آج کی تاریخ

Let him die in the chair

فوک وزڈم

تحریر؛میاں غفار( کار جہاں )

اطہر حسین سیال ریٹائرڈ بیورو کریٹ ہیں۔ وہ طیب شہرت کے حامل انسان دوست اور مخلص پاکستانی ہیں۔ زندگی بھر ان کا قلم بھلائی کی سمت ہی چلا۔ لاہور کے فلیٹز ہوٹل میں ان کے بیٹے کی تقریب دعوت ولیمہ پڑھے ہوئے اور کڑھے ہوئے مہمانوں کا ایک خوبصورت اور حسین امتزاج تھی۔ تقریب میں جھنگ، ملتان، خانیوال اور لاہور کے علاوہ ملک بھر سے سیاسی سماجی اور بیورو کریٹس کی خوبصورت نمائندگی تھی۔ میرے قریب تشریف فرما ایک ڈھلتی عمر کے شخص نے انتہائی سادہ انداز میں سیاسی صورتحال کے بخیے ادھیڑ دیئے۔ کہنے لگے یہ جو سوپ پیش کیا جا رہا ہے۔ وہ سامنے بیٹھے بچے نے کپ سے اٹھتے گرم بھاپ کے بگولوں ہی سے اندازہ لگا لیا کہ یہ کتنا گرم ہے اور اسے کتنا ٹھنڈا کرنا ہے جب ہی تو اس نے سوپ کا ٹمپریچر کم کرنے کے بعد اسے منہ سے لگایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ لگاتار 44 سال اقتدار اختیار اور سیاسی اتار چڑھائو کا اہم حصہ رہنے والے میاں نواز شریف کو موجودہ حالات کی گرمائش کا اندازہ کیوں نہ ہو سکا۔ وہ کیوں نہ سمجھ سکے کہ انہیں اسی طرح سے سجا اور سنوار کر لندن سے لایا جا رہا ہے جس طرح ہمارے علاقوں میں عید قربان سے ایک رات قبل بکروں کو پھولوں کے ہار اور چادریں پہنا کر درباروں پر لایا مگر اگلے ہی روز قربان کر دیا جاتا ہے۔ میں نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے رات طویل ہو تو نگرانیاں بھی طویل ہوتی ہیں۔ یہاں اس صورتحال میں بھی نگرانی کہیں طویل نہ ہو جائے۔ پھر اپنی بات کو فوک وزڈم کا تڑکا لگاتے ہوئے انہوں نے لطیفہ سنایا کہ ایک مستری مزدوری کرنے شہر گیا۔ کوئی آدمی اسے گھر کے صحن میں نصب کئے جانے والے ہیڈ پمپ کا پختہ فرش جسے کھرا کہتے ہیں، بنوانے کیلئے گھر لے گیا۔ مستری نے دو چار اینٹیں لگائیں اور کہنے لگا۔ کاغذ پنسل عنایت کر دیں۔ میں والدہ کو خط لکھ دوں کہ مجھے کام مل گیا ہے میں جلد پیسے بھیج دوں گا مالک نے کہا کہ چند روپوں اور دو چار گھنٹوں کا کام ہے اور تم خط لکھنے بیٹھ جائو گے؟ کہنے لگا کہ بس ذرا ماں کو تسلی ہو جائے گی۔ پھر اس نے کمرے کا پختہ فرش مکمل کیا اور اس کی ڈھلوان گھر کی بنیادوں کی طرف رکھ دی۔ پانی بنیادوں میں بھرنے لگا تو مستری کو دوبارہ بلایا گیا۔ مستری نے کہا کہ آپ کا مکان ہی غلط اور گہرائی میں بنا ہوا ہے لہٰذا گھر گرا کر دوبارہ بنائیں یوں مستری کو ایک سال کا کام مل گیا اور مالک جمع پونجی سے محروم ہو کر مستری سے کہنے لگا۔ اب مجھے سمجھ آئی کہ تم نے پہلے ہی دن اپنی ماں کو خط کیوں لکھا تھا۔ کہنے لگے کہ سیاست کے پانی کا بہائو بھی بنیادوں کی طرف کر دیا گیا ہے اسی لئے لگتا ہے کہ الیکشن کی عمارت بھی ایک ڈیڑھ سال میں پھر سے تعمیر ہو گی۔ کہنے لگے جب یہ بات میرے جیسے شہر اقتدار سے دور رہنے والے عام آدمی کو صاف نظر آ رہی ہے اور سمجھ بھی آ رہی ہے تو میاں نواز شریف کو کیوں اندازہ نہ ہو سکا۔ وہ تو اس ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم اور دو مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کو تو پہلے ہی دن سے قبول ہیں اور بار بار قبول ہیں مگر میاں نواز شریف قبول نہیں۔ میاں نواز شریف بھرپور انتخابی مہم بھی چلا سکتے ہیں اور عوام کو اپنے ساتھ جوڑ بھی سکتے ہیں جبکہ نواز شریف کے بغیر میاں شہباز شریف اپنا انتخابی حلقہ بھی نہیں جیت سکتے لہٰذا نواز شریف کی ضرورت محض 6 فروری کی رات 12 بجے تک تھی جو کہ انتخابی مہم کا آخری دن تھا۔ اس کے بعد ان کی ضرورت ہی باقی نہ رہی اور رہا معاملہ شہباز شریف کا تو انہیں لانے کا فیصلہ تو بہت پہلے کا تھا جسے شدت کے عوامی رد عمل کے باعث جھٹکا تو لگا مگر حالات کو قابو میں رکھنے کی کوشیں جاری ہیں۔ ایک بات البتہ طے ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی اقتدار کا مرکز اسٹیبلشمنٹ اپنے پاس ہی رکھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یہ باتیں جھنگ سے تعلق رکھنے والے ایک عام شخص جس کا عملی سیاست سے دور کا بھی تعلق نہ تھا‘ خوبصورت انداز میں کئے جا رہا تھا۔
تقریب ولیمہ میں سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ اور سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے سابق سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر‘ حسن نواز تارڑ‘ راجہ محمد عباس‘ خسرو پرویز خان‘ سید افتخار بابر‘ خالد پرویز‘ راشد بشیر مزاری‘ خالد حنیف‘ نیر آغا‘ آغا ندیم‘ رضی عباس‘ شہزاد سلطان‘ احمد عزیز تارڑ سمیت سینئر سول اور پولیس افسران کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ریٹائرڈ ججز اور کاروباری شخصیات بھی موجود تھیں اور ہر ٹیبل کے ارد گرد بیٹھے افراد کا موضوع سخن ملکی حالات اور سیاست ہی تھا۔ بہت سے کھل کر اظہار خیال کر رہے تھے اور بہت سے دبے لفظوں میں۔ ایک طرف بشریٰ بی بی کا بھی ذکر خیر ہو رہا تھا کہ کس طرح سابق وزیر اعظم عمران خان کے فیصلوں پر بشریٰ بی بی اثر انداز ہوتی تھیں کہ اعلیٰ سطحی میٹنگز سے بھی سابق وزیراعظم عمران خان بشری بی بی کے بلانے پر اٹھ جایا کرتے تھے۔ کس طرح سے محترمہ کی طرف مداخلت ہو جایا کرتی تھی اور کس طرح سے بشریٰ بی بی کی چیٹیں چلتی تھیں۔ کس کس طریقے سے عمران خان کی سادگی سے فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔
اقتدار کی غلام گردشوں میں خاموش تماشائی بن کر سالہا سال گزارنے والے یہ بیوروکریٹ ایسے ایسے واقعات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ اگر وہ انہیں کتاب کی صورت میں مرتب کریں تو اس سے بڑی رہنمائی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ انگریزوں نے برصغیر میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ہر انتظامی یونٹ میں گزٹیئر مرتب کئے جانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو قیام پاکستان کے چند سال بعد تک تو چلتا رہا مگر پھر ختم ہو گیا۔ اب تو شائید ہی کوئی ضلعی اور ڈویژنل انتظامی سربراہ اسے مرتب کرتا ہو۔ میں 1997ء میں جب پہلی مرتبہ ٹرانسفر ہو کر ملتان آیا تو مجھے خطے کے عمومی حالات کا احاطہ کرنے اور معلومات حاصل کرنے کے لئے ضلع ملتان کا ڈسٹرکٹ گزٹیئر پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ میں نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر غالباً ان کا نام ظفر سلیم چوہدری تھا سے مل کر ڈسٹرکٹ گزٹیئر پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا انہوں نے مجھے پورا موقع فراہم کیا اور میں نے ایک ہفتے میں کئی گھنٹے رونالڈ ملتان کے ڈسٹرکٹ گزٹیئر کو پڑھنے پر صرف کئے۔ بعد میں وہ ٹرانسفر ہو گئے اور نئے آنے والے ڈپٹی کمشنر سیف اللہ چٹھہ کی اجازت سے یہ مطالعہ جاری رہا۔ اس وقت لودھراں، خانیوال اور وہاڑی کے اضلاع ملتان کی تحصیلوں کا درجہ رکھتے تھے۔ کیا کیا کمال کی معلومات انگریز ڈپٹی کمشنروں نے تحریر کر رکھی تھیں۔ آج بھی اگر کسی نے کسی علاقے کے لوگوں کی نفسیات‘ رہن سہن اور عمومی برتائو بارے رہنمائی لینی ہو تو انگریز دور کے یہ تحریر شدہ نسخہ جات بہت ہی بڑی رہنمائی کا باعث ہیں۔ موجودہ دور کے ڈپٹی کمشنر حضرات میں ایسے بھی یقینی طور پر ہوں گے جنہوں نے کبھی ان کا مطالعہ بھی نہ کیا ہو کہ اب ملک و قوم سے اس طرح کی وفا تو میرٹ ہی نہیں رہی۔ آج کا میرٹ تو صاحبان اقتدار اور سیاسی اکابرین کی ذاتیات سے شروع اور ذاتیات پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔
بات اور طرف نکل گئی بہرحال سعید سیال کی محبت اور اطہر سیال کی طرف سے دعوت ولیمہ کی شکل میں پرویا گیا رنگ برنگے جیتے جاگتے پھولوں کا ہار دیر تک میری یادوں کو محسوس کن خوشبو سے معطر کرتا رہے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں