہ بھی وقتی تھی، خبروں کے سرخیوں میں کچھ دن، پھر خاموشی۔ یہی حال مغربی کنارے کا ہے۔ ہر روز اسرائیلی آبادکاروں کے حملے، گھروں پر چھاپے، بچوں کی گرفتاریاں، مسجدوں کی بے حرمتی — یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اور دنیا صرف تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اگر عالمی برادری واقعی انسانی حقوق پر یقین رکھتی ہے، تو اب وقت ہے کہ وہ صرف مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرے۔ فلسطین کو انصاف دینا صرف فلسطینیوں کا حق نہیں بلکہ انسانیت کا تقاضا ہے۔ No Other Land صرف ایک فلم نہیں، یہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں خود ہمارا چہرہ دکھاتا ہے — ایک ایسا چہرہ جو بےحسی، منافقت، اور خاموشی سے لت پت ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے جہاں دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا — کہ وہ کس طرف کھڑی ہے؟ مظلوم کے ساتھ یا ظالم کے ساتھ؟ کیونکہ تاریخ صرف جنگوں کو نہیں، خاموشیوں کو بھی یاد رکھتی ہے۔
اور شاید وہ دن کبھی آئے گا، جب فلسطین کے بچے اپنے خواب اپنی زمین پر پورے کر سکیں گے، جب باسل ادرا کو فلم بنانے کے بجائے امید لکھنے کا وقت ملے گا۔ لیکن وہ دن تبھی آئے گا، جب دنیا خواب غفلت سے جاگے گی، اور مظلوم فلسطین کی فریاد کو صرف سنے گی نہیں، بلکہ اس پر عمل بھی کرے گی۔
