آج کی تاریخ

مسعود اسلم للہ کی کتاب سے اقتباس ( پہلی قسط)

مسعود اسلم للہ کی کتاب سے اقتباس ( تیسری قسط)

ناز اکاڑوی

بلا شبہ نئی اختراعات نے جہاں زندگی آسان اور باہمی تعلقات کو سمیٹ کر رو بہ رو کر دیا ہے جیسے موبائل سے دور دراز کے دوست احباب سے ملاقات اب سیکنڈوں کی بات ہو کر رہ گئی ہے، یعنی ایک ہی لمس سے اپنے مطلوبہ نمبر کو ڈائل اور بات کر سکتے ہیں اور اگر دل چاہے تو واٹس ایپ سے بھی دل بہلا سکتے ہیں۔ مسعود للہ نے اپنے دور میں ان سہولتوں کے فقدان سے اپنے دور کو یا دہی نہیں کیا۔ اس دوران میسر ذرائع اور اس کے استعمال کی ایک چھوٹی سی جھلک نئی نسل کو دکھانے کی کوشش کی ہے بتا رہے ہیں۔
اس زمانے میں نہ کوئی یوٹیوب تھی اور نہ آئی پیڈ ، نہ سیل فون اور نہ ہی لیپ ٹاپ یا پھر ان باکس بلکہ تصویر بنانے والے سڑک کنارے ایک ڈبہ نما کمرہ یا کمرہ نما ڈبہ لے کر بیٹھے ہوتے جو بلیک اینڈ وائٹ تصویر بناتے۔ منی بک تک نہ تھی بلکہ منی اور بک دونوں اصلی ہوتے تھے منی بک کو تو کچھ لوگ نیک بک بھی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں سائیکل چلانا بھی بڑی عیاشی تصور ہوتی تھی۔ یہ بہت سادہ زمانہ تھا۔ سائیکل پر سکول جاتے ہوئے طرح طرح کی بولیاں سنیں جیسے بڑی جنگ کا خطرہ ۔ دراصل اخبار بیچنے کے لیے شور مچایا جاتا اور بعد میں پتا چلتا کہ دو سیاسی راہ ہنماؤں میں لفظی بیان بازی کو بڑی جنگ قرار دیا جا رہا ہے جب کہ لوگ تجس میں اور سادگی میں اخبار دھڑادھڑ خرید رہے ہیں۔
مسعود جس زمانے کی بات کر رہے ہیں لوگوں کی آپس میں محبت، رواداری ، دکھ درد میں شریک ہونا مل بیٹھنا خوشی اور نمی میں ایک دوسرے کی تقریبات میں نا صرف شرکت کرنا بلکہ حتی المقدور ہاتھ بٹانا اور کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا عین عبادت سمجھا جاتا تھا۔ جہاں اس دور سے گزر کر عصر حاضر میں زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنی یادیں تازہ کریں گے شاید اپنے پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں کو اس سہانے دور کی مزید باتوں سے حیران کریں گے کہ نئی نسل کے لیے باتیں حیران کن ہی ہیں آج کے اس مادہ پرست اور خود غرضیت دور میں تو نا پید ہیں۔ ان کا یہ بھی خاصا ہے کہ داستان حیات تو ہے ہی لیکن جہاں اپنے قاری کیلیے دلچسپی کو قائم رکھنے کے لیے مثبت پہلوؤں کو بھی اجاگر کر رہے ہیں۔ بلکہ نئی نسل کو پیغام بھی دینا چاہ رہے ہیں کہ ہمارے یعنی امن و آشتی پیار محبت کا زمانہ سنہری زمانہ کہلاتا ہے۔ نسل نو میں سے کچھ لوگ بھی ان روایات کو زندہ کر لیں یا اپنا لیں تو ان کا مقصد بھی پورا ہو جائے گا تو صدقہ جاریہ کے بھی حق دار ٹھہریں گے۔
کچھ یوں رقم طراز ہوتے ہیں اس دور میں کسی گھر میں کوئی مہمان آتا تو محلے بھر کا مہمان سمجھا جاتا اور کئی لوگ اس کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتے ، مہمان کی آمد پر سردیوں میں پیٹیوں سے فنائل والے گرے، تکیے اور رضائیاں نکالے جاتے اور نیا صابن اور دھلا ہوا تولیہ پیش کیا جاتا ۔ بستر کی چادریں اور تکیے دلکش کڑھائی سے منقش ہوتے اور میزبان کے خلوص و میز بانی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ، مہمان کی آمد پر اپنے گھر سے یا پھر محلے سے مرغی پکڑ کر ذبح کی جاتی اور دیسی مرغ کی رانیں خاص طور پر مہمان کے لیے مختص کر دی جاتیں مہمان کی روانگی کا لحہ اداسی کا منظر پیش کرتا۔ شادی بیاہ اور اموات پر سارا محلہ اسے اپنی مشتر کہ خوشی یا غم سجھتا۔ ایسے مواقع پر آنے والے مہمان کو ان کے مرتبے کے مطابق مختلف محلے داروں کے گھر بڑی بے تکلفی سے ٹھہرایا جاتا کسی گھر میں اگر بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تو شام کو سارا محلہ اسی گھر میں ڈرامہ دیکھتا۔ محلے کے بچے پیشگی واقفیت اور دوستی کے بغیر بھی جھٹ سے آپس میں گل مل جاتے گھر میں بہن بھائیوں میں بڑی ٹھنڈی میٹھی لڑائیاں جاری رہتیں ، ایک مرتبہ بڑے بھائی محمود نے صحن میں شہتوت کے درخت پر چڑھ کر نیچے بیٹھی بہن کی کاپی پر جان بوجھ کر پانی پھینک دیا اس طرح میں نے ایک مرتبہ اپنی بہن راحت کے جو میٹری باکس پر نا جائز قبضہ کر لیا تو والد صاحب نے ہم دونوں بھائیوں کی وہ دھلائی کی جو مدتوں یا در ہی عرض یہ کہ معاشرے میں ایک دوسرے کا احترام ہوتا تھا تعصبات اور نفرتوں کی بجائے پیاری ، محبت، خلوص، ایثار، تعاون اور رواداری طرز زندگی کے لازمی جزو تھے ۔

شیئر کریں

:مزید خبریں