لودھراں( خصوصی رپورٹ ) روزنامہ قوم کی محنت رنگ لے آئی، حوالدار گن مین نجیب کے اشاروں پر چلنے والی ضلعی انتظامیہ بے نقاب ہوگئی۔ روزنامہ قوم مسلسل معاملہ اجاگر کرتا رہا مگر انتظامی کمزوریوںکا خاتمہ نہ ہو سکا، آئے روز شہری کھلے میں ہولز کی شکایات کرتے رہے مگر کوئی نوٹس نہ لیا گیا۔ بچے کی موت نے ڈپٹی کمشنر لودھراں ڈاکٹر لبنیٰ نذیر کو ان کے عہدے سے فارغ کرا دیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے لودھراں کے نواحی علاقہ دھنوٹ میں کھلے مین ہول میں کم سن بچے کی ہلاکت کے دوسرے واقعے کے بعد ڈپٹی کمشنر لودھراں ڈاکٹر لبنیٰ نذیر کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ ضلعی حلقوں میں اس برطرفی کا پس منظر صرف انتظامی غفلت تک محدود نہیں سمجھا جا رہا۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کے اصل فیصلے حوالدار نجیب گن مین کے اشاروں پر ہوتے تھے اور ہر کوئی سوال کرتا تھا کہ اصل اختیار کس کے پاس ہے۔ حوالدار نجیب گن مین پر سنگین الزامات لگتے مگر ڈی سی نوٹس کسی بات کو خاطر میں نہ لاتیں۔مقامی سرکاری حلقوں، سیاسی و سماجی شخصیات کا کہنا ہے کہ لودھراں میں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، یہ سب ڈی سی نہیں بلکہ حوالدار نجیب طے کرتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر ڈاکٹرلبنیٰ نذیربظاہر انتظامیہ کی سربراہ تھیںمگر عملاً فیصلوں کی ڈور حولدار نجیب کے ہاتھوں میں تھی۔ ذرائع کے مطابق نجیب گن مین کی ترجیحات اکثر کرپشن، سفارش اور تبادلوں پر مبنی رہتی تھیں جو روزانہ ڈیوٹی کے بعد تمام صوبائی محکموں سے سادہ کپڑوں میں مبینہ وصولیاں کرتا تھا۔ مقامی لوگ اور کچھ سرکاری ملازمین کہتے ہیں کہ اگر خفیہ ایجنسی اس کا موبائل اچانک ضبط کرکے ڈیٹا چیک کرے تو سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ یہ تمام الزامات ابھی سرکاری طور پر ثابت نہیں ہوئے لیکن مختلف محکموں کے اہلکار ان کی تصدیق غیر رسمی طور پر کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ضلع بھر میں کئی ماہ سے کھلے مین ہولز کے حوالے سے شکایات موجود تھیں، مگر مناسب کارروائی نہ کی گئی۔ شہریوں کا مؤقف ہے کہ جب ضلع کی انتظامیہ کسی گن مین کے کہنے پر چلتی ہو تو پھر ایسے حادثات ہونا کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ صرف سابق ڈپٹی کمشنر کے خلاف ہی نہیں بلکہ حوالدار نجیب گن مین کے خلاف بھی کارروائی کی جائے اور اگر الزامات درست نکلیں تو اسے معطل، محکمانہ کاروائی یا ضلع بدر کیا جائے کیونکہ جب تک نجیب گن مین کا نیٹ ورک ختم نہیں ہوگا لودھراں کی انتظامیہ ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف پنجاب حکومت کی نے واقعے پر اعلیٰ سطح کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔حتمی ذمہ داری اور الزامات کی تصدیق تحقیقاتی رپورٹ کے بعد واضح ہو گی۔







