نا زاو کاڑوی
ایک عرصہ سے سوانح عمری پڑھنے کا اشتیاق تھا اور اب بھی ہے۔ دوست احباب سے مشورے بھی لیے انہوں نے نام بھی بتائے۔ شہاب نامہ اولین میں سے تھا جسے پڑھنے کا اتفاق ہوا، جوش ملیح آبادی کی یادوں کی بارات ، احسان دانش کی جہان دگر ، وغیرہ وغیر دیا پھر کسی ریٹائرڈ حج ، ریٹائرڈ پولیس مین، بیورو کریسی کے ساتھ ریٹائرڈ فوجی وغیرہ کی آپ بیتیاں بھی پڑھیں لیکن دل تھا کہ مطمئن نہ ہو سکا۔ طلب تھی جس کی وہ تشنہ ہی رہی۔ میں چاہتا تھا کہ کسی عام آدمی کی جیون کتھا پڑھوں کیوں کہ درج بالا شخصیات کی دُنیا ہی الگ ، ان کا رہن سہن ہی جدا ہوتا ہے۔ نیز ان کی سرگزشت ان کے سب کلچر اور منصب کے اردگرد ہی گھومتی نظر آئی ۔ ہنوز میں تسکین قلب کی تلاش میں تھا کہ اللہ بھلا کرے مظہر سلیم مجوکا کا کہ انہوں نے مسعود اللہ کی آپ بیتی عنایت کرنے کے ساتھ حکم دیا کہ اس پہ کچھ لکھنا بھی ہے۔ سو حکم کی بجا آوری کے لیے اسے حرف حرف پڑھا تو جہاں ہر سطر پڑھتے ہوئے الفاظ کا چناؤ تحریر میں ربط ، سادہ بیانی ملمع سازی سے کوسوں دور مرصع اور مرقع کا بھر پور تاثر لیے پڑھنے والے کو متاثر کیے بغیر آگے پڑھنے میں دل چسپی برقرار رکھتی ہے۔ اسلوب بیان ہی قاری کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس آپ بیتی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ لکھاری نے کلیدی عہدوں پر کام کرتے ہوئے اپنے کارنامے بڑھ چڑھ کر بیان نہیں کیسے بل کہ اپنے تجربات کی قاری تک رسائی کی کوشش کی ہے۔
سوانح عمری میں افسانہ اور ناول کے عناصر پڑھنے کو ملتے ہیں، جیسے داستان، ناول اور کہانی کی مختلف شکلیں ہیں۔ فکری و اسلوبی حوالے سے جن کی اپنی اپنی شناخت اور خصوصیات ہیں۔ طلسماتی فضائیں تشکیل دیتے مافوق الفطرت اور حیران کن قصے بیان کرنے میں داستان کا ثانی نہیں ۔ مسعود اللہ نے بھی اپنی داستان انہی خطوط پر چلتے ہوئے بیان کی ہے۔ یہاں کئی موڑ آتے ہیں کہیں اُن کا عجز وانکسار تحمل و بردباری تو پھر چانک ایک موڑ پر جلالی کیفیت نظر آتی ہے۔ خیر یہ ان کی تحریر کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ آپ بیتی یا سوانحی عمری ہویا کہیں یادوں کی بارات ہو، یہ ماحول اور معاشرت سے جڑی ہوئی ہیں جو ہماری اور ہمارے عہد کی زندگی کے مثبت و منفی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ زندگی کے کسی ایک رُخ ، ایک پہلو اور ایک نکتہ نظر کو کبھی سادہ و رواں اسلوب میں تو کبھی علامت و تجرید کے ذریعے کبھی مضبوط پلاٹ اور کہانی کے ذریعے اور کہیں الگ کرداری مکالمے میں۔ داستان کو ذخیروں کا سمندر بھی کہا گیا ہے جس کے مقابلے میں ناول یا افسانہ ندی نالے لگتے ہیں۔ مصنف کے بارے فرخ سہیل گوئندی لکھتے ہیں : مسعود اسلم اللہ کی خود نوشت خودار، بچے، بہادر اور ایمان دار شخص کی داستان ہے۔ ان کا انداز بیان اور تحریر متاثر کن ہے جب کہ تجربات مشاہدات اور سفر منفر وہی نہیں دل کش بھی ہے اور بہتی ندی کے پانی کی طرح شفاف بھی !
سردار عتیق یوں فرماتے ہیں: مسعود بھائی نے مجاہد اول اور راقم الحروف کے ساتھ اپنی قلبی اور روحانی تعلق کو جن شان دار اور جامع الفاظ میں بیان کیا ہے یہ انہی کا طرہ امتیاز ہے۔ امجد اسلام امجد نے منظوم
اظہار یہ اپنایا ہے ایک بند ملاحظہ ہو۔
زندگی کے رستے میں
بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں
گلستاں سجانے میں
ایک ایک تنکے سے
عمر کاٹ دینے میں
آشیاں بنانے میں
اور اپنے حصے کے
پھول بانٹ دینے میں
بلا شبہ مسعود للہ نے اپنے راستے میں آنے والے کانٹوں کو چنا بھی اور پھر بھی ہٹائے ہیں۔ پہلے پہل آشیانہ اپنے وطن عزیز میں اور پھر مستقبل خوش گوار اور پائے دار بنانے کے لیے ہجرت کی ۔ دوسرا آشیانہ بنانے میں تنکوں کو کیسے جمع کیا، ان کی داستان پڑھ کر بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ بالآخر آج بھی اپنی عمر رفتہ کی راہوں میں گلستان سجانے ، خوشبوئیں بکھیرے پھول اور بانٹے جارہے ہیں۔
اپنی داستان سنانے سے پہلے، اپنی سوانح حیات کیوں تحریر کی ہے ہمیں بتاتے ہیں: میں ہرگز یہ کتاب لکھنے کا ارادہ اور حوصلہ نہ کر پاتا اگر میری اہلیہ ریحانہ مسعود ، چھوٹا بھائی محبوب اُس کی اہلیہ صوفیہ، بھانجے علی اور سرمد مجھے نہ اکساتے۔ میں اپنے خیالات کا اظہار بھی نہ کر پاتا اگر میرے چند خوش فکر و خوش نظر دوست مجھے بلا شیری نہ دیتے ۔ اب ہم با قاعد ہ مسعود اسلم للہ کی آواز مسعود للہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیں گے۔ ٹائٹل کی خوب صورتی بذات خود لکھاری کی جنسی مسکراتی آنکھوں سے باتیں کرتی دل کش شبیہ ہے۔ وہ اپنے بارے بتاتے ہیں کہ میں خود کو چوتھی قسم کے اس خوش بخت قبیلے کا فرد سمجھتا ہوں جن کی زندگی مسلسل جدو جہد سے تعبیر ہوتی ہے۔ میرے گروہ کے لوگ ہر طرح کے حالات سے گزرتے ہیں لیکن اللہ کی دی ہوئی توفیق سے ہر مشکل کا سامنا ہمت و جرات مندی سے کرتے ہیں اور صبر کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، جب کہ ہر کام یابی ، خوش حالی ، ترقی اور سر بلندی میں عاجزی و شکر کا راستا اختیار کرتے ہیں ۔ میرا ایمان ہے کہ یہ سب من جانب یزداں ہوتا ہے۔ میں کوئی بہت نام ور شخصیت ہوں اور نہ ہی گم نام شخص ، کوئی ارب پتی ہوں اور نہ ہی کوئی مفلوک الحال تارک الدنیا انسان ، بہت زیادہ جذباتی ہوں نہ ہی کوئی سرد مزاج بے حس آدمی کہ جس کی اپنی کوئی رائے، کوئی جذبات و احساسات نہ ہوں ۔ مہربان رب نے بہت ساری مہمات ، اونچ نیچ اور جد و جہد سے گزارنے کے باوجود کبھی مجھے پسپا یا بے بس نہیں ہونے دیا۔ ہر ہر مرحلے اور ہر ہر قدم پر سرخرو کیا۔ بہت سے غیر معمولی اور دل چسپ واقعات نے میری زندگی کے کینوس پر اپنے رنگ بکھیرے؛ وہی سب کچھ آپ تک پہنچانا میری خواہش ہے۔ یہ پیرا گراف اس لیے لکھا کہ جیسے جیسے آپ آگے بڑھیں گے میری حیات کیسے گزری، کن راہوں پر چلا گیا مجھ پر کیا بیتی ، کن اور کیسے مراحل سے کہاں صبر ، کیسے درگزر کیا تو کہاں مزاحمتی رنگ اختیار کرنا پڑا؟ تا کہ قاری کے ذہن میں پہلے ایک خاکہ موجود ہو تو حالات ، واقعات کو سمجھنے میں کہیں رکنے ، سوچنے کی نوبت نہ آئے؛ داستان کا تسلسل اور لطف برقرار رہے ۔