آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

قیام پاکستان سے تقسیم پاکستان تک(قسط نمبر2)

(روداد) تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری

قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی تھیں۔ سب سے پہلے قرار داد لاہور جسے قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ جو کہ 1940 میں لاہور میں منظور ہوئی تھی، کو پیش کرنے والے مشرقی پاکستان کے رہنما مولوی اے کے فضل حق تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ چھوڑ کر جگتو فرنٹ بنالیا اس بنیاد پر اس کی حکومت نے اسے غدار کہنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی قومی زبان اردو کے مقابلے میں بنگالی زبان کو بھی قومی زبان قراردینے کی مہم مشرقی پاکستان میں شروع ہوچکی تھی۔ جسے قائد اعظم نے مسترد کر دیا کہ ایک ہی قومی زبان ہوگی اور وہ اردو ہوگی۔ پھر لیاقت علی خان، محمد علی بوگرہ نے بھی یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا اور 1953 میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگالی زبان کے حق میں نکالے جانے والے جلوس پر فائرنگ ہوئی اور بہت سے طلبہ مارے گئے ۔ جنہیں بنگالی شہید کہتے ہیں اور اس دن کو اب پوری دنیا میں زبان کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔لیاقت علی خان صاحب نے 1947 کے بعد ہی یوپی اور سی پی کے صوبوں سے مہاجرین کی کراچی آمد کی حوصلہ افزائی کی کیونکہ انہیں حلقہ انتخاب چاہئے تھا مگر گنگا جمنا تہذیب کا پس منظر رکھنے والے مہاجرین سے سندھی مہاجر مسئلہ نے جنم لیا۔ وہی سندھی جنہوں نے1947 میں مہاجرین کو گلے لگایا تھا اور ان کی ہر طرح سے مدد کی تھی۔ وہ اپنے سندھی ثقافتی اور تہذیبی ورثے کے بارے میں فکر مند ہونے لگے ۔ لیاقت علی کی شہادت کے بعد ہی بروقت آئین سازی نہ ہونے کی وجہ سے اقتدار کا میوزیکل چیئر والا کھیل شروع ہوگیا۔ جس میں سول اور ملٹری بیورو کریسی نے درپردہ رہ کر سیاستدانوں کو پتلی تماشا بنا دیا۔ گورنر جنرل غلام محمد جو کہ بیورکریٹ تھے نے ملکہ برطانیہ کے نمائندہ کی حیثیت سے اسمبلی کو توڑ دیا اور مولوی تمیز الدین اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی کی رٹ پٹیشن پر جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کر کے اس عمل کو درست قرار دےدیا۔1953 میں پنجاب میں الیکشن کروائے گئے جسے جھرلو الیکشن کہا جاتا ہے۔ ان انتخابات میں نوابزادہ نصر اللہ خان بھی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت ہندوستان کاآئین بھی بن گیا تھا جو کہ اچھوت بھیم رائو رام جی امبیڈکرکا بہت بڑا کردار تھا اور ساتھ ہی ہندوستان میں زرعی اصلاحات بھی ہو گئیں تھیں۔ میں دو واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو میں نے میاں لطیف جو میرے پی ٹی استاد تھے جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں، سے سنے تھے۔ پھر چوہدری یٰسین مرحوم جو کہ ریٹائرڈ ریونیو آفیسر تھے، سے بھی تفصیل کے ساتھ سنے۔ جب مسلم لیگ میں ترقی پسند گروپ نے ہندوستان کی طرح زرعی اصلاحات پر زور دینا شروع کیا تو پنجاب اسمبلی میں انجمن تحفظ جاگیرداران وجود میں آئی۔ جس کے صدر نوبہار شاہ جو کہ فخر امام شاہ کے چچا تھے، بنائے گئے اور نوابزادہ نصر اللہ خان جنرل سیکرٹری تھے۔ نوبہار شاہ کا قد چھوٹا تھا۔اس نے پگڑی( کلہ ) کو چھڑی میں اٹھا کر کہا تھا کہ کون ہماری جاگیریں چھین سکتا ہے۔ اس طرح وزیراعظم فیروزخان نون نے جاگیرداروں کی میٹنگ بلوائی کہ زرعی اصلاحات کو کیسے روکا جا ئےتو وہاں فیصلہ ہوا کہ فوجی جرنیلوں کو زمینیں الاٹ کر دی جائیں۔ اس طرح غلام محمد بیراج کی زمینوں میں سے دس مربعے جنرل ایوب خان ، اعظم خان، موسیٰ خان اور دوسرے جرنیلوں کو الاٹ کر دی گئیں اور پھر بیورو کریٹ کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ اس طرح انہیں بھی زرعی زمینیں الاٹ ہوئیں۔ جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں۔ جنرل ایوب خان ہر حکومت میں کمانڈر انچیف کے ساتھ وزیر دفاع بھی ہوتے تھے۔ سول بیورو کریسی سے طاقت ملٹری بیورو کریسی کی طرف منتقل ہو تی گئی ۔ مسلم لیگ ایک ہی رات میں ری پبلیکن پارٹی بن کر عبدالغفار جسے غدار کہا جاتا تھا، کےبھائی ڈاکٹر خان کی بیعت ہو گئی ۔ ایوب کھوڑو وزیر اعلیٰ سندھ کو کرپشن کے الزامات لگا کر (PRADA)پراڈاایکٹ کے تحت نا اہل قرار دے دیاگیا ۔ جس پر لیاقت علی خان صاحب ناراض تھے۔ پھرایوب کھوڑو کو صلح کے بعد دوبارہ وزیراعلیٰ سندھ بنایا گیا۔ جلدی جلدی بنتی ٹوٹتی حکومتوں کے بارے میں وزیراعظم ہندوستان پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ اتنی جلدی تو میں دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں وزیراعظم بدل جاتا ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد کو جس ذلت آمیز طریقے سے ایوب خان نے مستعفی کرایا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ چوہدری محمد علی پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے پہلا آئین بنایا جسے1956 کا آئین کہتے ہیں۔ جس میں ون یونٹ یعنی بلوچستان، سندھ، پنجاب اور سرحد کو مغربی پاکستان کا نام دیا اور پیرٹی کا اصول بنا کر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کر دیا گیا۔ ابھی آئین مکمل نہیں ہوا تھا کہ صدر پاکستان سکندر مرزا(یاد رہے کہ سکندر مرزا غدار بنگال میر جعفر کے پڑپوتے تھے) نے مارشل لا لگا دیا اورآخر کار جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو معزول کرکے لندن بھیج دیا اور پس پردہ کھلاڑی اب اقتدار کی کرسی پرظاہری طور پر بھی براجمان ہوگئے اور ووٹ کی طاقت سے بننے والا ملک آمریت کے بوٹ کے نیچے دبا دیا گیا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں