آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

مسلم دنیا کی خاموشی اور اسرائیلی جارحیت کا پھیلتا ہوا سایہ

دوحہ میں منعقدہ ہنگامی عرب-اسلامی سربراہی اجلاس کے بعد جاری ہونے والا اعلامیہ ایک بار پھر یہ ثابت کر گیا کہ مسلم دنیا محض الفاظ کی بازی گری پر اکتفا کر رہی ہے۔ قریباً 60 ممالک کے سربراہانِ مملکت جمع ہوئے تھے، توقع تھی کہ اسرائیل کی کھلی جارحیت کا کوئی ٹھوس جواب دیا جائے گا، لیکن نتیجہ ایک بار پھر محض بیان بازی نکلا۔ طاقت ور الفاظ، کمزور اقدامات — یہی مسلم دنیا کا المیہ ہے۔قطر پر اسرائیل کا حملہ محض ایک اور جارحانہ کارروائی نہیں تھی بلکہ ایک ایسی خطرناک پیش رفت تھی جس نے پورے خطے کی سلامتی پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ اسرائیل نے رواں برس چھ عرب ممالک پر حملے کیے، فلسطین میں قتلِ عام کو جاری رکھا، لبنان اور شام میں اپنی کارروائیاں بڑھائیں، یمن کو نشانہ بنایا اور حتیٰ کہ ایران کے ایٹمی تنصیبات پر بھی امریکہ کے ساتھ مل کر حملہ کیا۔ ان تمام واقعات کے باوجود مسلم دنیا کے اجتماعی ردعمل کا حال یہ ہے کہ چند رسمی بیانات، چند ہلکی پھلکی مذمتیں اور پھر مکمل خاموشی۔غزہ میں اسرائیلی بربریت کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک 65 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ ایک ملین سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ خوراک کی شدید کمی ہے، بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور پورا خطہ انسانی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس کے باوجود مسلم دنیا کے بیشتر حکمران اپنی تجارتی مفادات اور سیاسی مصلحتوں کے باعث اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔قطر کا واقعہ ایک اور پہلو سے بھی اہم ہے۔ یہ ملک امریکہ کا قریبی اتحادی ہے، جہاں خطے کا سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ موجود ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل نے ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا جس میں حماس کے نمائندے اور قطری سکیورٹی اہلکار موجود تھے۔ پانچ افراد جاں بحق ہوئے اور حملے کا مقصد واضح طور پر امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ یہ بات مزید حیران کن ہے کہ امریکی انتظامیہ کو حملے کی اطلاع پہلے سے تھی لیکن قطر کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ گویا امریکی موجودگی بھی اسرائیلی جارحیت سے کسی عرب ملک کو محفوظ نہیں رکھ سکتی۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم دنیا آخر کب تک اس ذلت کو برداشت کرے گی؟ کیا صرف اس لیے کہ چند شیخdoms امریکی حمایت کے عوض اربوں ڈالر کے معاہدے کر لیتے ہیں اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے واشنگٹن کے اشاروں پر چلتے ہیں، پوری امتِ مسلمہ اسرائیل کے مظالم پر خاموش رہے؟ قطر نے خود امریکی صدر ٹرمپ کو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی، ایک قیمتی طیارہ تحفے میں دیا، لیکن اس سب کے باوجود اسرائیل نے قطر کو نشانہ بنایا۔ اس حقیقت سے زیادہ عبرتناک اور کیا ہو سکتا ہے؟دوحہ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیلی جارحیت “اب تک کے تعلقات کو خطرے میں ڈال رہی ہے” اور امریکہ سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے۔ یہ مطالبہ خود اپنی کمزوری کا اعلان ہے۔ امریکہ وہ ملک ہے جو اسرائیل کو ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے، اس کی جارحانہ پالیسیوں کا سب سے بڑا پشت پناہ ہے۔ ایسے ملک سے توقع رکھنا کہ وہ اسرائیل کے ہاتھ روکے گا، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا کے پاس خود دباؤ ڈالنے کے وسائل موجود ہیں۔ ان کے پاس تیل ہے، سرمایہ ہے، تجارتی مواقع ہیں۔ اگر اجتماعی طور پر فیصلہ کیا جائے تو امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ناممکن نہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عرب دنیا داخلی تقسیم، باہمی مفادات اور علاقائی دشمنیوں میں اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ کوئی مشترکہ لائحہ عمل بن ہی نہیں پاتا۔ کچھ ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر بھی آمادہ نہیں کیونکہ ان کے نزدیک معاشی یا سکیورٹی مفادات زیادہ اہم ہیں۔یہ تقسیم اسرائیل کے لیے سب سے بڑی طاقت ہے۔ جب تک مسلم دنیا ایک صف میں نہیں آتی، اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ مزید بڑھے گا۔ غزہ کو مستقل طور پر خالی کرانے اور بستیوں کی توسیع کے اسرائیلی منصوبے کھلم کھلا اعلان کیے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں محض زبانی بیانات اور رسمی مذمتیں مظلوم فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔آج ہمیں یہ سوال خود سے پوچھنا ہوگا کہ اگر فلسطین کے لاکھوں بے گھر افراد، لبنان، شام اور یمن کے متاثرین، اور اب قطر جیسے ملک کے شہری بھی ہماری بے عملی کے شکار ہیں، تو کیا ہماری سیاسی قیادت کو حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلم دنیا کے رہنما کہے؟ کیا ہماری اجتماعی بے حسی تاریخ میں ویسے ہی درج نہیں ہوگی جیسے اندلس کے سقوط پر مسلم حکمرانوں کی غفلت درج ہے؟اسرائیلی جارحیت اور امریکی پشت پناہی کا جواب صرف اس وقت دیا جا سکتا ہے جب مسلم ممالک اپنے اندرونی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ایک واضح اور متحدہ حکمت عملی اپنائیں۔ یہ حکمت عملی محض سیاسی بیانات پر نہیں بلکہ عملی اقدامات پر مبنی ہونی چاہیے — سفارتی تعلقات کا خاتمہ، اقتصادی دباؤ، تجارتی بائیکاٹ اور بین الاقوامی اداروں میں مشترکہ مہم۔ جب تک یہ سب کچھ نہیں ہوتا، اسرائیل اپنی طاقت کے نشے میں مزید تباہی مچاتا رہے گا اور مسلم دنیا اجلاسوں اور بیانات میں وقت ضائع کرتی رہے گی۔اس وقت کا سب سے بڑا سوال یہی ہے: کیا مسلم دنیا کبھی بیدار ہوگی یا تاریخ ہمیں بھی انہی قوموں کی فہرست میں درج کرے گی جنہوں نے اپنے وقت کے مظلوموں کا خون دیکھ کر بھی خاموشی اختیار کی؟پاکستان کے لیے یہ صورتحال محض ایک بین الاقوامی انسانی المیہ نہیں بلکہ براہِ راست خارجہ پالیسی کا مسئلہ بھی ہے۔ پاکستان کا آغاز ہی فلسطین کاز کے ساتھ ہمدردی کے اظہار سے ہوا تھا۔ قراردادِ پاکستان پیش کرنے کے بعد سب سے پہلا بڑا عالمی مسئلہ جس پر مسلم لیگ نے آواز بلند کی، وہ فلسطین کا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال دونوں نے یہ واضح کر دیا تھا کہ فلسطین کی سرزمین پر صیہونی ریاست قائم کرنا عربوں اور مسلمانوں کے ساتھ بدترین ناانصافی ہوگی۔ اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان نے 1948 سے لے کر آج تک اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔مگر سوال یہ ہے کہ آج جب فلسطینیوں پر سب سے بڑی نسل کشی ہو رہی ہے اور اسرائیل اپنی جارحیت کو عرب ممالک تک پھیلا رہا ہے تو پاکستان کا کردار کیوں صرف بیانات تک محدود ہو گیا ہے؟ کیا صرف پارلیمانی قراردادیں اور او آئی سی اجلاسوں میں تقریریں کافی ہیں؟ پاکستان کے عوام میں فلسطین سے بے پناہ محبت اور ہمدردی ہے، مگر یہ جذبہ ریاستی پالیسی میں عملی اقدامات کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔پاکستان کے پاس اگرچہ خلیجی ممالک کی طرح اربوں ڈالر کے تیل کے ذخائر نہیں، لیکن اس کے پاس اخلاقی اور سفارتی وزن موجود ہے۔ یہ ملک ایٹمی طاقت ہے، اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت، جس کی بات عالمی سطح پر وزن رکھتی ہے۔ پاکستان اگر عرب دنیا کو قائل کرے کہ صرف بیان بازی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، تو شاید کوئی مشترکہ عملی لائحہ عمل سامنے آ سکے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ داخلی سیاسی انتشار اور معاشی بدحالی نے ہمیں اتنا کمزور کر دیا ہے کہ ہم خود کو لیڈرشپ کے مقام پر کھڑا نہیں کر پا رہے۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اکثر اوقات امریکہ کی خوشنودی کو مقدم رکھا گیا ہے۔ فلسطین پر کھل کر موقف اپنانے میں ہمیشہ یہ خوف لاحق رہا کہ کہیں واشنگٹن ناراض نہ ہو جائے۔ اسی پالیسی کے باعث ہم نے بارہا اپنے اصولی موقف کو دبایا۔ مگر آج جب خود قطر اور دیگر خلیجی ممالک، جو امریکہ کے سب سے قریبی اتحادی ہیں، اسرائیل کے نشانے پر ہیں، تو پاکستان کو سوچنا ہوگا کہ اگر کل ہماری باری آئی تو کیا کوئی عرب ملک ہمارے حق میں صرف قرارداد منظور کرنے سے زیادہ کچھ کرے گا؟یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہماری سفارت کاری کہاں کھڑی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں عرب و مسلم دنیا کو متحد کرنے پر صرف کرے۔ اگر او آئی سی ایک بے جان ادارہ ثابت ہو رہا ہے، تو پاکستان، ترکی، ایران، ملائیشیا اور چند دوسرے ممالک مل کر ایک متبادل پلیٹ فارم تشکیل دیں جو فلسطین اور مسلم دنیا کے دوسرے تنازعات پر ٹھوس اقدامات کر سکے۔داخلی سطح پر بھی ہمیں اپنے عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف عربوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا ہے۔ جس طرح کشمیر کا زخم ہمارے لیے ایک دائمی درد ہے، اسی طرح فلسطین کی بربادی بھی ہماری اپنی شکست ہے۔ اگر اسرائیل آج قطر پر بمباری کر سکتا ہے تو کل کسی اور ملک کو نشانہ بنانا اس کے لیے کیوں مشکل ہوگا؟یہاں ایک اور سوال بھی اٹھتا ہے: کیا ہماری سیاسی قیادت اس قابل ہے کہ وہ عوام کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کر سکے؟ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست اقتدار کے کھیل تک محدود ہو گئی ہے۔ کوئی بھٹو جیسا لیڈر نہیں جو عرب دنیا کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھ سکے۔ کوئی ایسا رہنما نہیں جو عالمی فورمز پر مغرب اور امریکہ کو للکار سکے۔ یہی خلا ہے جس نے ہمیں محض ایک تماشائی بنا دیا ہے۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے سفارت خانوں کو فعال کرے، دنیا بھر میں فلسطینی کاز کو اجاگر کرے، انسانی حقوق کی تنظیموں کو ساتھ ملا کر اسرائیل کے جنگی جرائم پر عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ میں مقدمہ چلانے کی مہم شروع کرے۔ اگر چھوٹے چھوٹے ممالک اپنے مسائل کو عالمی ایجنڈے پر لا سکتے ہیں تو پاکستان جیسے بڑے ملک کے لیے یہ کیوں ممکن نہیں؟یہ بھی وقت ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرِ نو ترتیب دے۔ ہمیں امریکہ اور مغرب کی غلامانہ پالیسیوں سے نکل کر چین، روس، ایران اور ترکی کے ساتھ ایسے تعلقات قائم کرنے ہوں گے جو ہمیں سفارتی خود مختاری دے سکیں۔ ورنہ ہم بھی انہی عرب ریاستوں کی طرح صرف اجلاسوں میں تقریریں کر کے اپنے عوام کو مطمئن کرتے رہیں گے اور دنیا ہمیں ایک کمزور، غیر مؤثر ملک کے طور پر دیکھتی رہے گی۔فلسطین کا زخم پوری مسلم دنیا کے ضمیر کا امتحان ہے۔ دوحہ اجلاس نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہماری اجتماعی قیادت ناکام ہو چکی ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اپنے کردار کو محض بیانات سے آگے بڑھا کر عملی اقدامات میں ڈھالے۔ ورنہ کل تاریخ ہمیں بھی انہی صفحوں میں درج کرے گی جہاں اندلس، بغداد اور بیت المقدس کی شکست خوردہ کہانیاں لکھی ہوئی ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں