روداد‘ ڈاکٹر ظفر چوہدری
جنرل ایوب خان کے مارشل لا سے پہلے دو واقعات میں نے چوہدری یٰسین مرحوم سے سنے۔ ان کے بارے بتانا چاہتا ہوں۔ ایک واقعہ سابق وزیر اعظم فیروز خان نون کے بارے میں ہے ان کی آسٹریلین بیوی کی کوششوں سے گوادر پاکستان کو ملا تھا اور اس کی باقاعدہ ادائیگی مسقط کو کی گئی تھی۔ ایک بظاہر کمزور سویلین حکمران نے بھی گوادر جیسی بندرگاہ کو شہنشاہ ایران کی خواہش کے خلاف پاکستان کا حصہ بنایا دوسری طرف طاقت ور ترین حکمران ایوب خان نے سرحدوں کی ردوبدل کے ذریعے لاکھوں ایکڑ زمین ایران کو دے دی۔باقی رہے یحییٰ خان تو انہوں نے تو آدھا ملک ہی گنوا دیا۔ ضیا الحق دور میں سیاچین چھن گیا۔ دوسرا لیاقت علی خان کی شہادت کے حوالے سے ہے انہیں اکبر خان نے گولی ماری تھی اور پھر اکبر خان کو جس پولیس آفیسر نے گولی ماری تھی۔ اس کے خاندان کے افراد پاکستان کی اہم پوسٹوں پر تعینات رہے اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کا تعلق ملتان سے ہے۔ اب فیس بک پر پڑھا تھا کہ اکبر خان قاتل کا خاندان بھی پاکستان میں کےپی کے میں کئی سالہا سال تک کسی خفیہ جگہ پر رکھا گیا تھا اور اس کی آخری بیوی چند سال پہلےفوت ہوئی تھی اور اس کی اولادیں بھی مغرب میں سیٹ ہیں۔ واللہ عالم بالصواب
جنرل ایوب خان کے بارے میں نے چوہدری یٰسین مرحوم سے سنا تھا کہ تقسیم ہند کے وقت جو بائونڈری کمیشن بنا تھاپاکستان کی نمائندگی لیفٹیننٹ کرنل ایوب خان نے کی تھی۔ مبینہ طور پر گرداس پور انڈیا کو دےکر بھارت کی کشمیر میں مداخلت کو ممکن بنایا گیا اور قائد اعظم محمد علی جناح نے جنرل گریسی جو کہ اس وقت کمانڈر انچیف تھے، کو کہا کہ ایوب خان کو ملازمت سے برخاست کردیں مگر جنرل گریسی نے ایوب خان کو مشرقی پاکستان بھیج دیا۔ جب تک قائد اعظم زندہ رہے ایوب خان کو سامنے نہیں لایا گیا۔ چوہدری صاحب نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایوب خان کو جنرل گریسی نے دو بار ملازمت میں توسیع دی اور4 سینئر جرنیلوں کو مختلف طریقوں سے راستے سے ہٹا کر کمانڈر انچیف بننے کا راستہ ہموار ہوگیا۔ بد قسمتی سے لیاقت علی خان ابتدا میں امریکن کیمپ میں شامل ہو چکے تھے۔ انہوں نے روس کا دورہ منسوخ کردیا تھا۔ مگر بعد میں انہوں نے روس کی طرف رجوع کرنے کا سوچا تو انہیں امریکہ نے راستے سے ہٹوا دیا۔
پاکستان سرد جنگ کے زمانے میں امریکن کیمپ میں شامل ہوکر سینٹو اور سیٹو کے معاہدوں میں شامل ہو چکا تھا۔ جس کے بدلے ہمار ی مالی امداد ہوئی اور ساتھ ہی قرضہ کی بنیاد پر ہمار ی معیشت استوار کی گئی۔ آج بھی ہم خیرات اور قرض پر زندہ ہیں۔ بقول غالب
قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
خیرات اور قرض نے ہمیں اتنا عادی کردیا ہے کہ بقول غائب
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے شروع میں خوف وہراس اور دبدبہ کی وجہ سے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر ہوئی۔ بزرگ بتاتے تھے کہ کئی سال پہلے اغوا شدہ لڑکیاں واپس کر دی گئیں۔ گوشت کی دکانوں پر جالیاں لگائیں گئیں۔ لیکن یہ گرفت رفتہ رفتہ کمزور ہوتی گئی۔ ایوب کے دور میں مخالف سیاستدانوں کےلئے ابڈو کا قانون متعارف کرایا گیا۔ جس کے تحت تقریباً60 ہزار سیاسی کارکن کرپشن الزامات کی زد میں آئے اور ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ کے نام سے اپنی پارٹی بنائی۔ پھر1962 کا صدارتی آئین قوم پر مسلط کیا۔ جس کے تحت بلواسطہ انتخابات کا طریقے رائج کیا گیا اور80 ہزار بی ڈی ممبران کو حق رائے دہی دے کر صدر کا انتخاب کروایا گیا۔ اس آئین کے بارے میں ولی خان نے کہا تھا کہ یہ لائل پور کا گھنٹہ گھر ہے۔ جہاں سے دیکھو صدر ہی نظر آئے گا اور پرانے سیاستدانوں کی بجائے GhQمیں نئے سیاستدانو کی نرسری تیار کی گئی۔
ہندوستان کے ساتھ سندھ طاس کا معا ہدہ کر کے پنجاب کے دریائوں کو ہندوستان کے ہاتھوں بیچ دیا گیا اور معاہدے کی منظوری کابینہ سے لینے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔1965 کے انتخابات میں متحدہ اپوزیشن ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو میدان میں لے آئی۔ ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح پر غداری کے الزامات بھی لگائے۔ محترمہ فاطمہ جناح کو بنگال میں بے پناہ پذیرائی ملی۔ مغربی پاکستان میں کیونکہ زیادہ تر جاگیردار اور سردار تھے، جنہیں ایوب خان نے ضلعی انتظامیہ کے ذریعے قابو کیا۔ نافرمانی کرنے والوں کا آج کل کی اصطلاع میں سوفٹ ویئر اپڈیٹ کردیا گیا۔ پھر بھی جن لوگوں نے فاطمہ جناح کی حمایت نہ چھوڑی۔ نہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ مرحوم چوہدری یٰسین صاحب نے ہی بتایا تھا کہ کس طرح میر بلخ شیر مزاری کے قریبی عزیز عاشق مزاری کو سیکرٹری انڈسٹریزبنا کر میر بلخ شیر مزاری کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا اور ایک مولوی عبداللہ کو اسلام آباد میں مدرسہ بنا کر دیا جو بعد میں لال مسجد کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ دو پاور سنٹر میر بلخ شیر مزاری کی طاقت کو کمزور کرنے کےلئے بنائے گئے۔ یہی لال مسجد افغان جہاد میں مجاہدین کا مرکز بنی اور پھر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں تراشی لال مسجد مولوی عبدالعزیز کی سرکردگی میں ٹی ٹی پی کی آماجگاہ بن کر اپنے خالقوں کے گلے پڑ گئی۔ جس طرح الطاف حسین، لشکر جھنگوی اور اب عمران خان گلے پڑے ہیں۔ خیر میں پھر موضوع سے بھٹک گیا ہوں۔ 1965 کے انتخابات دھاندلی کے زور پر ایوب خان جیت گئے مگر پاکستانیوں اور خاص کر بنگالیوں میں اپنی حیثیت کھو بیٹھے۔ اس سے پہلے امریکی محبت میں پشاور میں امریکی جاسوسی اڈا قائم کر کے روس کی نظروں میں اپنا مقام گرا چکے تھے جب1965 کی جنگ میں امریکہ نے کوئی مدد نہ کی تو آخر روس نے پاکستان اور ہندوستان میں جنگ بندی کروائی اور پھر تاشقند معاہدہ کرایا۔ معاہدہ تاشقند کو ذوالفقار علی بھٹو نے جو کہ ایوب خان کے وزیر خارجہ تھے نے بنیاد بنا کر ایوب خان کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔( جاری ہے)