غزہ میں جاری نسل کشی جیسی بدترین صرت حال میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے عالمی اتفاقِ رائے اور دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت ہورہی ہے۔
نیویارک میں فرانس اور سعودی عرب کی قیادت میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس نے مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ اس کانفرنس کے اختتام پر پندرہ ممالک — جن میں فرانس، مالٹا، آئرلینڈ، جاپان، پاکستان اور یورپی یونین شامل ہیں — نے فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہوئے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے، جس میں مشرق وسطیٰ میں مستقل امن کے لیے دو ریاستی حل کو واحد مؤثر راستہ قرار دیا گیا ہے۔
یہ اعلامیہ اگرچہ اقوامِ متحدہ کی باقاعدہ قرارداد کے طور پر منظور نہیں ہوا، تاہم اسے اقوامِ متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک کو توثیق کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ متوقع ہے کہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں اس پر پیش رفت رپورٹ پیش کی جائے گی۔ فرانسیسی وزیرِ خارجہ ژاں نویل بارو نے کہا ہے کہ فرانس ستمبر میں فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا، جبکہ مالٹا نے بھی اسی اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اعلامیے میں 1967 کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام، مشرقی یروشلم کو اس کا دارالحکومت بنانے، اور اسرائیل کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے لیے سیکیورٹی ضمانتوں کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس اقدام کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب دو ریاستی حل صرف ایک نظریہ نہیں رہا، بلکہ یہ بین الاقوامی پالیسی کا محور بنتا جا رہا ہے۔
تاہم، اس پیش رفت کے باوجود امریکہ اور اسرائیل نے نہ صرف کانفرنس کا بائیکاٹ کیا بلکہ دو ریاستی حل کی بھرپور مخالفت بھی کی۔ یہ رویہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل عالمی اتفاقِ رائے کے باوجود طاقت کی سیاست اور علاقائی مفادات کے تحت تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔
اگرچہ نیویارک اعلامیہ ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن زمینی حقائق اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور تشویشناک ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہزاروں عام شہری جان سے جا چکے ہیں، اور بنیادی ڈھانچہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی امدادی ایجنسی کے مطابق وہاں کے حالات اب بھی اس قدر ابتر ہیں کہ امداد پہنچانے کی موجودہ سہولتیں ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔
اعلامیے میں نہ صرف اسرائیل کے عسکری حملوں کی مذمت کی گئی بلکہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے کیے گئے حملوں کو بھی انسانی المیہ قرار دیا گیا۔ اس تناظر میں ایک مرحلہ وار جنگ بندی، جس کی ثالثی مصر، قطر اور امریکہ نے کی ہے، فوری طور پر نافذ کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ انسانی جانوں کو مزید ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔
اعلامیہ فلسطینی علاقوں — غزہ اور مغربی کنارے — کو دوبارہ متحد کرنے اور انہیں فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ انتظام لانے کی حمایت کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے حماس کو ہتھیار ڈالنے اور انتظامی اختیارات سے دستبردار ہونے پر آمادہ کیا جانا ہوگا۔ ایک عبوری انتظامی کمیٹی، جو بین الاقوامی حمایت سے بنائی جائے گی، فلسطینی اتھارٹی کے تحت کام کرے گی اور اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں مقامی حکومت اور سلامتی کا نظام سنبھالے گی۔
یہ تجاویز اگرچہ امید افزا ہیں، مگر ان پر عمل درآمد کے لیے بین الاقوامی طاقتوں کی سنجیدگی، اسرائیل کا تعاون، اور فلسطینی دھڑوں کا باہمی اتفاق لازم ہے۔ صرف اعلامیے کافی نہیں، جب تک دنیا کی بڑی طاقتیں — خاص طور پر امریکہ — اس مسئلے کو سیاسی توازن کی بجائے انسانی حقوق کے تناظر میں نہیں دیکھتیں، تب تک دو ریاستی حل ایک خواب ہی رہے گا۔
تاہم، فرانس، مالٹا، برونائی، روس اور دیگر ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلانات ایک عالمی تبدیلی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ یہ بدلتا ہوا عالمی بیانیہ اس امید کو جنم دیتا ہے کہ شاید اب فلسطینی عوام کو وہ حق مل سکے جس کا وہ عشروں سے انتظار کر رہے ہیں: اپنی آزاد، خودمختار ریاست۔
مسئلہ فلسطین کے دیرینہ تنازعے کے حالیہ بین الاقوامی مذاکرات میں سعودی عرب کا کردار قابلِ تحسین اور بصیرت افروز ہے۔ نیویارک میں منعقدہ عالمی کانفرنس، جس کی قیادت سعودی عرب نے فرانس کے ساتھ مل کر کی، محض ایک سفارتی سرگرمی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کی پالیسی میں ایک گہرے اور فیصلہ کن موڑ کی علامت ہے۔
یہ وہی سعودی عرب ہے جو ماضی میں خطے میں پراکسی جنگوں اور جیوپولیٹیکل صف بندیوں میں بری طرح الجھا رہا، خاص طور پر ایران کے ساتھ 1980 کی دہائی سے جاری خفیہ و اعلانیہ سرد جنگ کی شکل اختیار کرتی ہوئی پراکسی کشمکش، جس نے پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلا۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ آج کا سعودی عرب نہ صرف خود کو عالمی سامراجی طاقتوں کی فوجی مداخلتوں سے الگ کر رہا ہے، بلکہ خطے کے اندرونی تنازعات سے بھی بتدریج دور ہو رہا ہے — اور اس میں سب سے نمایاں تبدیلی خود سعودی قیادت میں آئی ہے۔
شاہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب ایک نئے وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کی جدت پسندانہ اور ترقی دوست سوچ نے نہ صرف سعودی عرب کا بین الاقوامی تاثر بدل دیا ہے بلکہ اسے ایک مؤثر سفارتی کھلاڑی اور علاقائی استحکام کے داعی کے طور پر بھی ابھارا ہے۔ وہ ایک ایسے سعودی عرب کی تشکیل میں مصروف ہیں جو تیل سے جڑی معیشت کے بجائے تکنیکی، سیاحتی، اور ثقافتی ترقی پر انحصار کرتا ہے؛ جو عسکری قیادت کے بجائے مکالمے، مصالحت اور سفارتکاری پر یقین رکھتا ہے۔
مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے سعودی کوششوں میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اس حساس معاملے کو محض جذباتی نعرہ بازی سے بلند کر کے ایک حقیقت پسندانہ، عملی اور پائیدار فریم ورک میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ طرزِ فکر ہے جو عشروں سے جاری جمود کو توڑ سکتا ہے۔
اس تناظر میں ایران کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں چین، عمان، روس اور پاکستان جیسے ممالک کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں برف پگھلی ہے، مگر ابھی بھی یہ عمل اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں اسے پہنچنا چاہیے۔ ایران، جس کے رہنما آیت اللہ خامنہ ای نہ صرف ملک کے سب سے بااختیار شخصیت ہیں بلکہ لاکھوں ایرانیوں کے لیے روحانی رہنما بھی، اب ایک نازک مرحلے پر کھڑے ہیں۔ اگر وہ بھی شاہ محمد بن سلمان کی طرح فاختائی، مصالحتی اور امن پسند رویہ اختیار کریں، تو مشرق وسطیٰ میں امن کا ایک نیا باب کھل سکتا ہے۔
ایران اگر “دو ریاستی حل” کے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کرے، تو نہ صرف فلسطینیوں کے لیے راہیں آسان ہو سکتی ہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ جاری کشیدگی میں بھی عملی کمی آ سکتی ہے۔ سعودی عرب نے ایران-اسرائیل تنازعے کے دوران غیر جانب دار اور معتدل رویہ اپنایا، جو بلاشبہ خطے میں ایک بڑے تصادم کو ٹالنے میں مددگار ثابت ہوا۔ لیکن یہ عارضی اقدامات مستقل امن کا متبادل نہیں ہو سکتے، جب تک دونوں فریقین بیک ڈور چینلز کے بجائے کھلے، شفاف اور باوقار مذاکرات کی میز پر نہیں آتے۔
خطے کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک — سعودی عرب اور ایران — نہ صرف ماضی کی تلخیوں کو بھلائیں بلکہ ایک ایسے مشترکہ وژن پر متحد ہوں جس کا مرکز امن، انسانی وقار، اور خطے کے عوام کی خوشحالی ہو۔ اگر ایسا ہو سکا تو نہ صرف مسئلہ فلسطین حل ہونے کے قریب آ جائے گا، بلکہ مشرق وسطیٰ کا منظرنامہ بھی یکسر بدل سکتا ہے۔
خلا کی وسعتوں میں پاکستان کا نیا سنگِ میل
اکتیس جولائی 2025 کو پاکستان نے خلا کی جانب ایک اور کامیاب قدم بڑھاتے ہوئے اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ چین کے شیچانگ لانچ سینٹر سے کامیابی سے مدار میں بھیجا — یہ صرف ایک سائنسی کارنامہ نہیں، بلکہ ایک قومی فخر، تکنیکی خود انحصاری اور پاک-چین اشتراک کی شاندار علامت ہے۔
یہ سیٹلائٹ، جس کی تیاری پاکستان کی قومی خلائی ایجنسی سپارکو نے چین الیکٹرانکس ٹیکنالوجی گروپ اور مائیکروسیٹ چائنا کے تعاون سے کی، پاکستان کی سائنسی و تکنیکی استعداد کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والے ہائی ریزولوشن اور 24/7 ڈیٹا کی بدولت ملک کو زراعت، ماحولیاتی تحفظ، آفات کی پیشگی اطلاع، شہری منصوبہ بندی، پانی کے وسائل کی نگرانی، خوراک کی سلامتی، اور انفراسٹرکچر کی ترقی جیسے کلیدی شعبوں میں بے پناہ فوائد حاصل ہوں گے۔
یہ محض ایک سیٹلائٹ کی لانچنگ نہیں، بلکہ ایک مربوط ارتھ آبزرویشن سسٹم کی بنیاد ہے، جس سے پاکستان نہ صرف علاقائی سطح پر، بلکہ بین الاقوامی منظرنامے پر بھی “اسپیس فیرنگ نیشن” کے طور پر ابھر رہا ہے۔ وزارت خارجہ کے بقول، یہ ایک ایسا سنگ میل ہے جو پاکستان کو ایک زیادہ محفوظ، پائیدار اور خوشحال مستقبل کی طرف لے جانے میں مدد دے گا۔
اس کامیابی پر وزیر اعظم شہباز شریف، صدر آصف علی زرداری، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے سپارکو کی ٹیم، چینی شراکت داروں اور انجینئرز کو دل کی گہرائی سے مبارکباد دی۔ وزیر اعظم نے بجا طور پر اس کارنامے کو “پاکستان اور چین کے باہمی تعاون کی بلندی” قرار دیا جو زمینی سرحدوں سے آگے بڑھ کر اب خلا میں بھی اپنی روشن مثال قائم کر رہا ہے۔
اس سائنسی پیش رفت میں جہاں پاکستانی ماہرین کی مہارت اور محنت شامل ہے، وہیں چین کا دیرینہ تعاون اور اسٹریٹیجک شراکت داری بھی نمایاں ہے۔ سی پیک کے بعد یہ خلا میں پاک-چین اشتراک کا نیا باب ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک صرف زمینی ترقی میں نہیں، بلکہ فلکیاتی مستقبل کی تعمیر میں بھی شراکت دار ہیں۔
وزیر منصوبہ بندی نے اس موقع پر یہ بھی اعلان کیا کہ اگلے سال ایک پاکستانی خلا باز خلا میں بھیجا جائے گا، اور 2035 تک پاکستان اپنے چاند مشن کی کامیابی کے لیے پرعزم ہے۔ یہ ایک ایسا عزم ہے جو صرف ٹیکنالوجی کی ترقی نہیں بلکہ قومی خود اعتمادی اور مستقبل پر یقین کا مظہر ہے۔
سپارکو کے چیئرمین محمد یوسف خان کے مطابق، یہ سیٹلائٹ پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ پاکستان سائنسی ترقی کو محض عسکری یا نمائشی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ شہری سہولیات، ماحول کے تحفظ، اور قدرتی وسائل کے مؤثر استعمال کے لیے بروئے کار لا رہا ہے۔
آخر میں، اس قومی کارنامے پر پوری قوم کو مبارک ہو۔ یہ لمحہ نہ صرف پاکستان کے سائنسی منظرنامے کو نئی جہت دے رہا ہے بلکہ نوجوان نسل کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور تحقیق کی جانب متوجہ کرنے کا زبردست موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ کامیابی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے: اگر عزم، وژن اور تعاون ہو تو خلا بھی ہماری سرحد نہیں۔
پاکستان خلا میں، پاکستان آگے!
قبائلی اضلاع میں امن کے لیے عوامی اتفاق رائے ناگزیر
قبائلی ضلع باجوڑ کے تحصیل لوئ ماموند میں جاری فوجی آپریشن “سربکف” کے خلاف عوامی احتجاج اس حقیقت کا مظہر ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن اور استحکام صرف عسکری ذرائع سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے مقامی عوام کی شمولیت، اعتماد اور قومی سطح پر وسیع تر اتفاقِ رائے ناگزیر ہے۔ بدھ کو عمری چوک پر ہونے والے مظاہرے اور دھرنے میں عوام نے جس انداز میں آواز بلند کی، وہ ریاستی پالیسی سازوں کے لیے ایک سنجیدہ پیغام ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ فتنت الخوارج کی صورت میں شدت پسند عناصر قبائلی علاقوں کے امن، سماجی ہم آہنگی اور قومی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ تاہم، یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ صرف طاقت کے استعمال سے یہ فتنہ ختم نہیں ہو سکتا، خاص طور پر جب اس کی قیمت معصوم شہریوں کی جان، روزمرہ زندگی، اور مقامی اعتماد کی صورت میں چکانی پڑے۔
لوئ ماموند میں جاری آپریشن کے دوران 3 شہریوں کی ہلاکت اور 10 سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات، نیز بغیر پیشگی اطلاع کے کرفیو نافذ کرنا، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپریشن کی حکمت عملی میں انسانی پہلو اور مقامی مشاورت کو نظرانداز کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امن کے خواہاں عوام بھی اس عمل پر سوالات اٹھا رہے ہیں، حالانکہ وہ خود شدت پسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
ریاست کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ قبائلی عوام کوئی بیرونی تماشائی نہیں بلکہ براہِ راست متاثر فریق ہیں۔ جب تک انہیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا، ان کے تحفظات دور نہیں کیے جاتے، اور انہیں فیصلوں کا حصہ نہیں بنایا جاتا، تب تک نہ کوئی آپریشن پائیدار ہوگا، نہ امن دیرپا۔ اسی لیے مقامی جرگے اور سیاسی قیادت کے ساتھ مشاورت سے آپریشن کا مؤخر کیا جانا اور دن کے اوقات میں کرفیو میں نرمی جیسے فیصلے خوش آئند ہیں، مگر یہ دیر سے اٹھایا گیا قدم ہے۔
اس سے بھی اہم پہلو یہ ہے کہ سابق ارکانِ اسمبلی، سیاسی قائدین، اور سماجی کارکنان جنہوں نے مظاہرے میں شرکت کی، کسی شدت پسندی کی حمایت نہیں کر رہے تھے، بلکہ وہ ریاست سے ایک بہتر، غیر عسکری اور شراکتی حکمتِ عملی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اُن کی تجویز کہ دونوں فریقین — ریاستی ادارے اور عسکریت پسند — کو قرآن کی موجودگی میں مصالحت کے لیے آمادہ کیا جائے، ایک جذباتی اپیل ہے، مگر اس میں وہ درد پوشیدہ ہے جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے کی تباہ کاریوں سے جنم لیا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ریاست اپنی پالیسی کو محض عسکری ردعمل تک محدود نہ رکھے بلکہ ایک مربوط، سیاسی، سماجی اور ترقیاتی حکمتِ عملی اپنائے۔ اگر سیکیورٹی فورسز کو مقامی لوگوں کی مکمل اخلاقی، سماجی اور سیاسی حمایت حاصل ہو، تو نہ صرف فتنت الخوارج کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے بلکہ قبائلی اضلاع کو ایک حقیقی قومی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
آخر میں، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ قبائلی عوام پاکستان کے اتنے ہی وفادار شہری ہیں جتنے ملک کے کسی اور خطے کے۔ ان کی شراکت کے بغیر امن محض ایک سرکاری دعویٰ رہے گا — اور امن، کسی بھی ریاست کے لیے دعویٰ نہیں، ذمہ داری ہوتا ہے۔
اعداد و شمار سے آگے کا سوال — ،معاشی سمت واضح کیجیے
جولائی 2025 کی ماہانہ اقتصادی جائزہ رپورٹ، جو نئے مالی سال کا پہلا جائزہ ہے، نہ صرف اعداد و شمار کے لحاظ سے متضاد ہے بلکہ کئی اہم سوالات کو بھی جنم دیتی ہے، جو براہ راست عوام کے مفاد سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان تضادات اور ابہامات کے ہوتے ہوئے یہ سوال اب شدت سے ابھرتا ہے کہ کیا حکومت خود بھی معیشت کی اصل تصویر دیکھنا اور دکھانا چاہتی ہے، یا محض عددی خوش فہمی میں مبتلا ہے؟
رپورٹ کے مطابق مالی خسارہ کبھی 3.1 فیصد بتایا جاتا ہے اور اگلے ہی صفحے پر 3.7 فیصد۔ یہ 0.6 فیصد کا فرق محض تکنیکی خطا نہیں بلکہ اس کا براہ راست اثر مہنگائی کے سرکاری تخمینوں، قرضوں کی پالیسی، اور سب سے بڑھ کر عوامی اعتماد پر پڑتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معیشت کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے اور پتوار سنبھالنے والے ایک ہی کمپاس پر متفق نہیں۔
رپورٹ کے مطابق پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (PSDP) کے اخراجات 44 فیصد بڑھے، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ حکومت نے 1400 ارب روپے مختص کیے، بعد میں اسے 1100 ارب تک محدود کیا، اور جون 2025 تک صرف 662 ارب روپے جاری کیے گئے۔ گویا 38 فیصد سے زائد رقم اب بھی غیر واضح ہے — کیا یہ بچت ہے یا کہیں اور خرچ ہو گئی؟ اور اگر بچت ہے تو اس کا عوامی مفاد میں استعمال کیوں نہیں دکھایا گیا؟
یہ شفافیت کا سوال ہے، اور جب تک وزارتِ خزانہ یہ وضاحت نہیں دیتی کہ باقی 440 ارب روپے کہاں گئے، اعتماد کی فضا بحال نہیں ہو سکتی۔
بڑی صنعتوں کی پیداوار (LSM) میں بہتری ظاہر کی گئی ہے — جولائی سے مئی 2024 میں 0.86 فیصد مثبت رجحان — مگر رپورٹ خود بتاتی ہے کہ اس کا تعلق اصل پیداوار سے نہیں بلکہ اسٹاک گھٹنے یا صارفین کی طلب بڑھنے سے ہے۔ اگر طلب وقتی بڑھی ہے یا ذخائر کم ہو رہے ہیں تو یہ معیشت کی مضبوطی کی علامت نہیں بلکہ اس کا استحصال ہے۔
رپورٹ میں ترسیلات زر اور زرمبادلہ کے ذخائر کو مثبت پیش رفت کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ بلاشبہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا کردار قابلِ فخر ہے، لیکن جب اس میں غیر واضح ذرائع، جیسے نان فائلرز کی ممکنہ شمولیت کی قیاس آرائی سامنے آئے، تو سوالات جنم لیتے ہیں۔ اسی طرح 14.5 ارب ڈالر کے ذخائر اگر قرضوں کے رول اوور سے قائم ہیں تو یہ خود کفالت نہیں بلکہ وقتی سہارا ہے۔
نان ٹیکس آمدنی میں 62 فیصد اضافے کی خوشخبری سنائی گئی، مگر اس میں 1,161 ارب روپے صرف پٹرولیم لیوی سے حاصل کیے گئے — ایک ایسا بالواسطہ ٹیکس جو امیر اور غریب میں فرق نہیں کرتا، لیکن اثر سب سے زیادہ غریب پر ڈالتا ہے۔ اس کے اثرات روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر براہِ راست محسوس کیے جاتے ہیں۔
عوام اس وقت ہوش مند اور شدید متاثر ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ترقیاتی بجٹ حقیقت میں زمین پر خرچ نہیں ہو رہا، اگر صنعتی پیداوار محض اسٹاک ختم ہونے کا عکس ہے، اگر زرمبادلہ کے ذخائر قرضوں سے جڑے ہیں، اور اگر مہنگائی کا بوجھ پٹرولیم لیوی کے ذریعے ان پر منتقل ہو رہا ہے — تو پھر سرکاری بیانات عوامی ریلیف نہیں، بلکہ خودفریبی کے مترادف ہیں۔
ہم حکومتِ وقت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ نہ صرف اعداد و شمار کو درست اور ہم آہنگ بنائے بلکہ پالیسی سازی میں دیانت داری اور حقیقت پسندی کو بنیاد بنائے۔ معیشت محض پریزنٹیشن سے نہیں چلتی، بلکہ اس کے اثرات اشیاء کی قیمتوں، روزگار، اور بنیادی سہولیات کی دستیابی میں نظر آنے چاہئیں۔
ورنہ، عوام کا اعتماد بحال ہونے کے بجائے مزید متزلزل ہو گا — اور یہی کسی بھی حکومت کے لیے سب سے مہنگی “قیمت” ہوتی ہے۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ حکومت کی جانب سے اقتصادی پالیسیوں کی بنیاد ایسے اعداد و شمار پر رکھی جا رہی ہے جو خود اندرونی تضادات کا شکار ہیں۔ جب بجٹ خسارے، ترقیاتی اخراجات اور صنعتی پیداوار جیسے بنیادی اشاریے ہی غیر واضح یا متنازع ہوں تو پالیسی سازی کی سمت خود بخود مشتبہ ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں نہ صرف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے بلکہ نجی سرمایہ کاری بھی غیر یقینی کیفیت کا شکار ہو جاتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں معیشت پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور قرضوں کے بوجھ سے دوچار ہے، وہاں پالیسیوں میں شفافیت اور ڈیٹا کی درستگی کسی عیاشی کا نہیں بلکہ بقاء کا سوال ہے۔
اس تمام پس منظر میں سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ حکومت اپنی اقتصادی ٹیم کی کارکردگی کا غیرجانبدارانہ جائزہ لے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزارتِ خزانہ، منصوبہ بندی کمیشن، اور شماریاتی اداروں کے درمیان مکمل ربط اور معروضی تجزیہ یقینی بنایا جائے تاکہ پالیسی فیصلے ایک متحد اور درست فریم ورک کے تحت کیے جا سکیں۔ بصورتِ دیگر، معیشت کاغذی ترقی کا شکار رہے گی جبکہ زمین پر عوام مہنگائی، بیروزگاری اور بداعتمادی کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو عوام کے روزمرہ مسائل کے آئینے میں پرکھے — کیونکہ اگر معیشت عوام کو سہارا نہیں دے سکتی تو اعداد و شمار کی خوبصورتی کسی کام کی نہیں۔