روداد زندگی) ڈاکٹر ظفر چوہدری)
گورنمنٹ کالج آف سائنس لاہور میں گزارے ہوئے صرف ایک سال میں بہت سارے واقعات ہوئے جو کہ عام طور پر اس دور میں طلبا سیاست میں ہوتے ہیں۔ جمعیت کے خلاف ہمارے گروپ میں ڈار برادران نے ہی زیادہ تر مقابلہ کیا۔ مجھ سمیت دوسرے’’ انقلابی‘‘ زیادہ تر اخلاقی امداد تک ہی محدود رہے۔ ان میں نقوی صاحب جو میرے نظریاتی اور مباحثوں کے ساتھی تھے اور کارل مارکس پر اپنے آپ کو اتھارٹی سمجھتے تھے۔ کمیونزم، سوشلزم اور لینن ازم پر اکثر ہم ان کے خیالات سنتے تھے۔ وہ خاندانی طور پر شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے مگر مادیت پرست نظریہ کے قائل تھے۔ جو کہ ظاہر ہے مذہب کے خلاف تھا۔ میں کیونکہ سنی بریلوی پس منظر رکھتا تھا۔ لیکن فرقہ واریت کے اثرات اس دور میں بہت کم تھے۔ ہم تو دونوں ہی لبرل اور ترقی پسند ہونے کی وجہ سے فرقہ وارانہ سوچ کے خلاف تھے۔ مجھے پچپن سے ہی جو ماحول ملا تھا۔ اس میں بھی شیعہ سنی کا اتنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ ہمارے گھر میں محرم میں والدہ کی جاننے والی خاتون آیا کرتی تھی اور شاہ نامہ اسلام پڑھتی تھی اور اہل بیت کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم اور حضرت بی بی فاطمہؓ کے بارے میں بتاتی تھی۔ میں اور میرے بھائی عاشورہ والے دن نکلنے والے جلوس میں بھی شرکت کیا کرتے تھے۔ اکثر سنی جلوس کے لئے سبیلیں اور چاولوں کی صورت میں نیاز کا بندوبست کرتے تھے۔ میری والدہ بھی نیاز بانٹا کرتی تھیں۔ عاشورہ والے دن دالوں اور اجناس جن میں چاول، گندم، جو وغیرہ کے ساتھ دالیں ماش، چنے، مسور اور مونگ وغیرہ مکس کر کےایک ڈش بنتی تھی نانی آماں کی نگرانی میں۔ بعد میں معلوم ہوا اس کو حلیم کہتے ہیں۔ جس میں گوشت بھی ہوتا ہے ،پر اس میں گوشت نہیں ہوتا تھا۔ نانی اماں بتایا کرتی تھیں کہ جب کربلا میں کھانے کے لئے اشیا ختم ہو گئیں اور بچوں نے بھوک کی وجہ سے رونا شروع کردیا تو بی بی زینب نے پتھر ہانڈی میں ڈال کر انہیں ہلانا شروع کر دیا تاکہ بچوں کو معلوم ہو کہ کھانا تیار ہو رہا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں برتن کا جب ڈھکن اٹھایا گیا تو جو کھانا تیار ہوا تھا وہ یہی ہے۔ جسے نانی آماں کوٹا کہا کرتی تھیں اور اسے صبح کو لسی کے ساتھ میں شوق سے کھاتا تھا۔ نانی اماں ایک کہانی بھی سناتی تھیں کہ حضرت علیؓ نے ایک دیونی یعنی دیو کی ایک بیٹی سے شادی کی تھی ۔ جس کی اولاد نے حضرت امام حسینؓ کی شہادت میں شریک تمام لوگوں کو مار دیا تھا۔ ہمارے قصبہ میں1964-65 میں فرقہ وارانہ جھگڑا دیوبندی اور بریلوی مکتب فکر میں ہوا تھا۔ جس کی وجہ عید گاہ تھی۔ عید گاہ پر بریلوی حضرات نے قبضہ کر لیا اور قصبہ کی اس وقت دو عدد مساجد دیو بندی حضرات کے قبضہ میں چلی گئیں۔ گائوں میں اہل تشیع کی تعداد بہت کم تھی اور ان میں اکثریت انتہائی غریب طبقہ پر مشتمل تھی۔ ان میں زیادہ تر ملنگ اور بھنگی ہوتے تھے۔ قصبہ روہیلانوالی کے ساتھ موجود دیہات میں رہنے والے الٰہی بخش صاحب نے قصبہ روہیلانوالی میں ہندوئوں کی چھوڑی ہوئی جائیداد جو تقریباً تین چار کنال ہوگی اس پر علم لگا دیا اور اسے امام بارگاہ کا درجہ دےدیا۔ شروع شروع میں قصبہ کے مذہبی عمائدین نے توجہ نہ دی کیونکہ اس وقت زمین کی زیادہ اہمیت اور قیمت نہیں تھی۔ الٰہی بخش صاحب نے اسی امام بارگاہ کو سرکاری طور پر منظور کرا لیا اور پھر مجالس بھی شروع ہو گئیں۔ جیسے جیسے قصبہ میں ترقی ہونا شروع ہوئی اور جائیداد کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوئیں تو دیو بندی فرقہ کے لوگوں نے اس کے خلاف محاذ بنانا شروع کر دیا۔ لیکن یہ محاذ آرائی عدالتی اور دونوں اطراف کے چند لوگوں کے درمیان تھیں عام لوگوں پر اس کا کوئی زیادہ اثر نہیں پڑا تھا اورشیعہ سنی کے درمیان نفرت نہیں شروع ہوئی تھی۔
آج اسی امام بارگاہ کے ارد گرد کمرشل کروڑوں روپے کی دکانیں جن کا کرایہ لاکھوں میں ہے موجود ہیں اور الٰہی بخش کی تیسری یا چوتھی نسل اس سے فیضیاب ہو رہی ہے۔ اس طرح ایک مسجد جو دیو بندی مکتب فکر کے قبضہ میں تھی۔ اس کے ساتھ بھی امام بارگاہ کی طرح دکانیں بن چکی ہیں۔ وہ بھی کروڑوں کی ہیں اور ان کا بھی لاکھوں میں کرایہ ہے۔ اسی طرح بریلوی حضرات نے جس عید گاہ پر قبضہ کیا تھا۔ وہاں بھی کروڑوں کی دکانیں ہیں اور لاکھوں کا کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔
آج جب میں ماضی کے جھروکوں میں فرقہ واریت کے واقعات کو دیکھتا ہوں تو اس کے پس پردہ مالی مفادات ہی نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں پہنچتے پہنچتے یہ مفادات آسیب کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔