ملتان (سٹاف رپورٹر) اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ثابت شدہ کرپٹ ترین اور نااہل ترین وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کی نا اہلی سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کی بابت متعدد وجوہات سامنے آ گئی ہیں جن میں بنیادی طور پر بہت بڑے پیمانے پر تعیناتیوں کے ساتھ ساتھ ایڈورٹائزمنٹ سے زیادہ تعیناتیاں اور غیر قانونی تعیناتیاں، تقرریوں اور ترقی/مرمت/بحالی کے ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر غیر ضروری توسیع کی گئی جس میں بہت بڑے پیمانے پر کک بیکس اور کمیشن وصول کیے گئے۔ بعض ایسے پروجیکٹ کی ادائیگیاں بھی کی گئی جن کا گراؤنڈ پر سرے سے وجود ہی نہیں۔ ڈاکٹر اطہر محبوب کی مسلسل کرپشن کی وجہ سے غیر ضروری عملے کی تنخواہوں اور ترقیاتی اخراجات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ تاہم گزشتہ چار مالی سالوں 2019 تا 2023 کے دوران یونیورسٹی ناقص انتظامی اور مالیاتی نظم و نسق کے ساتھ کام کرتی رہی، جس کے نتیجے میں آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ فنڈز اور اکاؤنٹس میں موجود تمام بچتوں کے استعمال کے باوجود آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق کو پُر نہ کیا جا سکا اور ادارہ بھاری واجب الادا رقوم کے بوجھ تلے دب گیا جبکہ بینک اکاؤنٹس میں کوئی فنڈز، بچت یا بیلنس باقی نہ رہا۔ انتہائی توجہ طلب امر یہ ہے کہ ڈاکٹر اطہر محبوب کی تعیناتی کے وقت تقریباً 749 ملین روپے یونیورسٹی کے جنرل حبیب بینک لمیٹڈ کے اکاؤنٹ میں موجود تھے مگر ڈاکٹر اطہر محبوب کی برطرفی تک اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور تقریباً 2670 ملین روپے کے خطرناک خسارے کا شکار ہو چکی تھی۔ 2019 میں یونیورسٹی کے پینشن اکاؤنٹ میں تقریباً 26 ملین ، جی پی فنڈ میں 30 ملین، اینڈومنٹ فنڈ میں 1 لاکھ 48 ہزار ، اور انویسٹمنٹ میں 500 ملین روپے موجود تھے۔ جو کہ 2023 تک پینشن میں 1588 ملین اضافے کے ساتھ 1614 ملین، جی پی فنڈ میں 345 ملین اضافے کے ساتھ 375 ملین، اینڈومنٹ فنڈ میں 105 ملین اضافے کے ساتھ 106 ملین جو کہ کل ملا کر 2595 ملین روپے ہونے چاہیں تھے مگر 2023 تک یہ ساری رقوم بھی اور کرپشن پر خرچ کرکے تقریباً 5 ملین باقی چھوڑ دیے گئے۔ اور ڈاکٹر اطہر محبوب کی غلط پالیسیوں نے یونیورسٹی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پہلے ملازمین کو آدھی تنخواہوں کے بعد ہفتہ وار چوتھائی تنخواہ دی جاتی رہی تھی پھر ایڈمیشن کی مد میں وصولی سے تنخواہیں وقت پر دی گئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے آنے والے وائس چانسلر انجینئر ڈاکٹر محمد کامران کس طرح یونیورسٹی کو اس تباہی کی خطرناک صورتحال سے نکال پائیں گے۔
