کار جہاں ۔ میاں غفار
آج 16 دسمبر ہے۔ پاکستان کے دو لخت ہونے کا تکلیف دہ دن۔وہ بنگالی جنہیں ہم ان کی ٹکہ نامی کرنسی کا نام لے کر دو ٹکے کے لوگ کہتے تھے، وہ جنہیں ہم کالے بھدے اور کمتر سمجھتے تھے۔ وہ دو ٹکے والے ہمیں ٹکے ٹوکری کرکے ہم سے بہت آگے نکل گئے۔ ان کا پاسپورٹ ہم پر بازی لے گیا۔ ان کی کرنسی ہم سے بہت مضبوط ہو گئی۔ ہم تو انہیں اپنی معیشت پر بوجھ سمجھتے تھے وہ بوجھ اترا تو ہم خود ہی اپنے آپ پر بوجھ بن کر نازل ہو گئے، وہ کہ جنہیں ہم بونے اور ٹھگنے گردانتے تھے ہمیں ہر میدان میں مات دے گئے حتیٰ کہ عالمی بھرم اور عالمی عزت و احترام میں بھی۔ ہم نے سانحہ مشرق پاکستان سے کوئی سبق نہیں سیکھا کہ ہمارا ہمیشہ ہی سے دعویٰ سبق سکھانے ہی کا رہا ہے۔ ہم تو کسی کو سبق سکھانے کیلئے بھی سبق نہ سیکھ سکے، خود سیکھتے تو کسی کو سکھاتے کہ سکھانے کیلئے سیکھنا از حد ضروری ہوتا ہے اور ہم نے ماضی سے کبھی بھی سبق نہیں سیکھا۔
مجھے پرانے اخبارات پڑھنے کا بہت شوق تھا کہ پرانی اخبارات سے وہ تاریخ اور ماضی ملتا ہے جو کہ بعض اوقات کتابوں سے بھی نہیں ملتا کہ اس خطے میں کتاب لکھنے والوں کی اکثریت اپنے خیالات ٹھونسنے کی کوشش میں حقائق سے دور نکل جاتی ہے اور واقعات کو اکثر جذبات کا تڑکا لگا دیتی ہے۔ مجھے 16 دسمبر 1971 یاد نہیں۔ ایک دن سوچا کہ پنجاب پبلک لائبریری جا کر دسمبر 71 کے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے کہ ان دنوں کے اخبارات کیا کہتے تھے گو کہ جنرل یحیی خان اقتدار میں تھے مگر اخبارات سیاست دانوں کی الزام تراشیوں کے حوالے سے بھرے پڑے تھے، خصوصی طور پر اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ شائبہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ حالات اس قدر دگرگوں اور آئوٹ آف کنٹرول ہو چکے ہیں۔ 16 دسمبر کے قومی اخبارات یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ سیلہٹ‘ راجشاہیاور چٹاگانگ میں مزاحمت کرنے والے مکمل طور پر پسپا ہو گئے ہیں اور سب اچھا کی رپورٹ ہے مگر اس روز شام 4 بجے پاکستان دو ٹکرے ہو چکا تھا اور آبادی کے لحاظ سے بڑا مگر رقبے کے لحاظ سے چھوٹا پاکستان کا حصہ الگ ہو کر بنگلہ دیش بن چکا تھا۔
ہمارے تاریخ کے پروفیسر صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ تو بنگلہ دیش والوں کی مہربانی ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کا نام پاکستان نہیں رکھا۔ اگر وہ ایسا چاہتے تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ جمہوری نظام کے حوالے سے اکثریتی آبادی بنگال کے پاس تھی۔ 16 دسمبر کے سانحے کے تین روز بعد صدر یحییٰ خان مستعفی ہو گئے اور ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر و صدر پاکستان کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ غالباً 19 دسمبر کو ذوالفقار علی بھٹو نے حلف لیا اور کام شروع کر دیا۔ دو تین دن ایسے بیانات اخبارات کی زینت بنائے گئے کہ بھٹو کوئی معجزہ دکھانے والے ہیں مگر بہت ہی جلد اخبارات کی سرخیوں میں یوٹرن آنے لگا اور 26 دسمبر کی اخبارات کی ہیڈ لائن یہ تھی۔ ’’بھٹو نے ملک بھر سے 313 کرپٹ افسران کو نوکری سے نکال دیا‘‘۔ اس سے اگلے دن کے اخبارات خوف و ہراس سے بھرے پڑے تھے اور سقوط ڈھاکہ کا معاملہ بتدریج ثانوی حیثیت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ انتہائی دگرگوں اور مایوس کن حالات میں ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کا اقتدار سنبھالا۔ ان دنوں میں نہ تو فیکس مشین ہوتی تھی نہ واٹس ایپ حتیٰ کہ ٹیلی فون بھی بہت ہی کم تھے۔ سرکاری پیغام رسانی بذریعہ خطوط یا ٹیلی پرنٹر ہوا کرتی تھی جسے پڑھنا ایک جان جوکھوں کا کام تھا۔ ابھی تو صدر ذوالفقار علی بھٹو کو وفاقی محکموں بارے بریفنگ بھی نہیں ملی تھی کہ صوبائی معاملات تو دور کی بات پھر محض 6 ہی دنوں میں بھٹو کو ملک بھر کے وفاقی اور صوبائی محکموں کے کرپٹ افسران کی مرتب شدہ فہرستیں کہاں سے مل گئیں جبکہ بہت سے نکالے جانے والے سرکاری افسران کے خلاف کسی بھی قسم کی تحقیقات تو دور کی بات‘ شکایت بھی نہ تھی حتہ کہ نہ ہی کوئی تحریری درخواست۔ ان ایام کے اخبارات پڑھ کر تو یہی اندازہ ہوتا تھا کہ بھٹو صرف خوف پیدا کرنا اور عوام کی توجہ تقسیم کرنا چاہتے تھے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔ میں نے چند نکالے جانے والے افسران بارے باقاعدہ معلومات بھی لی تھیں کہ وہ بہت صاف ستھرے لوگ تھے مگر بھٹو نے انہیں زندگی بھر کی بدنامی عین اسی طرح دے دی جس طرح عباس اطہر مرحوم نے بطور نیوز ایڈیٹر بھٹو کی محبت میں “اُدھر تم ادھر ہم” کی سرخی اخبار میں شائع کر کے بھٹو کے کیرئیر پر نہ مٹنے والا داغ لگا دیا تھا، حالانکہ بھٹو نے یہ بات کہی ہی نہ تھی از خود ان کی تقریر سے مفہوم لیا گیا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ خبر کے مفہوم سے سرخیاں نہیں نکالی جاتیں، بذریعہ خبر بھیانک الزام ان کے سر تھوپ دیا گیا۔ جس سے وہ بعد از مرگ بھی اس طرح نکل نہ سکے جس طرح ان کے ہاتھوں نوکریوں کے نکالے جانے والے 313 افسران زندگی بھر نہ نکل سکے۔
ہم جز کو کل سمجھنے والے بدقسمت اور کوتاہ اندیش لوگ ہیں۔ کوئی بھی بااختیار اپنے دفتر میں لگا بورڈ دیکھ کر عبرت حاصل نہیں کرتا کہ اس سے پہلے کتنے چلے گئے اور کتنے محض اعمال نامے ہی بوجھل کرتے گئے۔ ان کے دفاتر کے کمروں میں آویزاں جو بورڈ عبرت کی علامت تھے انہیں تکبر اور فخر بنا لیا گیا۔ کتنے ایسے بااختیار اس ملک کی قسمت میں لکھے گئے جو قلیل عرصے کے مفاد اور اقتدار کیلئے کروڑوں عوام کے حقوق سلب اور زندگیاں برباد کر گئے۔ وہ بھول گئے کہ کھایا اور جمع کیا ہوا تو وہ یہیں چھوڑ جائیں گے البتہ میدان حشر میں کروڑوں کے حقوق سلب کرنے اور ان کی زندگیوں کو اجیرن کرنے پر جواب دہ ہوں گے۔ کاش کوئی سوچ سکے کہ
“یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے”