آج کی تاریخ

لا تعلقی کا موسم

تحریر:طارق قریشی

پاکستانی سیاست میں کسی بھی جماعت میں اراکین کا تعلق نکاح کی طرح ہی ہوتا ہے کبھی طلاق کبھی خلع تو کبھی علیحدگی اور بعد میں ملاپ ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ کسی رکن نے ایک سیاسی جماعت سے لا تعلقی اختیار کی حلالہ کے لیے کسی دوسری جماعت سے ناطہ جوڑا پھر کچھ عرصے بعد وہاں سے تعلق ختم کیا واپس اپنی پہلی جماعت میں نہ تعلق توڑنے پر شرمندگی نہ واپسی پر نگاہ نیچی ۔ جب دین ایمان سیاست ہی ہے تو پھر نہ ملال کاہے کا۔ ابتدائی برسوں میں پاکستان میں ایک ہی بڑی سیاسی جماعت تھی 1947 کی قانون ساز اسمبلی میں مسلم لیگ کا ہی راج تھا کچھ اراکین مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد کے شریک کار باقاعدہ نظریاتی اراکین تھے۔ جبکہ کچھ مرغ باد نما کی مانند ہوا کا رخ اور اشارے دیکھ کر مسلم لیگ کے ساتھ شریک سفر بنے تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت سے قبل ہی مسلم لیگ میں اشاروں سے آنے والوں نے نئے اشاروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس کھیل میں تیزی آگئی ۔
مسلم لیگ ن نے عوامی کے نام سے رونمائی کرائی تو کبھی جناح کے نام سے راتوں رات نئے تعلق استوار ہوئے تھے اور مسلم لیگ نام کی دوشیزہ کسی نئے بندھن میں بندھی نظر آتی تھی پاکستان میں اقتدار پر قابض ہونےوالے ڈکٹیٹروں کی بھی پسند مسلم لیگ ہی ہوتی تھی سو کبھی کنونشن کے نام سے تو کبھی کونسل کے نام سے احکامات اور اشاروں سے بننے والی سیاسی جماعتوں میں نہ سربراہ کا تعلق دائمی ہوتا ہے نہ اس کے اراکین کا تعلق میں وفاداری کی شرط۔ کسی بھی جماعت کا سربراہ اپنی ضرورت کے مطابق اپنے اراکین سے تعلقات استوار کرتا ہے تو اراکین بھی اپنی وفاداری اور تعلق کو اپنے ذاتی مفادات تک ہی محدود رکھتے ہیں کبھی جماعت کا سربراہ لا تعلقی کا اعلان کرتا ہے تو کبھی اراکین جماعت لاتعلقی ظاہر کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی لاتعلقی خاموشی کی زبان سے ہوتی ہے جیسے آج کل لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن کی پیپلز پارٹی سے لاتعلقی تو کبھی راجہ ریاض اور نور عالم خان و دیگر کی طرح باقاعدہ بینڈ باجے کے ساتھ۔بہ حیثیت سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے جہاں اس سے لاتعلقی اختیار کرنے والوں کی فہرست طویل ہے تو واپس آنے والوں کی بھی فہرست بھی اتنی ہی طویل ہے۔ جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کو تقسیم کرنے کی خاطر بہت سے قدر آور سیاست دانوں کو پیپلز پارٹی سے تعلق ختم کرنے پر رضا مند بھی کرلیا مصطفی جتوئی‘مصطفیٰ کھر حنیف رامے ‘ کوثر نیازی جیسے بڑے بڑے نام پیپلز پارٹی سے تعلق ختم کرکے سیاست کے میدان میں اترے مگر دال نہ گل سکی کچھ واپس آگئے باقی سیاست کے گردوغبار میں گم ہو گئے۔ جنرل مشرف نے بھی پیپلز پارٹی تقسیم کرنے کے لیے کچھ اراکین کی پیپلز پارٹی سے لاتعلقی کروا کر پیٹریاٹ کے نام سے گروپ بنوایا چند سالوں بعد ہی نہ پیٹریاٹ باقی رہا نہ پیٹریاٹ بنانے والا۔ نواز شریف نے بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کیا جنرل مشرف نے نواز شریف کو جیل میں ڈالنے کے بعد اپنے من پسند اراکین کو نواز شریف سے تعلق ختم کراکے مسلم لیگ قائداعظم کے نام سے نئی جماعت بنوائی دیکھتے ہی دیکھتے چاروں صوبوں میں مسلم لیگ قائداعظم سے تعلق استوار کرنے والوں کی قطاریں لگ گئیں ۔مشرف کا دور ختم ہوا تو نواز شریف سے تعلق توڑ کر جانے والوں کو بھی نواز شریف کی محبت ستانے لگی۔ اور پھرتعلق جس طرح ٹوٹا تھا اسی طرح جڑتا چلا گیا۔
2011میں پوری تیاری کےساتھ جب عمران خان کو انتخابی میدان میں اتارا گیا جلسوں میں موسیقی کے تڑکے کے ساتھ ساتھ دلچسپی کے تمام سامان اکٹھے کیے گئے۔ رونق بھی خوب لگی مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے ہدایت کاروں نے ناکامی کے اسباب پر غور کیا تو سامنے آیا کہ صرف رونق میلے سے کامیابی ممکن نہیں تجربہ کار بڑے نام جب تک اپنا تعلق عمران خان سے نہیں جوڑتے کامیابی ممکن نہیںلہذا نئی حکمت عملی تیار کی گئی باقاعدہ ہانکہ کیاگیا گھیر گھار کے ملک بھر سے بڑے بڑے جغادری اکٹھے کیے گئے کبھی ترین کا طیارہ تو کبھی علیم خان کا طیارہ نئے مسافروں کو بنی گالہ کی منزل تک پہنچانے میں مصروف نظر آیا اور مشن مکمل ہوگیا عمران خان اقتدار کی منزل پر پہنچ گئے۔ تقریباً تین سال معاملات اسی طرح چلتے رہے جس طرح پروگرام بنایاگیا تھا ہدایت کار بھی خوش تھے سرمایہ کار بھی اور سہولت کار بھی۔ ساری صورتحال ٹھیک تھی کہ عمران خان کی جبلت نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا۔ تعلقات بنانے تک تو بات ٹھیک مگر تعلقات زیادہ عرصے تک قائم رکھنا یا تعلقات کو نبھانا عمران خان کی جبلت میں ہی شامل نہیں سیاست سے ہٹ کر ماجد خان سے لے کر حفیظ اللہ نیازی تک اس جبلت کا شکار ہی بنے تھے۔ 2018
میں عمران خان کی جماعت میں جیت کر آنے والوں کی اکثریت ہدایت کاروں کے پرانے وفاداروں کی تھی نہ عمران خان سے ان کا تعلق تھا نہ ہی یہ تعلق نظریات پر استوار کیاگیا تھا۔ مفادات اور اشاروں کا محتاج یہ تعلق نازک رشتے میں بندھا تھا۔ عدم اعتماد سے پہلے ہی ترین گروپ ‘ علیم خان گروپ‘ راجہ ریاض اور نور عالم خان گروپ کے نام سے لاتعلقی کا کھیل شروع ہو گیا تھا۔ عدم اعتماد کے دوران ہی ہدایت کاروں نے کھیل کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنے کی خاطر پرویز الٰہی کے چوہدری شجاعت کے ساتھ خاندانی اور سیاسی بندھن کو توڑا پرویز الٰہی کو عمران خان کا ہم سفر بنایا۔ عدم اعتماد کے بعد کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت تحریک انصاف کی تاریخ میں سب سے بلند درجے تک پہنچ گئی۔ یہ مقبولیت تحریک انصاف کے لیے سیاست میں کامیابیوں کا پیغام بن سکتی تھی مگر ایک بار پھر عمران خان کی افتاد طبع نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔
عقل کل اور میں نہیں تو کچھ نہیں کی سوچ نے عمران خان کو ایسے تصادم کا شکار کر دیا جہاں روز بہ روز عمران خان تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں عوامی مقبولیت پاکستان میں باسی کڑھی کے ابال کے مانند ہوتی ہے جس طرح آتی ہے اسی طرح چلی بھی جاتی ہے عدم اعتماد سے قبل عمران خان پاکستان بھر میں سب سے زیادہ غیر مقبول شخصیت تھے۔ عدم اعتماد کے طریقہ کار پر عوامی ردعمل نے عمران خان کے لیے تریاق کا کام کیا دیکھتے ہی دیکھتے عمران خان مقبول ترین بن گئے۔ مقبولیت کے زعم میں عمران خان نے پہ در پہ سیاسی غلطیوں کے بعد گرفتاری پر دیئے جانے والے ردعمل نے سیاست کے میدان میں عمران خان کی مشکلات میں ہی اضافہ نہیں کیا ان کی سیاسی بقا کو بھی شک میں ڈال دیا ہے۔ اس ساری صورتحال میں سب سے بڑا امتحان ہدایت کاروں کے لائے گئے کرداروں کا ہے۔ بہت سے کردار تو عدم اعتماد کےموقع پر ہی تعلق توڑ گئے تھے۔9مئی کے بعدآزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم کا عمران خان پر باقاعدہ الزامات کے ساتھ سامنے آنا لاتعلقی کے کھیل کا آغاز ہے۔9مئی کے بعد شاہ محمود کا کراچی سے اسلام آباد پہنچ کر فرمائشی گرفتاری دینا بھی معنی خیز ہے۔ ساری صورتحال میں شیخ رشید اور پرویزالٰہی کا زمان پارک حاضری سے گریز کے ساتھ ساتھ کسی قسم کی بیان بازی سے دور رہنا بھی علامتی حیثیت کا حامل ہے۔ سب سے دلچسپ صورتحال جنوبی پنجاب کی ہے جہاں عمران خان کے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار برادران کے ساتھ ساتھ شاہ محمود کا فرزند زین قریشی کہیں نظر نہیں آرہے اور خسرو بختیار کی فرمائشی گرفتاری بھی سوشل میڈیا ہی سے نظر آئی ہے۔جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف کوئی بڑا احتجاج کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی ملتان میں بھی عامر ڈوگر نے کارروائی ڈال کر فرمائشی گرفتاری میں پناہ حاصل کرلی۔ جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کے نشان پر کامیابی حاصل کرنے والوں میں عثمان بزدار سمیت اکثریت ان افراد کی ہے جو2018 کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل ہی تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ ان کی اکثریت اسٹیبلشمنٹ کے دوستوں کی ہے۔ ابتدائی طور پر خاموشی سے گوشہ نشین ہوجانا لاتعلقی کے سفر کا آغاز ہوسکتا ہے۔ پاکستانی فوج کا بہ حیثیت ادارہ9مئی کے واقعات کے حوالے سے سخت ترین ردعمل بھی گوشہ نشین کرداروں کو کھلا پیغام دے گیاہے۔ اب لا تعلقی کے اعلانات زیادہ ور نہیں نظر آرہے جنوبی پنجاب سے بذریعہ ہانکہ آنے والوں نے جس طرح تعلقات قائم کیے تھے لا تعلقی کا طریقہ بھی کچھ اسی طرح ہوگا گروہ کی صورت میں آئے تو لاتعلقی بھی گروہ کی صورت میں ہی ہوگی کہ ہوائوں کا رخ موسمی تبدیلیوں کا اشارہ دے رہا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں