آج کی تاریخ

مریم نواز شریف: پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ

مریم نواز شریف: پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ

فروری 26 سن 2024ء پنجاب کی سیاست میں اہم تاریخی دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا- اس دن نومنتخب پنجاب اسمبلی نے چیف منسٹر کے طور پر پہلی خاتون مریم نواز شریف کا انتخاب کیا- انھیں 220 ووٹ ملے۔ اس موقعہ پر پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت سنّی اتحاد کونسل / پاکستان تحریک انصاف نے چیف منسٹر کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور اپنے امیدوار رانا آفتاب حسن ایڈوکیٹ کے ساتھ ایوان سے چلے گئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں سنّی اتحاد کونسل / پی ٹی آئی کو میدان میں مقابلہ کرنا چاہئیے تھا اس سے میاوسی مں گھرے پنجاب کے عام ووٹر کو حوصلہ دیا جاسکتا تھا- محاذ آرائی برائے محاذ آرائی کی سیاست سے کچھ حاصل نہیں ہوگا-پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی پہلی خاتون چیف منسٹر بننے پر ان کا خیر مقدم اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا جانا بنتا ہے۔ انھوں نے چیف منسٹر بننے کے فوری بعد جو تقریر کی وہ مجموعی طور پر متاثر کن اور افہام و تفہیم کا رنگ لیے ہوئے تھے۔ انھوں نے جب یہ کہا کہ انہیں اس بات پر ملال ہے کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے معزز اراکین موجود نہیں ہیں – ان کی خواہش تھی کہ وہ سیاسی و جمہوری عمل کا حصّہ بنتے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے من میں بدلہ لینے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ وہ انہیں کال کوٹھڑی میں بند کرنے والوں، عدالتوں کے چکر لگوانے والوں، میرے والد کو قید کرنے والوں اور میری ماں کی پردیس میں موت کا سبب بننے والوں سے انتقام نہ لینے کا اعلان کر رہی تھیں- پنجاب کی منتخب خاتون چیف منسٹر مریم نواز شریف کی جانب سے انتقام نہ لینے اور تلخیوں کو پس پشت ڈالنے کا عزم قابل تحسین ہے اور اس پر وہ سراہے جانے کی مستحق ہیں- ان کا یہ اعلان اپوزیشن کے لیے صلح کا پیغام بھی ہے۔ اسے اس پیشکش کو سنجیدہ لیکر جواب میں خیرسگالی کا پیغام دینا چاہئیے۔ قابل احترام چیف منسٹر پنجاب مریم نواز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں پنجاب بھر کی خواتین کو پیغام دیا ہے کہ ان کا صوبے کا چیف منسٹر بننا ہر ایک ماں، بہن اور بیٹی کے لیے قابل فخر بات ہے اور انھوں نے اس پروسس کو جاری رہنے اور زیادہ سے زیادہ خواتین کو لیڈر آف دا ہاؤس بننے کے لیے دعائيں بھی کیں-چیف منسٹر پنجاب مریم نواز شریف نے اپنی تقریر میں رمضان پیکج کا اعلان کیا جس کے تحت 70 لاکھ روپے کی اشیائے ضرورت مستحق گھرانوں کے دروازے تک پہنچائی جائے گی- انھوں نے کہا کہ ‘صوبے میں عورتوں کا تحفظ ان کی پہلی ترجیح ہوگی اور اس کے لیے عورتوں کے ایک ہیلپ لائن جاری کی جا رہی ہے۔ آنے والے 12 ہفتوں میں پہاڑی اور دور دراز علاقے جہاں تک زمینی راستوں تک رسائی نہیں ہے ائر ایمبولنس کا آغاز وہاں کے مریضوں کو قریب ترین ہسپتالوں تک پہنچانے کے لیے ہوگا۔۔۔انھوں نے صوبے بھر میں کام کی جگہوں پر عورتوں کے الگ سے واش رومز، بے بی کئیر سنٹرز وغیرہ کی سہولت بھی فراہم کرنے کا اعلان کیا-صوبے کی پہلی خاتون چیف منسٹر کی جانب سے صوبہ بھر کی عورتوں کی حفاظت اور فلاح و بہبہود کے لیے ظاہر کیے جانے والے عزم کو سراہا نہ جانا زیادتی ہوگی لیکن یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ جو اعلانات انھوں نے کیے کیا وہ پنجاب کی معاشی، سیاسی اور سماجی مخصوص صورت خال کے مطابق ہیں یا اس سے اگے بڑھ کر کچھ کیا جانے کی ضرورت ہے؟اس وقت صوبہ پنجاب کا مالیاتی لحاظ سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے اس کے مالیاتی وسائل کا سب سے بڑا حصّہ وفاق کے صوبوں کے لیے تقسیم ہونے والے وسائل سے آتا ہے اور یہ صوبے کی کل آمدنی کا 81 فیصد بنتا ہے۔ جبکہ پنجاب وفاق سے 2 فیصد گرانٹس اور قرضے لیتا ہے جو مل کر 83 فیصد بن جاتا ہے۔ جبکہ کل صوبائی آمدنی میں صوبے کا اپنا حصّہ 17 فیصد ہے۔ اس سے صاف پتا چلتا کہ پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے سب سے ـرا صوبہ ہے وہاں اب تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں انھوں نے صوبے کی اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے کچھ زیادہ کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ ایک طرف تو صوبہ پنجاب کو اپنی آمدن بڑھانے کا چیلنج درپیش ہے تو دوسری جانب اس کے سامنے بڑھتا ہوا قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کا چیلنج کھڑا ہوا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق مارچ 31 تا جون 30 مالیاتی سال 2023-25 میں پنجاب پر مجموعی قرضوں کا حجم 17 کھرب 75 کروڑ روپے ہوگیا جو جنوری تا مارچ میں 16 کھرب 52 ارب روپے تھا- یہ قرضہ پنجاب کےٹوٹل جی آیس ڈی پی کا 3ء72 فیصد بنتا ہے۔ ابھی تک ہمیں اگلی دو سہ ماہی میں پنجاب کے کل قرضے بارے اعداد و شمار میسر نہیں ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ ان میں مزید اضافہ ہی ہوا ہوگا کیونکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب حکومت نے کمرشل بینکوں سے قرضے حاصل کرنے پر انحصار بڑھایا ہے- اس کی وجہ وفاقی حکومت کو بجٹ 2023-24 میں بیرونی کمرشل بینکوں اور سکوک بانڈز سے جو 16 ارب ڈالر اکٹھا کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا اس میں سے ایک سینٹ بھی نہیں آیا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے ترقیاتی بجٹ میں بھی بڑا کٹ لگایا ہے۔ ایسی صورت حال میں جب وفاق کی اپنی مالیاتی حالت پتلی ہے تو پنجاب جس کا انحصار 81 فیصد قابل تقسیم آمدنی اور 2 فیصد وفاقی گرانٹس و قرضوں پر ہے تو اسے وفاق سے بھی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑے گا- یاد رہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے پنجاب وفاق کی جانب ملنے والی جس متوقع رقم کا ہدف بجٹ دستاویز میں رکھتا رہا ہس اس سے اوسط تیرہ فیصد کم ملا اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ صوبہ پنجاب اپنے وسائل و آمدن پر انحصار رکھنے کے ہدف سے کس قدر دور ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز شریف اس ہدف کو کیسے حاصل کریں گی؟ پنجاب میں 2018ء سے اب تک جتنی بھی صوبائی حکومتیں آئیں بشمول نگران سیٹ اپ ان کی بنائی ہوئی معاشی ٹیموں نے پنجاب کے میکرو اکنامک اشاریوں بارے جو بھی پیشن گویاں کیں وہ بوجہ درست ثابت نہ ہوئیں – 2022-23 کے مالیاتی سال میں 2023-24 کے مالیاتی سال کے لیے جی ایس ڈی پی کی شرح نمو 5 فیصد سے زائد کی گئی تھی لیکن یہ سراسر غلط نکلی اور شرح نمو بمشکل 2 فیصد رہی – ایسے ہی جنرل انفلیشن/ عام شرح مہنگائی 5 فیصد رہنے کی توقع کی گئی تھی لیکن یہ اب تک 28 فیصد سے زیادہ ہے اور فوڈ انفلیشن / خوراک میں مہنگائی کی شرح 40 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے۔ مریم نواز شریف کے سامنے یہ چیلنج ہوگا کیا وہ پنجاب کی معشیت کی شرح نمو کیا 5 فیصد تک بھی لیجاسکیں گی؟ کیا وہ فوڈ و عام مہنگائی کی شرح کو سنگل ڈیجٹ پر لا پائیں گی؟ پنجاب کی آبادی کی فی کس آمدنی کا تناسب کیا ہے؟ پنجاب میں کل آبادی کا 70 فیصد روزانہ 1000 سے 1200 روپے کما پاتا ہے۔ جبکہ 25 فیصد روزانہ 700 سے 1000 روپے کماتا ہے اور 5 فیصد ایسا ہے جو روزانہ 500 سے 700 روپے کما پاتا ہے۔ یہ اعداد وشمار کسی بھی لحاظ سے تسلی بخش نہیں ہیں – پنجاب میں بے روزگاری اور غربت تعداد میں سب سے زیادہ ہے۔ غربت اور بے روزگاری میں نظر آنے والی تعداد میں کمی مریم نواز شریف کے لیے بطور چیف منسٹر ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگی اور کیا وہ اس چیلنج سے احسن طریقے سے نبرد آزما ہو پائیں گی؟ اس سوال کا جواب ان کی حکومت کی آنے والے دنوں میں کارکردگی سے پتا چل جائے گا۔مریم نواز شریف کے لیے بطور چیف منسٹر سب سے قابل اطمینان بات یہ ہے کہ وفاق میں ان کی جماعت اتحادی حکومت کی قیادت کررہی ہے اور ملک کے انتظامی سربراہ ان کے اپنے چچا میاں محمد شہباز شریف بننے والے ہیں اور وفاقی وزیر خزانہ بھی لامحالہ ان کی اپنی جماعت سے آئے گا جس کی وہ مرکزی چیف آرگنائزر ہیں تو انہیں کم از کم وفاق سے محاذ آرائی کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ لیکن وفاق کی صورت حال معشیت کے اعتبار سے ان کے لیے سازگار نہیں ہے۔ کیونکہ آنے والی حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج آئی ایم ایف سے نئے معاہدے کی منظوری ہے جس میں وہ آئی ایم ایف سے 8 ارب ڈالر کی منظوری کے لیے سرگرداں ہے اور یہ معاملہ اپریل 2024ء میں کہیں جاکر کلئیر ہوگا- اس دوران وفاقی حکومت غیرملکی کمرشل زرایع سے مطلوبہ قرض نہ ملنے کے سبب مقامی بینکوں سے بھاری قرضے لیکر کاروبار حکومت چلانے میں مصروف ہے۔ سٹیٹ بینک پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مرکزی حکومت جولائی 1،2023 تا 9 فروری 2024ء تک مقامی کمرشل بینکوں سے 4 کھرب روپے کا قرضہ لے چکی ہے۔ اگر ہم سٹیٹ بینک سے لیے گئے قڑضوے اور صوبوں کی جانب سے لیے کئے گئے قرضوں کی جلد واپسی بھی فرض کرلیں تو باقی ماندہ قرضہ جس سے وفاقی حکومت اپنے بجٹ کے خرچے چلا رہی ہے وہ پھر بھی 3 کھرب روپے بنتے ہیں۔ نئی حکومت بھی کمرشل بینکوں سے قرض اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھے گی اور امکان یہ ہے مالیاتی سال کے آحر تک کمرشل بنیکوں سے اٹھائے کئے قرضوں کا حجم 4 کھرب سے بڑھ کر 5 کھرب تک پہنج سکتا ہے۔ ایسے میں وفاقی حکومت صوبوں کی کتنی مدد کرپا‏ئے گی؟ مریم نواز شریف کے سامنے یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ صوبے کے مالیاتی وسائل کے لیے وفاق پر مجموعی انحصار جو کل ملا کر 83 فیصد بنتا ہے اسے صوبے کی آمدنی بڑھاکر کم کریں اور وفاق سے جس کٹوتی کے خطرات ہیں انہیں صوبہ اپنے وسائل پیدا کرکے پورا کرنے کی پوزیشن میں آئے۔ یہان پر دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا مریم نواز شریف اپنی کورننس کا انداز اپنے چچا میاں شہباز شریف کی گورننس کی پیروی کرکے بنائیں گی یا اس سے ہٹ کر دوسرا کوئی اور انداز اپنائیں گی؟ کیونکہ میاں شہباز شریف کے گورننس ماڈل پر سب سے بڑی تنقید یہ کی جاتی ہے کہ انہوں نے صوبے کے بہت سارے وسائل و دولت ایسی سبسڈی منصوبوں پر خرچ کردیں جنھوں نے پنجاب کے نہ تو عام آدمی کو فائدہ پہنچایا اور نہ ہی ان سے صوبے میں دولت کی پیدائش میں اضافہ ہوا- ماہرین معشیت کا خیال ہے کہ میٹرو بس لائنیں، اورنج ٹرین ، سپیڈو بس سروس اسکیم جیسے منصوبوں میں دی جانے والی سبسڈیز پنجاب کے حزانے پر بدترین بوجھ بن چکی ہیں- سستی روٹی اسکیم اور سبسڈائزڈ آٹا سکیم بھی مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ اس وقت نا‍قادین یہ بھی کہہ رہے کہ پنجاب بھر کے میٹرو شہروں میں قائم واٹر اینڈ سیوریج ایجنسیز / واسا اور ویسٹ منیجمنٹ کمپنیاں بھی صوبے کی مالیات پر زبردست بوجھ بن چکی ہیں جبکہ میونسپل کمیٹیوں اور میونسپل کارپوریشنوں کی مالیاتی حالت استحکام سے کوسوں دور ہے۔ کیا مریم نواز شریف بطور چیف منسٹر پنجاب اپنے پیش رو چیف منسٹرز سے ہٹ کر گورننس کا ایسا سسٹم لا پائيں گی جو صوبے کو مالیاتی خودمختاری اور پنجاب کی عوام کو خوشحالی کے راستے پر لیجاسکے؟
بڑے سرمایہ دار کی پانچوں گھی میں
پاکستان میں کارپوریٹ سیکٹر پر جب کبھی حکومت ‘سپر ٹیکس لگانے کی نیت کرتی ہے تو طاقتور کارپوریٹ سیکٹر کی لابی ایسے کسی بھی اقدام کے آڑے آجاتی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کی کمپنیوں کے لیے لابنگ کرنے والے کارپوریٹ سیکٹر کی مشکلات کا زکر کرنے لگتے ہیں جن میں عام طور پر مینوفیکجرنگ یونٹوں کے شٹ ڈاؤن، قیمتوں میں جڑھاؤ کے سبب پروڈکٹس کے فروخت کے حجم میں کمی جیسے عوامل کا بڑے زور و شور سے تذکرہ کیا جاتا ہے اور اس سے آگے سرمایہ داروں کے ملک سے چلے جانے کے خطرے کا بڑا زور و شور سے زکر ہونے لگتا ہے – لیکن جب کارپوریٹ سیکٹر کے گروپ اپنے سالانہ مالیاتی بیلنس شیٹ کا اعلان کرتے ہیں تو صورت حال اور ہی رخ دکھاتی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال انڈس موٹرز کی بیلنس شیٹ نے دکھائی ہے- اس شیٹ کے مطابق انڈس موٹرز نے مالیاتی سال 2024ء کے دوسرے چار ماہی دورانیہ میں پہلے چار ماہی دورانیہ میں ہونے والے منافع سے 31 فیصد زیادہ منافع کمایا اور اپنے شئیر ہولڈرز میں اس چار ماہی دورانیہ میں 60 فیصد زیادہ منافع تقسیم کیا- انڈس موٹرز کمپنی نے اس دوران پاکستان کی سماجی درجہ بندی میں اپنی کاروں کی فروخت میں اضافے کے لیے نئی پرتوں پر فوکس کرنے کی کوشش بھی نہیں کی- اس نے مارکیٹ میں نسبتا سستی گاڑی لانے کی طرف بھی توجہ نہیں کی-میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈس موٹرز کمپنی کی طرف سے کاروں کی اسمبلنگ کے دوران فی یونٹ لاگت میں میں مالیاتی سال 2023-24 کی دوسری چار ماہی میں اٹھارہ فیصد کمی آئی جبکہ اس فی یونٹ کار کی فروخت میں آمدنی کے اندر 29 فیصد اضافہ ہوا- انڈس موٹرز کمپنی نے نومبر 2023 تا فروری 2024ء یعنی چار ماہ میں ٹیکسز کی ادائیگی کے بعد خالص ایک ارب 70 کروڑ روپے منافع کمایا- یہ منافع کمپنی نے اس کے باوجود کمایا کہ اس نے گزشتہ سال سے بھی کم کاریں تیار کیں ہیں- گزشتہ سال اس کا دو فیصد بڑھا تھا اس سال یہ 7 فیصد بڑھا ہے۔ یہ سب اس کے باوجود ہوا ہے کہ اس وقت افراط زر کے سبب درمیانہ طبقہ بری طرح سے متاثر ہے اور حکومت نے اپنے قرضوں کو آئی ایم ایف کی حدود میں رکھنے کے لیے سارا بوجھ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرکے درمیانے اور سفید پوس طبقے پر ڈال دیا ہے۔ سٹیٹ بینک کی ہدایات کے مطابق اب جو بینکوں کی طرف کار لیزنگ کی شرائط ہیں وہ اتنی سخت ہیں کہ درمیانے طبقے کی طرف سے لیزنگ پر کار کی خریداری بینک سے ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن حکومت کارپوریٹ سیکٹر پر ‘سپر ٹیکس’ جیسے دائریکٹ ٹیکسز لگانے کی اب بھی ہمت نہیں کر پارہی اور سارا نزلہ درمیانے اور غریب طبقے پر گرایا جارہا ہے ۔

شیئر کریں

:مزید خبریں