آج کی تاریخ

کاروباری تعویز

فیملیسائیڈ (Familicide)

تحریر:غلام دستگیر ( دست بدست )

آپ ملتان میں چونگی نمبر 9 سے کچہری چوک کی طرف آئیں تو پہلا چوک چونگی نمبر 8آتا ہے ۔چوک عبور کرتے ہی نظر تھوڑا اوپر اٹھائیں تو فلائی اوور کے ستون پر موٹے موٹے حروف میں لکھا ہوا نظر آتا ہے ’’آخری آرام گاہ۔طارق نعیم اللہ‘‘ روز اس سڑک سے لاکھوں لوگ گزرتے ہیں اور ہزاروں کی نظر ضرور اس عبارت پر پڑتی ہوگی ۔دفتر آنے کیلئےمیں بھی یہی راستہ اختیار کرتا ہوں اور روز یہ عبارت پڑھ پڑھ کر ازبر ہو گئی ہے۔
طارق نعیم اللہ پپو مرحوم کی شخصیت ملتان کے باسیوں کیلئے کسی تعارف کی محتاج نہیں،یہ کون جانتا تھا کہ ’’آخری آرام گاہ۔ طارق نعیم اللہ‘‘ کی عبارت اب اپنے اندر ان کے جگر گوشے معروف طارق خان، بہو اور پوتے پوتی کو بھی اپنے اندر سمو لے گی، ان کا جانشین بیوی بچوں سمیت اسی قبرستان میں ان کے پہلو نشین ہو جائے گا۔شہربھرمیں اپنی خدمات کےباعث ’’معروف‘‘طارق نعیم اللہ مرحوم کی روح اپنے بیٹے ’’معروف‘‘ کی حرکت پرتڑپ اٹھی ہوگی۔
21ویں صدی اپنے اندر گہما گہمی لے کر شروع ہوئی۔ 9/11 کے واقعہ کے بعد عالمی منظر نامہ بدل گیا۔اس کے ساتھ ساتھ ادھر پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کا دور اقتدار جاری تھا۔ان دنوں ملتان کی عوامی، سماجی شخصیت طارق نعیم اللہ جنہیں پیار سے’’ پپو‘‘ بھی کہا جاتا تھا، وہ شہر کے سیاسی،سماجی ،عوامی منظر نامے پر چھائے ہوئے تھے۔ شہر میں جس جگہ کوئی مسئلہ یا احتجاج ہوتا تو طارق نعیم اللہ متاثرین کے دفاع میں اگلے محاذ پر کھڑے ہوتے اور بھرپور طریقے سے ساتھ دے کر طاقتور لوگوں اور طاقتور حلقوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیتے۔ ان کے اسی وصف کی وجہ سے ملتان کے سیاسی،سماجی عوامی اور مذہبی حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل تھی۔ طارق نعیم اللہ دنیا سے رخصت ہو گئے مگر ان کی یادیں آج بھی زندہ ہیں مگر پانچ دسمبر 2024 کو ایک افسوس ناک واقعے نے ان کے چاہنے والوں کے غم کو پھر سے تازہ کر دیا اور پورا شہر سوگ میں ڈوب گیا۔
ڈی ایچ اے کے باہر کھڑی سفید کار میں سے اچانک فائرنگ کی آواز اتی ہے۔علاقے میں بھگدڑ مچ جاتی ہے اور اطلاع پر پولیس اور ریسکیو1122 موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر دیکھا جاتا ہے تو اندر سے ایک بچہ اور ایک بچی مردہ حالت جبکہ مرد اور خاتون زخمی حالت میں ملتے ہیں جنہیں نشتر لے جایا جاتا ہے مگر وہ دونوں بھی وہاں جا کر دم توڑ جاتے ہیں، یہ چاروں افراد کوئی اور نہیں، طارق نعیم اللہ مرحوم کے بیٹے معروف طارق خان،ان کی بیوی ڈاکٹر اقرااور ان کے معصوم بچے عالیان اور آریان تھے۔ خبر پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ واقعے کی ممکنہ وجوہات کے بارے میں میڈیا،سوشل میڈیا اور تفتیشی ذرائع سے مختلف اطلاعات سامنے آنے لگیں۔
کہا یہ جاتا ہے کہ معروف طارق خان کئی سال سے آئس نشے اور مالی مشکلات کا شکار تھے۔ ان کے والد طارق نعیم اللہ نے اپنی زندگی میں انہیں کئی کاروبار کرا کر دیئے مگر چل نہ سکے۔ گھر کے اخراجات ان کی بیوی ڈاکٹر اقرااٹھا رہی تھیں۔ کہا جاتا ہے معروف طارق خان نے بھائی کا قرض بھی دینا تھا جس کیلئے انہوں نے بیوی کے زیور بڑے بھائی کے حوالے کر د یئے جس پر میاں بیوی میں تنازع چل رہا تھا،صورتحال پر پوری فیملی ڈسٹرب تھی ،جس کا حل معروف طارق خان نے یہ نکالا کہ بیوی اور دو بچوں کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔ وہ خود اس دنیا سے چلے گئے مگر اس قسم کے واقعات میں ایک اور اضافہ کر کے نئے سوالات پیچھے چھوڑ گئے۔
اسی طرح اس واقعہ سے صرف دو روز پہلے منگل 3 دسمبر کو بہاولپور میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آتا ہے۔ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے ایک خاندان کے پانچ افراد کی لاشیں ایک گھر سے ملتی ہیں۔ مرنے والوں میں میاں، بیوی اور تین بچے شامل تھے جبکہ چار سال کی ایک بچی زندہ ملی ۔گھر کے سربراہ کاشف کی عمر محض 40 سال، بیوی کی عمر 36 سال جبکہ 9سال ،13 سال اور 15 سال کے تین بیٹے بھی شامل ہیں ۔مقتول کے بھائی خرم کے مطابق ان کا بھائی سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا جس پر انہوں نے بھائی کے ہمسائے اور کاروباری پارٹنر حاجی اقبال بھٹی کو فون کیا۔ دودھ والا اور گھر میں کام کرنے والی ماسی بھی دروازہ کھٹکھٹا کر چلے گئے لیکن کسی نے دروازہ نہ کھولا۔خرم جب بھائی کے گھر پہنچا تو وہاں دل دہلا دینے والا منظر تھا۔ بھائی، بھابھی اور اس کے تین بچوں کی لاشیں خون میں لت پت موقع پر موجود تھیں جبکہ چار سالہ معصوم بھتیجی بے ہوشی کی حالت میں بیڈکے نیچے سے ملی۔ کاشف، اس کی بیوی اور دو بچوں کے سروں پر گولی کے نشانات تھے جبکہ نو سالہ عبدالوہاب کا گلا گھونٹنے کے بھی نشانات سامنے آئے۔
پولیس نے بتایا کہ انہیں گھر سے ڈپریشن کیلئے استعمال ہونے والی گولیاں بھی ملی ہیں ۔کاشف کے بھائی خرم نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ ان کا بھائی ڈپریشن کا علاج کرنے والی گولیاں کھایا کرتا تھا۔اس کے مطابق بھائی لوگوں کے مشورے پر ڈپریشن کی گولیاں کھایا کرتا تھا۔بظاہر وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔ہماری کسی سے دشمنی نہیں ہے۔ اس معاملے میں بھی پولیس یہ شخص ظاہر کر رہی ہے کہ گھر کے سربراہ نے اہل خانہ کو مار کر خودکشی کر لی اور بچے کسی طرح بچ گئے۔
اس قسم کے واقعات پاکستان سمیت دنیا بھر میں نئی بات نہیں ،گھریلومسائل،پریشانیوں،جھگڑوں، قرضوں کی وجہ سے ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
فیملیسائیڈ (Familicide)ایک ایسا جرم ہے جس میں کوئی شخص اپنی پوری فیملی یا اس کے اکثر افراد کو جان سے مار کر خودکشی کر لیتا ہے۔ اس قسم کے انتہائی قدم کے پیچھے قاتل خاندان کے قریبی افراد والدین، بہن بھائیوں اور بالخصوص بیوی، بچوں کو قتل کرنے کےخود بھی اپنی زندگی ختم کر لیتا ہے۔ اس قسم کے انتہائی قدم کے پیچھے بہت سے عوامل ہوتے ہیں۔ فیملیسائیڈ کے زیادہ تر واقعات مرد سر انجام دیتے ہیں اور تقریبا ًآدھے کیسز میں مجرم نے بھی خودکشی کر لی۔ قاتل اپنے خاندان کو کسی فرضی خطرے سے بچانے کی کوشش میں ان کی جان لے لیتا ہے جسے وہ اپنے تصور میں حقیقت سمجھتا ہے۔ فیملیسائیڈ کی اہم وجوہات میں ڈپریشن، ذہنی دباؤ، ذہنی بیماری، مالی مسائل، دیوالیہ ہو جانا ،خاندان کو غربت سے بچانا، گھریلو جھگڑے یا طلاق کی صورتحال ،گھریلو تشدد یا گھر پر کنٹرول کی خواہش، سماجی بدنامی یا شرمندگی سے بچنا،ذاتی انتقام لینا شامل ہیں۔ فیملیسائیڈ کرنے والا شخص عموماً مایوس یاغصے میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ اکثر محسوس کرتے ہیں کہ ان کا خاندان بہتر مستقبل کے قابل نہیں۔ فیملیسائیڈ دنیا بھر میں سنگین جرم سمجھا جاتا ہے ۔اسلامی اور قانونی نقطہ نظر سے بھی یہ ایک بڑا گناہ اور ناقابل معافی جرم ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی خاندانی قتل یا فیملیسائیڈ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔رواں سال 2024 کے دوران تقریباً 600 افراد جن میں مرد خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ،خاندانی تنازعات اور غیرت کے نام پر قتل کا شکار ہوئے ہیں۔ گھریلو تشدد اور خاندانی قتل کے ایسے واقعات ایک تشویش ناک رجحان کو ظاہر کرتے ہیں ۔پاکستان جیسے ملک میں معاشی مسائل، بے روزگاری اور عدم تحفظ کی وجہ سے لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر اس قسم کے اقدام پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ذہنی صحت کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں ان دیکھی ذہنی بیماریاں شدت اختیار کر جاتی ہیں ۔نفسیاتی عدم توازن،ماضی کے صدمات، گھریلو مسائل، جائیداد کے تنازعات اس قسم کے واقعات کےبڑے عوامل ہیں۔ اس صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے نفسیاتی صحت، خاندانی مشاورت، تعلیمی پروگرامز کی مہم چلانی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی ایسا انتہائی قدم اٹھا کر خودکش حملہ کر کے اپنے پیاروں کو نا کردہ گناہوں کی سزا نہ دے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں