تحریر: ڈاکٹر ظفر چوہدری(روداد)
ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے معاہدہ تاشقند کے حوالے سے موقف اختیار کیا کہ ایوب خان نے 65 کی جیتی ہوئی جنگ معاہدہ تاشقند کر کے میز پر ہار دی ہےاور وزارت خارجہ سے مستعفی ہوگئے اور بذریعہ ریل گاڑی راولپنڈی سے کراچی کا سفر کیا تو راستے میں گجرانوالہ، لاہور، ساہیوال، ملتان،سکھر، حیدر آباد اور کراچی میں عوام کے جم غفیر نے ان کا استقبال کیا اور ایوبی آمریت سے تنگ عوام نے اپنے دبے ہوئے جذبات کا بھر پور اظہار کیا۔
مشرقی پاکستان میں پہلے ہی 1965 کے انتخابات کے بعد ایوبی آمریت کے خلاف عوام میں زبردست غصہ پایا جاتا تھا۔ شیخ مجیب جو کہ تحریک پاکستان کے انتھک کارکن تھے اور تحریک پاکستان کےلئے پورے بنگال میں سائیکل پر کارکن کی حیثیت سے کام کیا تھا اور وہ محترمہ فاطمہ جناح کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے اور عوامی لیگ میں حسین شہید سہروردی کےدست راست سمجھے جاتے تھے۔ حسین شہید سہروردی بنگال میں تحریک پاکستان کی خدمت کی وجہ سے مسلم لیگ میں اہم مقام حاصل کرچکے تھے۔ جب وہ پاکستان کے وزیراعظم بنے تو انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا اورایوبی مارشل لا میں ان پر مختلف مقدمات بنائے گئے۔آخر کار بیروت میں ان کی پر اسرار موت واقع ہوئی۔ جس کے بارے میں مرحوم چوہدری یٰسین نے بتایا تھا کہ اس میں اس وقت کی مقتدرہ ملوث تھی۔ چوہدری صاحب نے یہ بھی بتایا تھا کہ 1962میں اس وقت کے وزیر قانون جو کہ نظریہ ضرورت کے بانی تھے۔ یعنی جسٹس منیر نے بنگالی رہنمائوں سے کہا تھا کہ آپ ہم سے علیحدہ ہو جائیں۔ جس پر بنگالی رہنمائوں نے جواب دیا تھا کہ ہم اکثریت ہیں ہم کیوں علیحدہ ہوں۔ علیحدہ تو ہمیشہ اقلیت ہوتی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ ہمیں بچپن میں بنگالیوں کے بارے میں جوبتایا جاتا تھا۔ اس سے یہی واضح ہوتا تھا کہ بنگالیوں کو فوج،سول بیورو کریسی میں مغربی پاکستانی کے مقابلے میں رنگ اور قد کی وجہ سے کمتر سمجھتے تھےیہی وہ حالات تھے کہ شیخ مجیب الرحمان نے مشہور زمانہ 6 نکات کی بنیاد پر عوامی لیگ کا منشورپیش کیا۔ جسے بنیاد بنا کر شیخ مجیب الرحمان کو اگرتلہ سازش کیس میں قیدکردیا گیا۔ میرے بیٹے عبداللہ نے بتایا کہ میں نےانڈین آرمی کے افسروں کے بارے میں پڑھا ہےکہ وہ کس طرح شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے رہنمائوں سے رابطے میں تھے اور کس طرح مشرقی پاکستان (بنگال) کو پاکستان سے الگ کرنے میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی را نے منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ سب نیٹ پر موجود ہے۔
بہت سےدانشور اس بارے میں اور چھ نکات کے بارے میں قرار داد لاہور کی حقیقی روح کے بارے میں لکھ چکے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال کی کتاب جاوید نامہ میں اس کا بھر پور انداز میں تجزیہ کیا گیا ہے۔ میرا مقصد صرف اسے وقت حالات اور ماضی کے پس منظرمیں بیان کرنا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ہماری مقتدرہ کی مسلسل زیادتیوں کے رد عمل میں اور شیخ مجیب الرحمان کے خلاف غداری کے الزامات اور انہیں پابند سلاسل کرنے سے عوامی لیگ کی دوسرے درجے کی قیادت نے انڈین ایجنسیوں سے رابطہ کیا ہو یا انڈین ایجنسیوں نے رابطہ کیا ہو۔ انڈیا ہمارا دشمن تھا اسے تو موقع چاہئے تھا۔ لو میں پھر بھٹک گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی مغربی پاکستان میں پذیرائی کے بعد1967 میں پیپلز پارٹی کی لاہور میں بنیاد رکھی گئی۔ جس میں زیادہ تر بائیں بازو، یعنی ترقی پسند، لیبرل اور سوشلسٹ خیالات رکھنے والے رہنما شامل تھے۔ پچھلے پندرہ بیس سال میں ہماری مقتدرہ نے بائیں بازو کے رہنمائوں کے خلاف بہت سی کارروائیاں کی تھیں اور انہیں ففتھ کالمسٹ کہا جاتا تھا۔ پیپلز پارٹی نے مبشر حسن،جے اے رحیم اور دوسرے رہنمائوں کے ذریعے جو منشور دیا اس کے بنیادی نکات یہ تھے۔
1) اسلام ہمارا دین ہے
2) سوشلزم ہماری معیشت
3) طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں
4) جمہوریت ہماری سیاست ہے
طلبا بھٹو صاحب کی تحریک کا ہر اول دستہ تھے۔ پنجاب میں لاہور سے جہانگیر بدر پنجاب یونیورسٹی والے، ملتان میں محمود نواز بابر، ساہیوال میں حبیب اللہ شاکر، کراچی میں معراج محمد خان دوسری کئی طالب علم رہنما جن کے نام مجھے یاد نہیں، بہت مقبول ہوئے ۔ جن میں معراج محمد خان کو بھٹو صاحب نے اپنا جانشین اول قرار دیا تھا۔ پیپلز پارٹی میں بہت اہم رہنما کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ معراج محمد خان صاحب ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ان کے عتاب کا شکار ہوئے اور انہوں نے دلائی کیمپ میں تشدد کا سامنا بھی کیا۔ مگر معراج محمد خان کی عظمت کو سلام جب ضیاالحق نے معراج محمد خان کو بھٹو صاحب کے خلاف استعمال کرنا چاہا اور ایم کیو ایم بنانے کی دعوت دی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔