آج کی تاریخ

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا محب وطن جذبہ اور معیشت کا استحکام

قومی جمہوریت ۔راہ حق اور ضرورت

پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک رنگا رنگ موسموں کا مجموعہ ہے جہاں ہر آنے والے دن نے نئے سوالات اور چیلنجز پیش کیے ہیں ۔ جمہوریت ہمارے ملک کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کی بقاء اور ترقی کی امید بھی۔ ماضی میں جو ہوتا رہا اس پر اس زمانے کے بڑے قد کاٹھ کے جمہوریت پسند سیاست دانوں نے جو تبصرے اور تجزیے کیے وہ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں – آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان کے نوجوانوں میں ہی نہیں بلکہ ملک کے اکثر و بیشتر حصّوں میں مہم جوئی اور تشدد کو ایک ناگزیر راستے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے میں اگر ہمیں بابائے مذاکرات کہلانے والے میر غوث بزنجو کی یاد شدت سے آئے تر یہ حیران کن بات نہیں ہوگی۔
مہم جوئی اور تشدد کا رجحان غیر سیاسی ہے
میں تشدد کی سیاست کے خلاف تھا- تشدد کی وجہ سے ہمیں نقصان اٹھانا پڑا- انتہا پسندی کی بجائے راستے تلاش کیے جائیں-مذاکرات کے لیے ہمیشہ تیار رہا جائے-
میر غوث بخش بزنجو کی آخری وصیت
1977ء میں بھی میر صاحب کا یہی رویہ تھا – وہ بھٹو کی مخالفت کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے پی این اے کو متنبہ کیا تھا کہ پہلے متبادل ڈھونڈو – ان کو اندازہ تھا کہ اگر متبادل تلاش نہ کیا گیا تو مارشل لاء آ جائے گا “-(ہفت روزہ میگ کراچی ، بزنجو صاحب کا آخری نا مکمل انٹرویو )
وفاقی حکومت نے بلوچستان کے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی تھی اور بلوچستان کے لوگوں کو نا قابل برداشت حد تک تنگ کیا گیا تھا اور ان کو اپنی عزت و آبرو،مال و جان کی حفاظت کے لیے مجبور کیا وہ ھتیار اٹھائیں اور بلوچستان کے لوگوں کی اس ناگزیر صورت حال کو وفاقی حکومت نے پاکستانی عوام اور دنیا کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کیا تاکہ وہ اپنے اس غیر آئینی اور غیر جمہوری عمل کو جو اس نے بلوچستان کی آئینی حکومت کو برطرف کرنے کے لیے کیا تھا درست ثابت کرے- بزنجو سپریم کورٹ میں بیان 1975ء]”
میر غوث بخش بزنجو کی زندگی اور سیاسی فکر ہمیں ایک اہم درس دیتی ہے کہ جمہوریت کے راستے میں مہم جوئی اور تشدد جیسی رکاوٹوں سے گریز کرنا چاہیے۔
جمہوریت کا مطلب صرف انتخابات کا انعقاد نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو شہریوں کی بنیادی حقوق کی ضمانت دے، انہیں شمولیت کا موقع فراہم کرے اور ایک خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھے۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں جمہوری عمل کئی بار رکاوٹوں کا شکار ہوا ہے جیسے کہ 1977ء میں جب بزنجو صاحب نے متبادل کی تلاش کی ضرورت پر زور دیا تھا تاکہ مارشل لاء کی راہ روکی جا سکے۔
پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل ان چیلنجز سے عبارت ہے جو ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے سامنے آتے ہیں۔ بزنجو صاحب کی تعلیمات اور مشورے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ تشدد اور مہم جوئی کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے اور مذاکراتی عمل کو فروغ دینا چاہیے۔
بزنجو صاحب کے بیانات میں فوجی جنتا کے ذریعے جمہوریت پر کیے جانے والے ظلم کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ماضی اور حکال میں اسٹبلشمنٹ کے نامزد کردہ وزراء اور اداروں کے سربراہان پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے کا واضح ثبوت ہیں۔ اس حقیقت کو بیان کرنا ضروری ہے کہ جمہوریت کے بغیر پاکستان کی ترقی کا سفر ناممکن ہے۔
ہمیں ایک ایسی جمہوریت کی طرف بڑھنا ہوگا جو نہ صرف نام کی ہو بلکہ اس کی روح بھی جمہوری ہو۔ پاکستان کے عوام کو جمہوری عمل میں فعال شراکت دار بننے کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں اور عوام کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور اعتماد کی فضا قائم کرنا اس جمہوری عمل کی کامیابی کے لیے انتہائی اہم ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد ایک طویل سفر ہے جو صرف انتخابات تک محدود نہیں۔ ہمیں اپنی قومی جمہوریت کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرنی ہوگی جہاں ہر فرد کو اپنے حقوق کا احساس ہو اور وہ ان کے تحفظ کے لیے بھرپور کردار ادا کر سکے۔ جمہوریت کی حقیقی روح کو فروغ دینا ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں ظلم، جبر اور بے انصافی کے دور سے نکال کر ایک روشن اور پرامن مستقبل کی جانب لے جا سکتا ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا محب وطن جذبہ اور معیشت کا استحکام

پاکستانی معیشت جس پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہے، اس میں ترسیلات زر ایک روشنی کی کرن کی طرح ہے جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے محب وطن جذبے کی علامت ہے۔ اپریل 2024ء کے دوران، 2.8 ارب ڈالر کی زبردست رقم کی ترسیل نے نہ صرف معیشت کو سہارا دیا بلکہ یہ بھی ظاہر کیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی وطن کے ساتھ وابستگی کتنی مضبوط ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، اپریل 2024ء میں ترسیلات زر میں 27.9 فیصد کا حیران کن اضافہ ہوا، جو کہ پاکستانی معیشت کے لیے ایک مثبت علامت ہے۔
ترسیلات زر، پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن چکی ہیں۔ رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں 23.8 ارب ڈالر موصول ہوئے، جو کہ پچھلے سال کی اسی مدت سے 3.5 فیصد زیادہ ہے۔ یہ رقم نہ صرف خاندانوں کی معاشی مدد کرتی ہے بلکہ قومی زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی بڑھاتی ہے، جو کہ انتہائی ضروری ہے۔
اہم ترین ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، اور ریاستہائے متحدہ امریکہ سے موصول ہونے والی ترسیلات نے پاکستانی معیشت میں استحکام پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے اپنے خاندانوں کو مالی تعاون فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کو مضبوط بنانے میں بھی مدد کی ہے۔
یہ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان ان ترسیلات زر کو موثر انداز میں استعمال کرے تاکہ ملکی معیشت میں زیادہ سے زیادہ مثبت اثرات مرتب ہو سکیں۔ نیز، حکومت کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے مزید سہولیات فراہم کرنے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے جدید ترین حل تلاش کرنے چاہییں تاکہ وہ اپنے وطن کی مدد کرتے رہیں۔
پاکستان کی معیشت کو مستحکم بنانے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ان کی قربانیوں اور جذبے کی قدر کریں اور انہیں معاشی ترقی کے عمل میں ایک موثر شریک کے طور پر دیکھیں۔ پاکستان کو اپنے تارکین وطن کی محبت اور مدد کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم ایک روشن اور مستحکم مستقبل کی جانب بڑھ سکیں۔

قومی ہاکی ٹیم : ایک نئی امید کا آغاز

پاکستانی ہاکی ٹیم نے ازلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں اپنی شاندار کارکردگی سے نہ صرف قوم کا سر فخر سے بلند کیا ہے بلکہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی ہاکی کا سنہرا دور واپس آ سکتا ہے۔ ملائیشیا کے شہر ایپوہ میں کھیلے گئے اس ٹورنامنٹ میں پاکستان نے اپنا پانچواں میچ نیوزی لینڈ کے خلاف برابری پر ختم کیا اور ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہا۔
اس میچ کے نتیجے نے پاکستان کو 11 نکات کے ساتھ پوائنٹس ٹیبل پر دوسرے نمبر پر برقرار رکھا، جبکہ جاپان 13 نکات کے ساتھ سرفہرست ہے۔ ابو بکر کی پینلٹی کارنر پر کی گئی گول نے میچ کو 1-1 سے برابر کر دیا، جس سے پاکستان کی ٹیم کی مورال بلند ہوئی اور ان کی محنت کا صلہ ملا۔
پاکستان اور جاپان کی ٹیمیں فائنل میں مدمقابل آئیں گی، جو کہ ایک تاریخی موقع ہوگا۔ پاکستان نے اس ٹورنامنٹ میں ملائشیا، جنوبی کوریا اور کینیڈا کے خلاف جیت حاصل کی اور جاپان کے ساتھ میچ برابر رہا، جو کہ پاکستانی ہاکی کی مضبوطی اور تسلسل کی عکاسی کرتا ہے۔
روئیلنٹ اولٹمنس کی کوچنگ میں ٹیم کی بہتری اور ان کی توقعات کے مطابق پرفارمنس ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ اولٹمنس کا پاکستانی ہاکی کے لیے دیرینہ عزم اور ان کی حکمت عملی نے ٹیم کو نئی طاقت اور اعتماد بخشا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے ہاکی کے کھلاڑیوں اور کھیل کی ترقی کے لیے بڑھایا جانے والا ہاتھ بھی قابل تعریف ہے۔ وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ اوروزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری حکومت کھیلوں کی ترقی اور کھلاڑیوں کے مفادات کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
فائنل میچ کا بیرون ملک نشر ہونا اور پوری قوم کا اس ٹیم کے لیے دعا گو ہونا پاکستانی ہاکی کے لیے ایک نئے دور کی نوید ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستانی ہاکی ٹیم نہ صرف ازلان شاہ کپ جیت کر واپس آئے گی بلکہ یہ فتح ہماری قومی کھیل کے لیے ایک نئے سنہرے دور کا آغاز بھی کرے گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں