قائداعظم محمد علی جناح نے 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کا خواب دیکھا تھا جس میں انصاف، مساوات، اور خوشحالی ہو۔ ان کا خواب تھا کہ پاکستان میں ہر فرد کو آزادی، عزت، اور برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ تاہم، افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ پاکستان میں قائداعظم کے خواب کا عکس نظر آنا تو دور، بلکہ معاشرتی مسائل اور چیلنجز کی بنا پر پاکستان میں وہ مثالی معاشرہ قائم نہیں ہو سکا جس کی توقع قائداعظم نے کی تھی۔ اس مضمون میں ہم قائداعظم کے خواب اور موجودہ پاکستان کی معاشرتی حقیقت کا تقابلی جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ قائداعظم کے خواب کا پاکستان حقیقتاً کہاں کھڑا ہے۔
قائداعظم کا وژن پاکستان کے بارے میں بہت واضح تھا۔ وہ ایک ایسا ملک چاہتے تھے جہاں ہر فرد کو اپنی زندگی گزارنے کے مواقع برابر ملیں اور جہاں سماجی انصاف اور اقتصادی مساوات کی بنیاد پر ایک مستحکم معاشرہ تشکیل پائے۔ انہوں نے بار بار اس بات کا ذکر کیا کہ پاکستان میں تعلیم، صحت اور بنیادی حقوق کے حوالے سے ایک نیا دور شروع کیا جائے گا۔
قائداعظم کا ایک مشہور قول ہے’’پاکستان کا مقصد مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسا ملک بنانا تھا جہاں تمام اقلیتوں کو ان کے حقوق دیے جائیں اور ہر شخص کو آزادی، انصاف اور برابری حاصل ہو‘‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا’’ہمارا مقصد پاکستان میں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں ہر فرد کو معاشی انصاف، تعلیمی مواقع، اور بہتر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو‘‘۔
اگر ہم قائداعظم کے خواب اور موجودہ پاکستان کی معاشرتی صورتحال کا تقابلی جائزہ لیں تو ہمیں کئی اہم پہلو ملتے ہیں جو اس بات کا غماز ہیں کہ قائداعظم کا خواب آج تک پورا نہیں ہو سکا۔
قائداعظم کا خواب تھا کہ پاکستان میں غریب اور امیر کے درمیان فرق ختم ہواور ہر شخص کو زندگی گزارنے کے یکساں مواقع ملیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں معاشی ناہمواری مسلسل بڑھ رہی ہے۔پاکستان کی ایک بڑی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب طبقے کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
پاکستان میں قیمتوں کا اتار چڑھاؤ اور مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو گئی ہے، جس کے باعث متوسط طبقہ بھی شدید معاشی پریشانیوں کا شکار ہے۔
قائداعظم نے معاشی ترقی کے لئے ایسی پالیسیاں اپنانے کی بات کی تھی جس سے لوگوں کو روزگار اور ترقی کے مساوی مواقع ملیں، لیکن حقیقت میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے اور روزگار کے مواقع محدود ہیں۔یہ وہ پہلو ہیں جن پر قائداعظم کے خواب کے مطابق کام نہیں ہو سکا اور جہاں پاکستان آج بھی اپنے مقاصد سے بہت پیچھے ہے۔
قائداعظم نے تعلیم کو ملک کی ترقی کے لئے ایک اہم ستون قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تعلیمی معیار میں فرق کو ختم کرنا ہوگا تاکہ ہر پاکستانی بچے کو تعلیم کے برابر مواقع مل سکیں۔ تاہم موجودہ پاکستان میں تعلیمی نظام کئی سطحوں پر مسائل کا شکار ہے۔
پاکستان میں تعلیم کا معیار صوبوں اور شہروں کے حساب سے مختلف ہے۔ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولتیں انتہائی محدود ہیں، جبکہ شہری علاقوں میں تعلیمی اداروں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود معیار میں فرق واضح ہے۔
قائداعظم چاہتے تھے کہ ہر بچے کو یکساں تعلیمی مواقع ملیں، لیکن آج بھی پاکستان میں تعلیم تک رسائی ایک بڑی چیلنج بنی ہوئی ہے۔ غریب خاندانوں کے بچے تعلیم سے محروم ہیں، جبکہ امیر طبقہ بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی اور تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، جس کے باعث طالب علموں کا تعلیمی معیار کم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں تعلیمی بحران کے اثرات مستقبل کے لئے خطرات کا سبب بن سکتے ہیں۔
قائداعظم کا خواب تھا کہ پاکستان میں صحت کے نظام کو مضبوط بنایا جائے تاکہ ہر پاکستانی کو معیاری علاج کی سہولت حاصل ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا صحت کا نظام آج بھی انتہائی کمزور ہے۔
پاکستان میں صحت کے اداروں کی کمیابی اور معیار کی کمی نے عوام کی صحت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ دیہی علاقوں میں صحت کے اداروں کی تعداد بہت کم ہے، اور اگر کوئی ہسپتال یا کلینک موجود ہے تو وہاں سہولتوں کا فقدان ہوتا ہے۔
بڑے شہروں میں بھی عوام کو معیاری علاج کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ حکومت کی طرف سے صحت کی سہولتوں کی فراہمی میں بھی بہت بڑی کمی ہے، جس کا اثر عوام کی عمومی صحت پر پڑتا ہے۔صحت کے مسائل کے باعث غریب طبقہ علاج کے لئے مختلف مشکلات کا سامنا کرتا ہے اور بہت سے افراد علاج نہ ہونے کے سبب اپنی زندگی گنواتے ہیں۔
قائداعظم نے ہمیشہ انصاف اور قانون کی حکمرانی کی بات کی تھی، اور ان کا خواب تھا کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہو اور ہر شہری کو انصاف ملے۔ تاہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی آج بھی ایک چیلنج ہے۔
پاکستان میں رشوت اور بدعنوانی کے مسائل نے نظام عدلیہ کو متاثر کیا ہے۔ عوام انصاف کے لئے عدالتوں کے دروازے تک پہنچنے کے باوجود مقدمات کا طویل عرصے تک فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہیں۔
پاکستان کی عدالتوں پر حکومت اور سیاسی اثرات غالب ہیں، جس کے باعث عدلیہ کی آزادی میں کمی آئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے عدلیہ پر اثرانداز ہونے کی کوششوں نے انصاف کے عمل کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
قائداعظم کا خواب تھا کہ پاکستان میں ایک مضبوط اور انصاف پر مبنی قانونی اور انتظامی نظام قائم ہو گا، جو عوام کی خدمت کرے گا اور بدعنوانی کا خاتمہ کرے گا۔ تاہم موجودہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے بجائے طاقتور افراد اور ادارے اکثر قانون کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کے انتظامی اور عدالتی نظام میں بنیادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے عوام کو انصاف میں تاخیر اور بدعنوانی کا سامنا ہے۔ عدلیہ میں تاخیر کے باعث مقدمات کئی سال تک چلتے ہیں اور عوام کی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد کم ہو گیا ہے، جو کہ قائداعظم کے خواب کے برعکس ہے۔
قائداعظم نے تعلیم اور صحت کو قومی ترقی کے لئے کلیدی حیثیت دی تھی اور ان شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں آج بھی تعلیمی اور صحت کے بنیادی مسائل حل نہیں ہو سکے۔ تعلیمی اداروں کی کمی، معیار کی کمی اور عدم مساوات کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ یہی حال صحت کے شعبے کا ہے، جہاں نہ صرف سہولتوں کی کمی ہے، بلکہ صحت کی بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی عوام کے لیے ایک خواب بن چکی ہے۔ غریب عوام کو معیاری علاج کی سہولت نہیں ملتی اور دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کی سہولتیں ناپید ہیں۔ قائداعظم نے جن اصلاحات کی بات کی تھی، وہ آج تک عملی طور پر نافذ نہیں ہو سکیں۔
قائداعظم کا یہ عزم تھا کہ پاکستان میں طبقاتی تفریق کو ختم کیا جائے گا اور تمام شہریوں کو برابر کے حقوق اور مواقع ملیں گے۔ لیکن پاکستان میں آج بھی طبقاتی فرق واضح طور پر نظر آتا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق اتنا بڑھ چکا ہے کہ معاشرتی استحصال اور محرومیوں کی کھائی اور گہری ہو چکی ہے۔ بڑے شہروں میں چند افراد کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، جبکہ غریب طبقہ بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہے۔
قائداعظم کا خواب تھا کہ ہر شہری کو برابر کے حقوق ملیں گے اور طبقاتی تفریق کا خاتمہ ہو گا، لیکن پاکستان میں یہ مسائل آج بھی حل طلب ہیں، جس کی وجہ سے معاشرتی ہم آہنگی اور اتحاد میں کمی آئی ہے۔
قائداعظم کا خواب ایک ایسا پاکستان تھا جہاں معاشرتی انصاف، مساوات اور خوشحالی ہو اور جہاں ہر فرد کو اپنے حقوق اور آزادی ملیں۔ مگر موجودہ پاکستان میں معاشرتی مسائل کا حل ابھی تک نظر نہیں آ سکا۔ غربت، تعلیمی عدم مساوات، صحت کی سہولتوں کی کمی اور انصاف کی عدم دستیابی قائداعظم کے خواب سے دوری کا غماز ہیں۔ پاکستان کے عوام اور حکمرانوں کو اس خواب کی تکمیل کے لئے قائداعظم کے اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان ایک حقیقی فلاحی ریاست بن سکے جہاں ہر فرد کو اس کی ضروریات کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع ملیں۔
