خواہ پنجاب پولیس کا یوم شہدا ہی کیوں نہ ہو، آفیسر اور ماتحت شہدا کے ورثا کے مابین اتنا فاصلہ تو بعد از شہادت بھی ہونا چاہئے۔ علاوہ ازیں افسران کے لئے پرسہ بھی ساری برادری سے دینا تو بنتا ہی نہیں، بس اتنا کافی ہے کہ شہدا کے ورثا میں سے دو چار رحیم یار خان کے ضلعی پولیس سربراہ عرفان سموں کے قریب آ جائیں اور اپنے شہدا کا پرسہ لے لیں۔ ویسے بھی جس ملک میں سینکڑوں میل دور شروع ہونے والے منصوبوں کی افتتاحی تقریب ایوان صدر یا ایوان وزیراعظم میں ہونے کا رواج ہو تو وہاں بنتا تو یہ تھا کہ پرسہ لینے کیلئے از خود شہداکے ورثا ڈی پی او آفس جاتے۔ یہ بھی کمال مہربانی ہے کہ عرفان سموں خود چل کر ڈاکوئوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے پانچ پولیس ملازمین کے ورثا اور اہل خانہ تک گئے۔ کچے کے ڈاکوں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے پانچ پولیس اہلکاروں کو کچے میں ڈیوٹی کیلئے جو سہولیات حاصل ہیںوہ تو دنیا بھر نے دیکھ ہی لی ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ حکام کو پنجاب کےعوام کا سوال تو بنتا ہے کہ اربوں روپے کا ہر سال جاری ہونے والا’’کچا آپریشن فنڈ‘‘ آخر کس کھاتے میں اورکہاں جاتا ہے اور کب تک بے آسرا، نہتے پولیس کے جوان کھلے آسمان تلے موت کے منہ میں جاتے رہیں گے۔
