آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

قیامت کا اُدھار

روداد زندگی) ڈاکٹر ظفر چوہدریِ)

آج صبح ڈاکٹر اشفاق جسکانی صاحب نے قیامت کے ادھار کے متعلق دوبارہ یاد دہانی کرائی۔ کیونکہ میں 1973ء تک پہنچا ہوں اس بارے میں لکھنا چاہیے۔ ہمارے بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں فقیر اور پھیری لگا کر سودا بیچنے والے اور مسافر بسوں اور ٹرینوں میں بھیک مانگنے اور سودا بیچنے والے اکثر بڑے ذہین لوگ ہوتے تھے۔ سٹیج کے بہت بڑے فنکار امان اللہ خان مرحوم نے سٹیج ڈراموں میں ان کے بارے میں اکثر اپنی اداکاری کے ذریعے بتایا کرتے تھے اور اداکاری کے شعبہ میں آنے سے پہلے امان اللہ خان صاحب کے بقول وہ خود بھی بسوں میں سامان فروخت کیا کرتے تھے۔ کچھ فقیر سُر میں گا کر یا سارنگی وغیرہ پر دھن بجا کر بھی گلی محلوں سے خیرات کی صورت میں داد پاتے تھے۔ بھانڈوں کا میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں جنہیں نقلیئے بھی کہا جاتا تھا کیونکہ کسی کی نقل اتارنے میں ماہر ہوتے تھے۔ یہ سب لوگ بہت حاضر جواب اور بذلہ سنج ہوتے تھے اور موقع کی مناسبت سے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ بندر، ریچھ کا تماشا کرنے والے اور پہروپیوں کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں اب ایسے لوگ آپ کو گلی محلوں اور بازاروں میں نظر نہیں آتے۔ ان میں سے کچھ فنکاروں کی شکل میں ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں یا ریڈیو اور سوشل میڈیا کی زینت بن گئے ہیں۔ بچپن اور لڑکپن میں ہمارے قصبہ میں ایک سارنگی نواز فقیر آیا کرتا تھا وہ سارنگی بجانے کے ساتھ کہانی بھی سر میں سنایا کرتا تھا مجھے سمجھ میں زیادہ نہیں آتی تھی شاید ہریانوی زبان میں راجپوتوں کی بہادری کے قصے ہوتے تھے اور قصبہ آباد راجپوت خاندان اسے زیادہ تر خیرات میں آٹا چاول وغیرہ دیا کرتے تھے۔ 1965ء میں اپنے ماموں کی بارات میں شورکوٹ گیا تھا۔ میں ماموں کا سبھالا بھی تھا۔ ہمارے ہاں اکثر دولہے کا سبھالا بہن کے بڑے بیٹے کو بنایا جاتا ہے۔ ملتان سے شورکوٹ تک ٹرین میں سفر کیا تو ڈبہ میں ایک فقیر آیا تو اس نے بلندر آواز لگائی آج کے دور کا سب سے سستا فقیر ایک پیسہ، ایک پیسہ اس آواز پے اکثر مسافروں نے ایک پیسہ، آنا جو کھلے پیسے تھے اسے دیئے میرے نانا جان نےاُسے ایک روپیہ دیا اور وہ بہت سی دعائیں دیتا ہوا ڈبے سے چلا گیا۔ آج کی نسل نے پیسہ چار آنے جسے چونی بھی کہتے ہیں اور آٹھ آنا جسے اٹھنی کہتے ہیں ایک آنہ نہیں دیکھے یہ آج کل صرف کراچی میں ملتے ہیں یا پھر پٹرول پمپ کی سکرین پر دیکھ سکتے ہیں مگر بقایا نہیں ملتا۔ اس دور میں پل چناب پر ریل اوردوسری ٹریفک ایک ہی پل سے گذرا کرتی تھی آج کل اس پل سے صرف ٹرین گذرتی ہے دوسرا پل پہلی دفعہ بھٹو دور میں 1974ء میں بنا تھا۔ بعد میں اس میں توسیع کی گئی۔ 1974ء سے پہلے جب ٹرین گذرتی تھی دونوں طرف بسیں اور ٹریک وغیرہ رُک جاتے تھے اور یہ وقفہ اکثر ایک گھنٹہ سے زیادہ بھی ہو جاتا تھا۔ پل چناب پر شمیم حیدر قریشی حیدر منجن کے نام سے دانتوں کا منجن فروخت کیا کرتا تھا۔ وہ اعلی پائے کا مقرر اور انسانی نفسیات کا ماہر تھا۔ اکثر ابتداء اپنے تعارف سے کرتا پھر وہ منجن کی خوبیاں بیان کرتا۔ اس کے بعد مختلف شخصیات جن میں ملکی اور غیر ملکی شخصیات شامل ہوتیں۔ اُن کے تعریفی سرٹیفکیٹ دکھاتا اور آخر میں کہتا کہ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو آپ قیامت کے اُدھار پر لے جائیں اگر آپ کو فائدہ ہو تو پیسے دے جائیں اگر نہ ہو تو نہ دیں اگر آپ کو فائدہ ہوا اور پیسے نہ دیئے تو میں قیامت کے دن وصول کر لونگا اس کا انداز گفتگو متاثرکن ہوتا تھا میں اکثر اسے بڑے غور سے سنا کرتا تھا لیکن کبھی منجن نہیں خریدا یا قیامت کے اُدھار پر لیا تھا جو لوگ قیامت کے ادھار پر لے جاتے تھے اکثریت دوبارہ ملنے پر اسے پیسے دے دیتے تھے اس کی نظر ہر سواری پر ہوتی تھی۔ مجھے کئی بار اس نے کہا کہ برخوردار تم بہت توجہ سے میری باتیں سنتے ہو مگر کبھی منجن نہیں لیا ایک بار اس نے منجن یہ کہہ کر دیا یہ میری سے تحفہ ہے۔ سچ پوچھیں تو اسکے فن تقریری کی وجہ سے مجھ میں بھی مباحثوں میں حصہ لینے کا حوصلہ ہوا حالانکہ دسویں جماعت میں زندگی کو ’’جندگی‘‘ کہنے کا واقعہ پہلے ہی لکھ چکا ہوں آپ ایسے لوگ نظر نہیں آتے۔ گذشتہ پچاس سالوں کے اخلاقی اور معاشرتی زوال کی وجہ سے قناعت اور شکر گزاری کی جگہ ہوس زر نے لے لی ہے ہماری حکمران اشرافیہ قیامت کے اُدھار کے خواب دکھا کر اپنا اُلو سیدھا کرنے میں مصروف عمل ہیں

شیئر کریں

:مزید خبریں