آج کی تاریخ

مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پانچ اگست 2019 کے غیر آئینی اور جابرانہ اقدامات کو چھ سال بیت چکے ہیں، جب مودی سرکار نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-اے کو ختم کر کے ریاست جموں و کشمیر کی محدود خودمختاری چھین لی اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو حصوں — جموں و کشمیر اور لداخ — میں تقسیم کر دیا۔ ان اقدامات کا مقصد واضح تھا: عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع خطے کو داخلی مسئلہ قرار دے کر اس کی جداگانہ حیثیت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دینا۔
لیکن تاریخ، حقائق اور کشمیری عوام کا اجتماعی شعور ان سازشی منصوبوں کے سامنے مسلسل ڈٹا ہوا ہے۔
اب بھارت ایک نئی چال چلنے جا رہا ہے: اطلاعات کے مطابق نئی دہلی کی اعلیٰ سطحی بیٹھکوں میں مقبوضہ جموں کو الگ ریاستی درجہ دینے پر غور ہو رہا ہے۔ بظاہر یہ ایک سیاسی اقدام لگتا ہے، مگر درحقیقت یہ ایک اور کوشش ہے مسئلہ کشمیر کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کے سیاسی، جغرافیائی اور تاریخی تناظر کو مسخ کرنے کی۔
یہ بات بھارت بھی جانتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی تقسیم، کوئی نئی حلقہ بندی، یا نام نہاد ریاستی درجہ بندی، کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم نہیں کر سکتی۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں، عالمی رائے عامہ، اور یہاں تک کہ خود بھارت کے قریبی دوست ممالک بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، اور اس کا حل صرف اور صرف کشمیری عوام کی مرضی اور بین الاقوامی اصولوں کے تحت ممکن ہے۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ بھارت نے پانچ اگست 2019 کے بعد سے نہ صرف مقبوضہ وادی میں سیاسی حقوق کو محدود کیا ہے بلکہ آبادیاتی تناسب بدلنے، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرنے، اور سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کی کھلی پالیسیاں اختیار کی ہیں۔ کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے، ان پر مسلسل نمک چھڑکا جا رہا ہے۔
گزشتہ برس ہونے والے مقامی انتخابات میں بھی یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ حتیٰ کہ نئی دہلی کی وفادار جماعتیں بھی ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کی جداگانہ شناخت کو مٹانے کی بھارتی کوششیں نہ صرف حریت پسندوں بلکہ دہلی کے ہمنوا سیاستدانوں کی طرف سے بھی قبول نہیں کی جا رہیں۔
بھارت کی سپریم کورٹ اگرچہ آئندہ دنوں میں ریاستی درجہ کی بحالی سے متعلق ایک اہم مقدمہ سنے گی، مگر زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ عدلیہ بھی اس معاملے میں حکومتی بیانیے سے آزاد کردار ادا نہیں کر پا رہی۔ اس لیے امیدیں اب بھی کشمیری عوام کی مزاحمت، بین الاقوامی اصولوں، اور عالمی ضمیر کے بیدار ہونے پر ہی قائم ہیں۔
موجودہ منظرنامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان، بھارت اور کشمیری قیادت پر مشتمل سیاسی مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ جب تک تمام فریقوں کی شمولیت سے مسئلہ کشمیر کا منصفانہ، پائیدار اور قابل قبول حل تلاش نہیں کیا جاتا، جنوبی ایشیا میں بداعتمادی اور کشیدگی کی فضا ختم نہیں ہو سکتی۔
اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی نئی حلقہ بندی، مصنوعی تقسیم، یا انتخابی سیاست سے مسئلہ کشمیر کو دفن نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت جتنی بھی نئی حکمتِ عملیاں اختیار کر لے، وہ مسئلے کی حقیقت کو ختم نہیں کر سکتا۔
اس حقیقت کو بھارت جتنا جلدی تسلیم کر لے، اتنا ہی خطے کے امن، ترقی اور کشمیری عوام کی خوشحالی کے لیے بہتر ہو گا۔ ورنہ یہ زخم نہ صرف گہرا ہوتا جائے گا، بلکہ جنوبی ایشیا کا مستقبل مزید غیر یقینی اور پرآشوب بن جائے گا۔
یقیناً، مسئلہ کشمیر کو صرف حالیہ سیاسی چالوں یا آئینی ترامیم کی روشنی میں سمجھنا اس کی سنگینی اور پیچیدگی کو محدود کر دیتا ہے۔ اس مسئلے کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا تاریخی تناظر بھی پیش نظر رکھا جائے، جو اسے نہ صرف ایک جغرافیائی تنازع بلکہ ایک ادھورے وعدے، پامال انصاف اور عالمی ضمیر کی آزمائش کی شکل دیتا ہے۔
جب 1947 میں برصغیر تقسیم ہوا، تو ریاست جموں و کشمیر ان چند ریاستوں میں سے ایک تھی جنہیں یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں شمولیت اختیار کریں، یا آزاد رہیں۔ اس وقت ریاست کا مہاراجہ ہری سنگھ ہندو تھا، مگر آبادی کی اکثریت مسلمان تھی، جو پاکستان سے الحاق چاہتی تھی۔ مہاراجہ نے ابتدائی طور پر آزاد رہنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن جب عوامی بغاوت اور قبائلی لشکر کشی کے نتیجے میں اس کی حکومت کمزور پڑی، تو اس نے بھارت سے فوجی مدد کے بدلے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کا معاہدہ کیا۔
یہ الحاق مشروط تھا اور اس کی تصدیق ایک آزادانہ رائے شماری کے ذریعے ہونی تھی۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے نہ صرف کشمیری عوام بلکہ اقوام متحدہ سے بھی یہ وعدہ کیا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کے فیصلے کا جمہوری حق دیا جائے گا۔ 1948 میں اقوام متحدہ نے اس وعدے کی توثیق کرتے ہوئے قرارداد منظور کی کہ کشمیر کے مستقبل کا تعین ریفرنڈم کے ذریعے ہو گا، مگر آج 75 برس گزرنے کے باوجود وہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔
اس کے برعکس، بھارت نے وقت کے ساتھ ساتھ کشمیر پر اپنا تسلط مضبوط کیا، وہاں افواج کی تعداد میں اضافہ کیا، مقامی قیادت کو کمزور کیا، حریت پسندوں کو دبایا، اور سیاسی عمل کو مصنوعی بنا دیا۔ پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے آئین میں ترامیم کر کے ریاست کی خودمختار حیثیت کا بھی خاتمہ کر دیا، اور اسے دو حصوں میں بانٹ کر مرکز کے براہِ راست انتظام میں دے دیا۔ اس کے بعد آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنے کا عمل بھی تیز تر کر دیا گیا۔
بھارت کی یہ تمام کوششیں اقوام متحدہ کی قراردادوں، دو طرفہ معاہدوں (خصوصاً شملہ معاہدہ 1972)، اور خود اس کے کیے گئے وعدوں کے صریح خلاف ہیں۔ یہ بین الاقوامی قانون کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے، اور کشمیری عوام کے بنیادی انسانی، سیاسی اور جمہوری حقوق کی کھلی پامالی ہے۔
اس پورے پس منظر میں اگر دنیا خاموش تماشائی بنی رہے، اور عالمی ضمیر محض اس لیے چپ رہے کہ بھارت ایک بڑی معیشت اور اسٹریٹجک اتحادی ہے، تو یہ منافقت نہ صرف کشمیر بلکہ دیگر عالمی تنازعات میں انصاف کے تصور کو بھی شدید نقصان پہنچائے گی — بالکل ویسے ہی جیسے فلسطین کے مسئلے پر عالمی طاقتوں کی خاموشی آج غزہ میں انسانی المیہ کو جنم دے چکی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری دوہرے معیار چھوڑ کر مسئلہ کشمیر کو اسی نظر سے دیکھے جس نظر سے وہ یوکرین، فلسطین یا دیگر انسانی حقوق کے مسائل کو دیکھتی ہے۔ پاکستان کی حکومت کو بھی سفارتی محاذ پر مزید مؤثر اور جارحانہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ مسئلہ کشمیر دوبارہ عالمی ایجنڈے کا مرکزی نکتہ بن سکے۔
کشمیر محض ایک زمین کا ٹکڑا نہیں، یہ لاکھوں کشمیریوں کی شناخت، تاریخ اور حقِ خود ارادیت کی جنگ ہے۔ اس جنگ کو دبایا جا سکتا ہے، وقتی طور پر خاموش کیا جا سکتا ہے، لیکن ختم نہیں کیا جا سکتا۔
کیونکہ جب تک کشمیر بولتا رہے گا، جب تک شہداء کی قبریں گواہی دیتی رہیں گی، اور جب تک ہر کشمیری بچہ آزادی” کے نعرے سے جنم لیتا رہے گا — یہ مسئلہ زندہ رہے گا۔ اور دنیا کو بالآخر اس کا جواب دینا ہو گا۔
یقیناً، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جہاں تاریخی، اخلاقی اور قانونی پہلو اہم ہیں، وہیں ایک عملی اور دیرپا حل کی تلاش بھی اتنی ہی ضروری ہو چکی ہے — ایسا حل جو نہ صرف پاکستان اور بھارت جیسے ریاستی فریقین کے لیے قابلِ قبول ہو، بلکہ سب سے بڑھ کر کشمیری عوام کی خواہشات اور حقوق کا بھی مکمل احترام کرے۔
ایک تجویز جو حالیہ برسوں میں کچھ حلقوں کی جانب سے سامنے آئی ہے، وہ ہے کہ جموں و کشمیر، لداخ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو ملا کر ایک “بفر زون اسٹیٹ” کی حیثیت دی جائے — ایک ایسا علاقہ جو دونوں ریاستوں (پاکستان اور بھارت) سے خودمختار ہو، مگر مستقل دشمنی یا عدم اعتماد کی فضا کو کم کرتے ہوئے امن، خود حکمرانی اور باہمی احترام کی بنیاد پر چلایا جائے۔
یہ تجویز اپنے اندر ایک انقلابی سوچ رکھتی ہے، مگر اس کے ممکنہ پہلوؤں کا سنجیدہ جائزہ لینا ضروری ہے۔
سب سے پہلے، یہ سمجھنا ہوگا کہ کشمیر کا مسئلہ صرف دو ریاستوں کے درمیان زمینی تنازع نہیں بلکہ ایک قوم کا سیاسی، تہذیبی اور جمہوری مستقبل ہے۔ کشمیری عوام گزشتہ سات دہائیوں سے نہ صرف بےگھر اور مجبور کیے گئے، بلکہ ان کی شناخت، رائے، اور مزاحمت کو بھی طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ اب اگر اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش کیا جانا ہے تو وہ اسی بنیادی اصول پر مبنی ہونا چاہیے کہ کشمیریوں کو اپنا نظامِ حکومت خود طے کرنے کا اختیار دیا جائے۔
اگر گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، وادی کشمیر، جموں اور لداخ کو ملا کر ایک نئی، خودمختار، غیر عسکری، بفر ریاست کے طور پر قائم کیا جائے، جہاں
داخلی سلامتی اور حکومت کشمیری عوام خود چلائیں،
اقوام متحدہ یا کسی نیوٹرل بین الاقوامی ادارے کی سرپرستی میں ایک عبوری مدت تک نگرانی کی جائے،
دونوں ریاستیں (پاکستان اور بھارت) اپنی فوجیں اس خطے سے مکمل طور پر واپس بلا لیں،
اور یہ خطہ عالمی سطح پر ایک پرامن، خود مختار زون کے طور پر تسلیم کیا جائے،
تو یہ نہ صرف ایک غیر روایتی مگر حقیقت پسندانہ حل ہو سکتا ہے، بلکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی طرف ایک بڑی پیش رفت بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا تمام فریقین اس حل کے لیے تیار ہوں گے؟
پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی ہے، لہٰذا اگر کشمیری اس حل کو قبول کریں تو پاکستان کے لیے اس پر آمادہ ہونا ممکن ہو سکتا ہے — بشرطیکہ یہ حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بنیادی جذبے سے متصادم نہ ہو۔
بھارت کے لیے یہ فیصلہ کہیں زیادہ مشکل ہو گا۔ کیونکہ دہلی کی ریاستی پالیسی کشمیر کو بھارت کا “اٹوٹ انگ” قرار دیتی ہے، اور وہ کسی ایسی تجویز کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جو اس دعوے کو چیلنج کرے۔ تاہم، بھارت کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طاقت کے بل پر مسلط کیا گیا نظام نہ تو پائیدار ہوتا ہے نہ ہی قابلِ قبول۔ اگر وہ واقعی کشمیریوں کو “اپنا” مانتا ہے تو انہیں خود اختیار دینا اس دعوے کی اصل آزمائش ہے۔
اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے لیے بھی یہ ایک امتحان اور موقع دونوں ہے۔ دنیا اگر یوکرین میں علاقائی سالمیت کی دہائی دے سکتی ہے، اگر فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کی وکالت کر سکتی ہے، تو کشمیر کے لیے ایک تخلیقی، متفقہ، اور پُرامن حل کو کیوں فروغ نہیں دیا جا سکتا؟
بفر زون ریاست کی حیثیت سے کشمیر نہ صرف ایک آزمائشی ماڈل بن سکتا ہے بلکہ دنیا کے ان تمام علاقوں کے لیے مثال ہو سکتا ہے جہاں نسل، مذہب یا جغرافیہ کی بنیاد پر تنازعات جنم لیتے ہیں۔
تاہم، اس حل کے لیے پہلا اور سب سے ضروری قدم ہے:
تمام فریقین کی نیت میں اخلاص، عوام کی رائے کا احترام، اور خودمختاری کے اصول پر غیر مشروط آمادگی۔
یہ عمل بظاہر مشکل اور وقت طلب ہو سکتا ہے، لیکن اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے، اگر جنوبی ایشیا کو ایٹمی تباہی سے بچانا مقصود ہے، اور اگر کشمیریوں کو ان کا انسان ہونے کا حق دینا ہے — تو پھر “بفر زون اسٹیٹ” جیسی تخلیقی تجاویز کو سنجیدگی سے زیرِ غور لانا ہوگا۔
کشمیر کا مسئلہ بندوق، آئینی ترامیم، یا زبردستی کی حد بندیوں سے حل نہیں ہو گا — یہ صرف اور صرف عوام کے اعتماد، خود مختاری اور انصاف سے ہی ممکن ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں