آج کی تاریخ

عروس البلاد میں چند روز

مرض نفسیاتی یا مسئلہ نظریاتی

ضرب قلم (عبدالحنان راجہ)

یہ حسن اتفاق تھا یا ذلت مقدر تھی، کہ اگر تلہ کیس کے مرکزی کردار موجودہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب کی بیٹی 54 سال بعد فرار ہو کے پہنچیں، تو پہنچیں کہاں، کہ جہاں کا خمیر تھا. اور اب بنگلہ دیشی عوام فسطائی اور بھارت نواز حکومت کی باقیات سے دیش کو پاک کر رہے ہیں. شیخ مجیب، ان کی بیٹی حسینہ واجد اور اجماعت عوامی نفرت کی زد میں، اس سے ہمارے سیاست دانوں کو بھی سبق لینا چاہیے کہ اگر صراط مستقیم اور نظریات معتدل نہ ہوں تو عوامی مقبولیت بھی ذلت و رسوائی سے نہیں بچا سکتی. مگر افسوس کہ چند ہی روز قبل ایک بڑی سیاسی جماعت کے بانی نے شیخ مجیب کو آئیڈیل قرار اور موجودہ حالات کا تقابل اس دور سے کر کے ایسا فاؤل کھیلا کہ جس کے لیے اقبال کی نصیحت اگر وہ اور انکے کارکنان اس پر عمل کر سکیں. ” سینہ را کارگاہ کینہ مساز، سرکہ در آنگبین خویش مریز. (سینہ کو کینہ کا گھر مت بنا، اور شہد کو سرکہ میں مت انڈیل)طاقت عفو در تو نیست اگر، خیز و با دشمناں در آبہ ستیز. (اگر تجھ میں معاف کرنے کی ہمت نہیں، تو اٹھ اور اپنے دشمنوں سے لڑ)” پھر ایک روز اچانک غیر ملکی ادارے سے گفتگو میں یہ کہہ کر کہ” وہ امریکہ کے خلاف کوئی تعصب نہیں رکھتے بلکہ اس سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں ” ایک پل میں گزشتہ ڈیڑھ سال کا بیانیہ زمیں بوس کر دیا. جیل میں بیٹھے کپتان نے یہ بھی نہ سوچا کہ ابھی تو انکے کھلاڑیوں کی گاڑیوں پر Abosolutly Not اور “ھم کوئی غلام ہیں” کی سیاہی بھی نہیں اتری. اس کی پرواہ کئے بغیر ہی انہوں نے امریکہ کے لیے نیک خواہشات کا پیغام دے ڈالا. پھر ایک روز تو کھلاڑیوں کے سر پر ہتھوڑا گرا کہ جب ان کے قائد نے اپنے معروف بیانیہ کو دھبڑ دھوس کرتے ہوئے براہ راست فوج سے مذاکرات کی پیشکش کر ڈالی. گو کہ اسے پی ٹی آئی کے فہم و فراست اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں نے دبے لفظوں سراہا مگر انتہا پسند کارکنان سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور سوشل میڈیا پر اس کی توجہات، تشریحات و تعبیرات پیش کرنے میں مصروف ہو گئے. یہ گرد ابھی بیٹھی نہ تھی کہ 9 مئی کے اسیر اور نامزد کارکنان پر ایسی بجلی گرائی کہ وہ ابھی تک نڈھال. کہ 9 مئی واقعات پر مشروط معافی کی پیشکش اور ملوث افراد کے خلاف کاروائی. اگرچہ یہ کہہ کر بظاہر انہوں نے ان سے خود کو الگ کرنے کی کوشش کی. یہ بات اگرچہ کارکنان پر برق بن کر ہی گری مگر آفرین کہ کارکنان اسے بھی دیوانے کی بڑ جان کر خاموش اور اب اگلے حکم کے منتظر. 9 مئی کے واقعہ سے پی ٹی آئی بھی اس طرح انکاری ہے جیسے سپریم کورٹ پر حملہ سے مسلم لیگ (ن). ویڈیوز، اشتعال انگیز تقاریر، واٹس آپ پیغامات کے بیسیوں ثبوتوں کے باوجود اس سے انکار زیبا نہیں. پے در پے بدلتے بیانات و نظریات، مرض نفسیاتی ہے یا مسئلہ نظریاتی. کہ شیخ مجیب جیسے کردار کو ہیرو قرار دیکر تو بانی پی ٹی آئی نے حد ہی کر دی تھی یہ تو شکر خدا کا آپ ہی اپنے دام میں صیاد ا گیا وگرنہ خدا جانے یہ سلسلہ جنبائی کتنا عرصہ اور چلتا. شیخ مجیب کی پروردہ مکتی باہنی کے مظالم کشمیر میں بھارتی بربریت، فلسطین میں اسرائیلی جارحیت اور کراچی میں الطاف حسین کی جماعت کے تشدد کی یادیں تازہ کرتے ہیں. حسینہ واجد بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلیں اور جمہوری نظام میں رہ کر فسطائیت کی تاریخ رقم کی. سیاسی مخالفین کو نشان عبرت بنانا انکا پسندیدہ مشغلہ رہا. پھر قدرت کا خودکار نظام حرکت میں آیا اور حسینہ آخر کار انجام کو پہنچیں. مگر سوال یہ کہ بیانیہ میں ایسی تبدیلی کیونکر آئی، پرجوش اور تبدیلی پسند نوجوانوں کو کیسے استعمال کیا گیا. یہ سوال، جواب طلب بھی ہے اور حل طلب بھی. جواب پی ٹی آئی قیادت نے دینا ہے اور حل ریاست نے کرنا ہے تا کہ ملک کو مزید فکری و نظریاتی انتشار سے بچایا اور اسے مستحکم بنیادوں پر آگے چلایا جا سکے. میری دانست میں یوم آزادی کے موقع پر تمام قیادتوں بشمول کپتان کی مثبت صلاحیتوں کو بروئے کار اور ماضی کی کوتاہیوں کو نظر انداز کر کے ہی از سر نو مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکتی ہےمگر اس کے لیے کشادہ ظرفی اور اخلاص واجب. کیونکہ دشمن نے تقسیم در تقسیم کے فارمولہ پر عمل پیرا اور تمام بڑی طاقتیں بالخصوص اسرائیل، امریکہ، بھارت وغیرہ اب براہ راست طاقت کے استعمال کی بجائے ففتھ جنریشن وار کے طریق پر عمل پیرا ہیں خصوصاً پاکستان میں. آزادی اور شعور کے نام پر عوام کو بہلایا اور پھسلایا جا رہا ہے. ریاست مخالف تقاریر بیانات اور پوسٹیں بھی اسی مہم کا حصہ. لیبیا و عراق کی تباہی کو دیکھ کر ہماری نوجوان نسل کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے. خداںخواستہ اگر دفاعی حصار اور نظریاتی حکمت عملی مضبوط نہ ہو تو ملک تقسیم. گزشتہ ایک سال سے پاکستان کے حالات اسی نہج پر ہیں. قیادت کوہتاہ نظری اور اس کی نظریاتی بالیدگی کا نہ ہونا حادثات سے تو دوچار کرا سکتا ہے منزل تک پہنچا نہیں سکتا. مسلم معاشروں کو انتشار کا شکار کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں نے تمام تر وسائل اور شیطانی دماغ جھونک رکھے ہیں اور غیر محسوس طریقے سے کہیں نوجوانوں کو اسلام تو کہیں ریاست مخالفت کے لیے استعمال کر رہے ہیں.یاد رکھیے ہر وہ تحریک سیاسی ہو یا مذہبی کہ جس کی اٹھان جھوٹ، تعصب اور انتشار پر ہو مذموم، یہی تو وجہ رہی کہ شیخ مجیب اور اس جیسے کبھی بھی معتدل، محب وطن اور پختہ سیاسی نظریات رکھنے والوں کے آئیڈل نہیں رہے. قائد اعظم کے رول ماڈل ہونے کی وجہ ہی یہی ہے کہ انگریز کے خلاف بھی جدوجہد میں انہوں نے کبھی تشدد راستہ اختیار کیا اور نہ تعصب اور جھوٹ کا سہارا لیا. آزادی کی جنگ انہوں نے سچائی، اور دلیل سے لڑی اور آزادی کے بعد قوم کو ایمان، اتحاد اور تنظیم کا درس بھی اسی لیے دیا کہ یہی بقا کا ضامن ہے اور 14 اگست کا پیغام بھی.

شیئر کریں

:مزید خبریں