روداد زندگی (ڈاکٹر ظفر چوہدری)
میرا خیال تھا کہ میں روداد زندگی کو اپنے ذاتی واقعات اور حالات لکھنے تک محدود رکھوں جس میں اس وقت کے معاشرتی ، سیاسی اور ثقافتی اقدا ر کو بھی بیان کروں مگر کیا کروں کہ ’’ ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے‘‘ کی و جہ سے موضوع سے ہٹ جاتا ہوں جب میں نے ایک دوست سے اس مسئلہ کا ذکر کیاتو اس نے کہا کہ ظفر بھائی آپ کی روداد کونسی افلاطون کی روداد ہے پھر اگر کچھ لکھنا ہے تو پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن ثانی کے ظہور کے بارے میں لکھو۔ مجھے دوست کی بات پر ہنسی آگئی ہے یاد رہے کہ میرا دوست ن لیگی ہے تو میں نے کہا اگر اجازت ہو تو قائد اعظم ثانی کی بات بھی ہو جائے۔ میاں نواز شریف بھی کچھ عرصہ پہلےقائد اعظم ثانی کا خطاب دیا گیا اور جناح کیپ اور اچکن والی تصویریں شائع کی گئی تھیں۔ اور میاں صاحب اتنے شریف تھے جب تک جیلانی ، ضیاء الحق اور مقتدر کےچہیتے رہے انہیں ووٹ کی عزت کا پتہ نہیں تھا جیسے ہی مقتدر سے ان بن ہوئی انہیں وو ٹ کی عزت کا پتہ چل گیا کیونکہ میاں صاحب اور ان کی پارٹی بنیادی طور پرشرافت کی علم بردار ہے اس لئے پرانے تعلق کا خیال رکھتی ہے میرے ذہن میں اس حوالے سے ایک لطیفہ یاد آیا تھا مگر میاں صاحب کی شرافت کی وجہ سے صبط تحریر میں نہیں لا یا جا سکتا۔اسی لئے یہ ان بن یا جھگڑا میثاق جمہوریت سے پہلے کبھی خوشی کبھی غم کی صورت چلتا رہا۔ میثاق جمہوریت جو کہ ن لیگ اور بینظیر بھٹو صاحبہ میں ہوا تھا کے بعد مقتدرہ نے دونوں کو سزا دینے کیلئے تیسری قوت یعنی عمران خان صاحب کو پراجیکٹ کی صورت میں لانچ کیا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب بھی انتہائی معصوم انسان ہیں انہیں بھی لندن کی رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں دوسرے افراد کی علاوہ ISIچیف جنر ل ظہیر اسلام بھی موجود تھے ۔پاکستان میں فوج کے کردار کے بارے میں کوئی علم نہ تھا پھر جنرل پاشا ، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید صاحب کی رفاقت میں بھی وہ 1971 میں پاکستان کی شکست اور اور بنگلہ دیش کے قیام کے بارے میں کچھ معلوم نہ کر سکے۔ بطور وزیر اعظم عمران خان جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی کارکردگی کے عاشق تھے ۔ اس وقت بھی معصوم عمران خان صاحب شیخ مجیب الرحمن اور 1971 کے واقعات سے نا بلد رہے مگر یہ جانتے تھے مقتدرہ کے پاس مجھ سے بہتر وزیراعظم نہیں ہے۔ ’’ چور ڈاکو‘‘ اب کبھی اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ اسی معصومیت کی وجہ سے خان صاحب کے خلافتحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور’’ چور ڈاکو‘‘ اقتدار میں آگئے۔ خان صاحب کے سر پرست بھی کچھ نہ کر سکے۔ خان صاحب نے پھر بھی پرانے تعلق کی وجہ سے باجوہ صاحب کو سمجھانے رہے کہ چور ڈاکوہٹا کر مجھے پھر وزیراعظم بنا دیں جب ایسا نہ ہو سکاتو خان صاحب نے پاکستان کی تاریخ پڑھنا شروع کی اور خاص طور پر حو س اقتدار کے شکارجرنیلوں کی اور بھٹوصاحب کی شہادت کے بارے میں انہیں علم ہوا۔ شروع شروع میں انہوں نے صرف اتنی فرمائش کی کہ آرمی چیف میری مرضی کا لگا دیں جب یہ معمولی سی فرمائش بھی نہیں مانی گئی تو خان صاحب کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے یہ تختہ کا فیصلہ کیا کیونکہ 1971جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام کے حالات پڑھنے کے بعد خان صاحب کو یقین ہو گیا کہ اس ملک کو حقیقی آزادی دلانے کیلئے جس مرد مجاہد کی ضرورت تھی وہ اب میری ذات میں مجیب الرحمن ثانی کی صورت میں سرائیت کر چکا ہے۔ قائد اعظم ثانی کا بت تراشنے والوں کو جلد اندازہ ہو گیا تھا جناح کیپ اور اچکن والی تصویریں لگا کر قائد اعظم نہیں بنایا جا سکتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ مجیب الرحمن ثانی کی ذات با برکات سے ہمارا وطن کس طرح فیض یاب ہوتا ہے ۔ مجیب الرحمن اول کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ لوئر مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کے بے لوث ورکر کی حیثیت سے سائیکل پر پور ے مشرقی بنگال میں مہم چلائی۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ مغربی پاکستان میں جاگیرداروں، نوابوں اور پیروں کاکلب بن کر رہ گئی تھی اور مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت مغربی پاکستان کی بیورو کریسی کی ریشہ دیوانیوں کی وجہ سے پریشان تھی ۔ شیخ مجیب الرحمن شہید سہروردی کی پارٹی میں شامل ہو گئے اور پھر شہید سہر وردی کے با اعتماد ساتھ میں شمار ہو نے لگے۔ سہروردی کی پارٹی کو انہوں نے عوامی لیگ بنا لیا ۔ مشرقی پاکستان میں پہلی مایوسی کی وجہ سے انہوں نے چھ نکات کی بنیا دپر 1970 کے انتخابات میں حصہ لیا اور مشرقی پاکستان میں سوائے دو سیٹوں کے تمام جیت گئیں۔ ایوب دور میں ان پر اگر قلم سازش کیس بنایا گیا ۔1970 کے انتخابات اور 1971 کی جنگ کے بارے میں پہلے لکھ چکا ہوں اب شیخ مجیب الرحمن ثانی اور شیخ مجیب الرحمن اول کا اگر تقابلی جائزہ لیں تو اول اور ثانی کا فرق واضح ہوجاتا ہے اول ایک متوسط گھرانے سے تھا سیاسی کارکن کی حیثیت سے سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ میں شہید سہر وردی کی صحبت میں سیاست کی سوجھ بوجھ ہوئی سیاست میں فوج کے کردار میں ہمیشہ مخالفت کی۔ ایوب خان اور محترم فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے مشرقی پاکستان چیف پولنگ ایجنٹ کی حیثیت سے کام کیا ۔( مشرقی پاکستان سے فاطمہ جناح صدارتی انتخابات جیت بھی گئیں تھیں) جب تک فوج نےایسٹ پاکستان میں ایکشن نہیں کیا کے بارے میں کوئی بغاوت نہیں کی تھی وہ بنگلہ دیش کے حق میں نہیں تھا مگر اس کی گرفتاری کے بعد عوامی لیگ کی قیادت بھگوڑوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔مکتی باہنی اور ہندوستانی فوج مل گئے اور اس طرح بنگلہ دیش کی حمایت کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا ونہ پورے پاکستان کی حکمرانی چھوڑ کر آدھے پاکستان کی حکمرانی کوئی نہیں چاہتا تھا۔ اب شیخ مجیب الرحمن ثانی صاحب نے کرکٹر کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اپنی مردانہ وجاہت کی وجہ سے لیڈ ی کلرکا خطاب پایا اسی وجہ سے برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک کی حکمران اشرافیہ میں رسائی حاصل کی پھر سماجی کارکن بن کر کینسر ہسپتال لوگوں سے چندہ لے کر بنایابہت ساری اپر سو سائٹی کی خواتین حوانی میں ہیرو کی عاشق تھیں ۔ چندہ مہم میں ہر اول دستہ بن گئی۔ جنرل گل حمید فاتح کندھار کی ذریعہ سیاست میں آیا سیاسی تربیت جنرل ظہیر اسلام ، جنرل راحیل شریف ، جنرل شجاع پاشا سے حاصل کی۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے کندھوں پر سوار ہو کر 2018 کے انتخابات میں جعلی مینڈیٹ لے کر وزیر اعظم پاکستان بنا اور ابھی تک موجودہ فوجی قیادت کے دست شفقت کا متمنی ہے۔شیخ مجیب الرحمن نے اپنی رہائی کے وقت ذو الفقار علی بھٹو صاحب سے کہا تھا کہ یہ جنرل پہلے مجھے قتل کریں گے اور پھر تمہیں قتل کریں گے ایسا ہی ہوا۔شیخ مجیب الرحمن ثانی کی مکتی باہنی جس طرح 9 مئی 2023 کو ناکام ہوئی تھی اسی طرح اب بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بنگلہ دیش میں سب لوگوں کی زبان اور کلچر ایک تھا اور دونوں حصوں میں 1000 میل کا فیصلہ تھا۔ موجودہ پاکستان چار مختلف نسلی لسانی اور ثافتی اکائیوں پر مشمتل ہے جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔