آج کی تاریخ

فضائی سانحہ:ناقابلِ تلافی نقصان

امریکہ میں پیش آنے والے حالیہ فضائی سانحے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک مسافر طیارہ اور فوجی ہیلی کاپٹر آپس میں ٹکرا گئے، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ حادثہ واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب پوٹومیک دریا میں پیش آیا، جہاں رات کے اندھیرے میں دو طیاروں کے تصادم کے بعد ایک زبردست دھماکہ ہوا اور وہ پانی میں جا گرے۔ اس حادثے میں ہونے والے جانی نقصان نے ایک بار پھر فضائی تحفظ اور کنٹرول سسٹم کی خامیوں پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔یہ افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب امریکن ایئرلائنز کا ایک علاقائی مسافر طیارہ، جس میں 60 مسافر اور 4 عملے کے ارکان سوار تھے، وچیٹا، کنساس سے واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسی دوران امریکی فوج کا ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر بھی تربیتی مشن پر تھا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق، ہیلی کاپٹر کے پائلٹس کو طیارے کی موجودگی کا علم تھا، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے دونوں پروازیں ایک دوسرے کے قریب آ گئیں، جس کے نتیجے میں خوفناک تصادم ہوا۔
سی بی ایس نیوز اور رائٹرز کی اطلاعات کے مطابق، دریا سے اب تک 18 لاشیں برآمد کی جا چکی ہیں، لیکن حکام نے حتمی ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کی۔ امریکی سینیٹر راجر مارشل، جو کنساس سے تعلق رکھتے ہیں، نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ جہاز میں سوار تمام افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حادثے کے بعد سب سے زیادہ زیر بحث آنے والا سوال یہ ہے کہ آیا یہ حادثہ کنٹرول سسٹم کی ناکامی کی وجہ سے ہوا یا انسانی غلطی کا نتیجہ تھا؟ ابتدائی رپورٹس کے مطابق، ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاور نے ہیلی کاپٹر کے عملے کو متنبہ کیا تھا کہ وہ مسافر طیارے کو دیکھیں اور اس سے دور رہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ہدایت یا تو پوری طرح سمجھ نہیں آئی یا اس پر بروقت عمل نہیں کیا گیا۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعے پر اپنی رائے دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر کنٹرول ٹاور اور ہیلی کاپٹر کے عملے کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ ان کے بقول، ’’یہ ایک صاف رات تھی، طیارے کی روشنیاں جل رہی تھیں، تو پھر ہیلی کاپٹر نے اوپر یا نیچے جانے یا مڑنے کا فیصلہ کیوں نہ کیا؟ کنٹرول ٹاور نے اسے کیا کرنے کے لیے کیوں نہ کہا؟‘‘
یہ سوالات نہ صرف اس حادثے بلکہ مجموعی طور پر فضائی تحفظ کے نظام پر بھی سنگین خدشات پیدا کرتے ہیں۔ کیا جدید ترین ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے بھی ایسے حادثات کو روکا نہیں جا سکتا؟حادثے کے بعد کا منظر نہایت دل دہلا دینے والا تھا۔ ایئرپورٹ پر موجود مسافروں کے اہلِ خانہ شدید بے چینی کا شکار تھے۔ کئی افراد نے شکایت کی کہ انہیں سرکاری حکام کی طرف سے کوئی تسلی بخش معلومات نہیں دی جا رہیں اور وہ میڈیا رپورٹس کے ذریعے ہی صورتحال جاننے پر مجبور ہیں۔
واشنگٹن کے فائر چیف جان ڈونلی کے مطابق، حادثے کے فوراً بعد 300 سے زائد امدادی کارکنوں کو بچاؤ کارروائیوں میں لگا دیا گیا۔ لیکن سخت سردی، تیز ہواؤں اور اندھیرے کی وجہ سے امدادی کاموں میں بے حد مشکلات پیش آ رہی ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں جب امریکہ میں فضائی حادثہ پیش آیا ہو۔ ماضی میں بھی کئی بار کنٹرول سسٹم کی ناکامی یا انسانی غلطی کے باعث حادثات ہو چکے ہیں۔ یہ سانحہ ایک بار پھر یہ یاد دلاتا ہے کہ فضائی سفر، جو دنیا بھر میں سب سے محفوظ مانا جاتا ہے، درحقیقت اب بھی کئی خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا فضائی کنٹرول کے نظام میں کوئی تکنیکی خرابی تھی؟ کیا پائلٹس کے پاس تصادم سے بچنے کے لیے کوئی وارننگ سسٹم موجود نہیں تھا؟ اگر تھا تو کیا وہ فعال نہیں تھا؟ یا پھر کسی کی لاپرواہی یا غلطی نے درجنوں معصوم جانیں نگل لیں؟
حادثے کے فوراً بعد پینٹاگون نے اعلان کیا ہے کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ اس میں ہیلی کاپٹر کے عملے کی جانب سے اختیار کیے گئے اقدامات، ایئر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات اور دیگر ممکنہ تکنیکی وجوہات کا جائزہ لیا جائے گا۔اس طرح کے حادثات کے بعد عموماً کئی سوالات اٹھتے ہیں، لیکن اکثر ان کا جواب نہیں مل پاتا۔ اس وقت بھی سب کی نظریں اس بات پر ہیں کہ تحقیقات کے نتائج کیا نکلیں گے اور کیا واقعی اس حادثے کی ذمہ داری کسی پر عائد کی جائے گی؟
یہ سانحہ صرف ہلاک ہونے والوں کے اہلِ خانہ کے لیے نہیں بلکہ مجموعی طور پر امریکی عوام اور فضائی صنعت کے لیے بھی ایک بڑا صدمہ ہے۔ فضائی حادثات کا سب سے بڑا اثر ان مسافروں پر پڑتا ہے جو روزانہ ہوائی سفر کرتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات نہ صرف عوامی خوف میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ ایئرلائنز اور فوجی اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔کنساس کے سینیٹر راجر مارشل کے الفاظ اس دل خراش حادثے کے اثرات کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں: ’’جب ایک شخص مرتا ہے، تو یہ ایک المیہ ہوتا ہے، لیکن جب کئی لوگ ایک ساتھ جان سے جاتے ہیں، تو یہ ایک ناقابلِ بیان صدمہ ہوتا ہے۔‘‘
ہر حادثہ ہمیں کچھ سکھاتا ہے، اور اس حادثے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ جدید ٹیکنالوجی اور حفاظتی اقدامات کے باوجود فضائی حادثات کی روک تھام کا نظام ابھی مکمل نہیں ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ فضائی حفاظت کے موجودہ نظام کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے اور ایسے تمام عوامل کو بہتر بنایا جائے جو حادثات کی روک تھام میں مدد دے سکتے ہیں۔یہ ضروری ہے کہ اس حادثے کی جامع تحقیقات ہوں اور مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ بصورت دیگر، ہم ایک ایسے سفر پر ہیں جہاں حفاظتی نظام کی کمزوریاں مزید انسانی جانوں کا نقصان کر سکتی ہیں۔

تنخواہ بڑھانے کا تاریخی المیہ

واہ بھئی، کیا نظارہ تھا! حکومت اور اپوزیشن کے معزز اراکین، جو عام طور پر ایک دوسرے کے وجود تک کو برداشت نہیں کرتے، اچانک ایک پیج پر آ گئے— مگر صرف اپنی تنخواہ بڑھانے کے لیے! لگتا ہے کہ سیاست میں بھی کچھ مقدس معاملات ایسے ہوتے ہیں جن پر کوئی اختلافِ رائے نہیں ہوتا، مثلاً: “اپنی جیب بھرو، عوام کی خیر نہیں!”آپ ذرا اس تاریخی لمحے کا تصور کریں جب ایوان میں شدید گرما گرم بحث ہو رہی تھی۔ کچھ اراکین شاید سوچ رہے ہوں گے:یہ ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے، ملک بحران میں ہے، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، معیشت وینٹی لیٹر پر ہے… تو کیوں نہ اس موقع پر اپنی تنخواہ تین گنا کر لی جائے؟”اور پھر جیسے ہی اسپیکر نے اعلان کیا کہ تنخواہیں بڑھانے کی تجویز منظور کر لی گئی ہے، سب اراکین نے ایک دوسرے کی طرف ایسے دیکھا جیسے کوئی لاٹری جیت لی ہو! آخر، “قومی خدمت” کے ان تھکے ہارے مجاہدوں کے لیے بھی تو کچھ ہونا چاہیے نا؟ ہر وقت بس اسمبلی میں آنا (کبھی کبھار)، عوام کے مسائل پر بحث کرنا (بہت کم)، قانون سازی میں سنجیدہ شرکت (شاذ و نادر)، اور پھر اپنے حلقے کے لوگوں کے مسائل سننا (بلکل نہیں!)— یہ سب مفت میں تو نہیں ہو سکتا نا!
ظاہر ہے، یہ اضافہ کسی وجہ کے بغیر تو نہیں ہوا۔ اراکینِ پارلیمنٹ نے اپنے حالات کی بہتری کے لیے ایک انتہائی سنجیدہ جواز دیا: “مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے!”واہ، کیا مشاہدہ ہے! لیکن سوال یہ ہے کہ جن 41 فیصد عوام کی زندگی سب سہولتوں سے محروم ہو چکی ہے، وہ کیا کریں؟ انہیں بھی کوئی ایسا موقع مل سکتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپنی کمائی میں 176 فیصد اضافہ کر لیں؟ کیا وہ بھی مہنگائی کے مارے ہوئے ہاتھ کھڑے کر کے کہہ سکتے ہیں:بس بھائی، اب اور نہیں، ہماری بھی تنخواہ بڑھاؤ!”لیکن نہیں، عوام کے لیے تو حکومت کے پاس مہنگائی کے سوا کچھ نہیں۔ بجلی کے بل بڑھیں گے، ٹیکسوں میں اضافہ ہوگا، اور روزگار کے مواقع کم ہوتے رہیں گے۔ لیکن جن “منتخب نمائندوں” کو عوام کی نمائندگی کے لیے ایوان میں بھیجا گیا، انہوں نے پہلا کام یہی کیا کہ اپنی ہی زندگی آسان کر لی۔
چلیے، ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ تنخواہ بڑھانا ضروری تھا، کیونکہ ملک میں سب کچھ مہنگا ہو رہا ہے۔ مگر پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہ اضافہ باقی عوام کے لیے بھی ہوگا؟سرکاری ملازمین کے لیے بجٹ میں 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین کی تنخواہ پچھلے چار سال سے وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔مزدوروں اور دیہاڑی دار طبقے کے لیے تو کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کیا گیا جس سے ان کی حالت بہتر ہو سکے۔اور رہی عوام، تو وہ بجلی، گیس، پٹرول اور دیگر اشیائے ضروریہ پر لگنے والے بےتحاشہ ٹیکسوں کے نیچے دبے جا رہے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جب عوام تنخواہوں میں اضافے یا کسی ریلیف کی بات کرتے ہیں، تو حکومت جواب دیتی ہے: “ملکی معیشت نازک حالت میں ہے، ہمیں کفایت شعاری اپنانا ہوگی!” لیکن جب یہی سوال پارلیمنٹ کے معزز اراکین کے لیے اٹھے، تو یکدم معیشت صحت مند ہو جاتی ہے اور تنخواہوں میں 176 فیصد اضافے کی گنجائش نکل آتی ہے۔
اراکین پارلیمنٹ کو تنخواہ دی ہی اس لیے جاتی ہے کہ وہ عوامی نمائندگی کریں، قانون سازی میں حصہ لیں اور اپنے حلقوں کے مسائل حل کریں۔ مگر کیا واقعی یہ سب کچھ ہو رہا ہے؟اگر پارلیمنٹ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے، تو پچھلے کچھ سالوں میں ہونے والی قانون سازی کا بڑا حصہ عوامی مسائل سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے مفادات کے گرد گھومتا رہا ہے۔
کبھی نیب قوانین میں نرمی کر کے کرپشن کے دروازے کھولے گئے،
کبھی الیکشن قوانین میں ردوبدل کر کے اپنے فائدے کی راہ ہموار کی گئی،
•اور کبھی میڈیا کی آزادی کو محدود کر کے عوام کو سچائی سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔
لیکن جب عام شہریوں کی فلاح و بہبود کی بات آئے، تو وہاں بحث و مباحثہ مہینوں اور سالوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں پچھلے سالوں میں منظور ہونے والے قوانین میں عوام کی حالت بہتر بنانے کے کتنے بل شامل تھے؟ شاید گنتی کے چند! لیکن تنخواہوں میں اضافے کا بل، وہ تو چند لمحوں میں منظور ہو گیا!
کیا کوئی شرمندگی بھی ہے؟
ہم امید کرتے تھے کہ شاید کوئی ایک شخص تو ایسا ہوگا جو کھڑے ہو کر کہے گا:
جناب، ملک کی معیشت اس وقت مشکل میں ہے، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، یہ اضافہ مناسب نہیں!”مگر افسوس، ایسا کچھ نہ ہوا۔ سب نے خوشی خوشی اپنا مفاد دیکھا، اپنے مالی حالات سدھارے، اور عوام کو مزید مایوسی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔معزز اراکینِ پارلیمنٹ نے شاید خود کو اس حقیقت سے دور کر رکھا ہے کہ عوام کس حال میں جی رہے ہیں۔ لیکن ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب یہ بڑھتی ہوئی ناانصافی خود ان کے دروازے پر دستک دے گی۔
جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا، جب وہ پوچھیں گے کہ “ہم نے آپ کو ووٹ دیا تھا یا خود کو لوٹنے کا اختیار دیا تھا؟تب شاید ان منتخب نمائندوں کو احساس ہو کہ عوام کی حالت سدھارے بغیر اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرنا دراصل سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔فی الحال تو یہی کہا جا سکتا ہے:پھر سے مبارک ہو معزز اراکینِ پارلیمنٹ، آپ نے ایک اور موقع پر خود کو عوام سے جدا کر لیا!”

عدلیہ کی ساکھ پر سنگین سوالات

پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اس وقت ایک سنگین بحران کا شکار ہے، جس کی وجہ سے قانونی برادری میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ بحران 26ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں ہے، جس پر قانونی ماہرین کی ایک بڑی تعداد مکمل عدالت کی سماعت کا مطالبہ کر رہی ہے، مگر یہ مطالبہ ابھی تک کسی نے سنجیدگی سے نہیں سنا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے عدلیہ کی آزادانہ حیثیت کو زک پہنچ رہی ہے اور عوامی تاثر یہی ہے کہ عدلیہ ریاست کے دیگر ستونوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عدلیہ کی خودمختاری اس وقت شدید خطرے میں ہے۔ عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تقرریاں میرٹ کی بجائے “خدمات” کی بنیاد پر ہونے کا الزام لگ رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کو مختلف طاقتور حلقوں نے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیا ہے، جس سے عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج، جسٹس محسن اختر کیانی کے حالیہ ریمارکس اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ 26ویں ترمیم پر تنقید محض سیاسی نہیں بلکہ اصولی نوعیت کی ہے۔ جسٹس کیانی نے واضح الفاظ میں اس ترمیم کو “ایک خط” کا ردعمل قرار دیا، جو بظاہر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے عدالت کے معاملات میں کھلی مداخلت کے خلاف لکھا گیا تھا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اسی دن سپریم کورٹ کی ایک آئینی بنچ نے ایک مستقل بنچ کے انتظامی دائرہ اختیار سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے بعد، آئینی بنچ کے ایک جج نے یہ کہتے ہوئے بنچ سے علیحدگی اختیار کر لی کہ عدالت کو “عدالتی احکامات کی تقدس کو محفوظ اور برقرار رکھنا چاہیے”۔ یہ سب کچھ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عدلیہ کے اندر بھی 26ویں ترمیم کے حوالے سے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ 26ویں ترمیم کے چیلنجز کو مکمل عدالت کے ذریعے سنا جائے، تاکہ تمام ججوں کی متفقہ رائے سے اس معاملے کو حل کیا جا سکے۔ ماضی میں بھی آئینی ترامیم کو چیلنج کرنے کے لیے مکمل عدالت کی سماعت کا انعقاد ہوتا رہا ہے۔ تو پھر اس بار کیوں نہیں؟ کیا چند جج صاحبان کی قانونی بصیرت باقی جج صاحبان سے برتر ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے۔آج جب عوام کی نظریں عدلیہ پر ہیں، اس کی شفافیت اور غیر جانبداری پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں، تو کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ عدالت عظمیٰ خود کو ان الزامات سے بری کرے؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ عدالت ایک متفقہ اور جامع فیصلے کے ذریعے ان شکوک و شبہات کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے؟یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فرض ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔ مگر جب خود عدلیہ کے اندر ہی اختلافات ہوں، جب جج صاحبان ایک دوسرے کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے رہے ہوں، تو عوام کو عدلیہ کی غیر جانبداری پر کیسے یقین دلایا جا سکتا ہے؟یہ وقت ہے کہ عدلیہ اپنی صفوں میں موجود خامیوں کو دور کرے اور شفافیت کو فروغ دے۔ عدلیہ کی موجودہ صورتحال نے اس کے وقار کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اور عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام جج صاحبان مل کر ان آئینی چیلنجز کا سامنا کریں۔اگر آج ہم نے عدلیہ کی آزادی اور شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے، تو کل کو عدلیہ محض ایک مہرہ بن کر رہ جائے گی۔ یہ وقت ہے کہ قانونی برادری متحد ہو کر عدلیہ کی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے آواز اٹھائے۔آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عدلیہ کی خودمختاری کو بچانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اگر عدلیہ آزاد نہیں رہی، تو پھر انصاف کا حصول کیسے ممکن ہوگا؟ عوام کو ایک خودمختار اور غیر جانبدار عدلیہ کی ضرورت ہے، اور یہی پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔
کشمیر اور تعلیم: دوہرا معیار یا عملی اقدامات؟
وزیرِاعظم شہباز شریف کے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر عالمی یومِ تعلیم کے موقع پر دیے گئے بیان کو سراہا جانا چاہیے۔ ان کا یہ اعتراف کہ کشمیری عوام کو نہ صرف بنیادی انسانی حقوق بلکہ تعلیم جیسے بنیادی حق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے، ایک تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔ دہائیوں سے جاری بھارتی ریاستی جبر نے لاکھوں کشمیریوں کی زندگیاں تاریک کر دی ہیں، اور تعلیمی مواقع کی منظم بندش نے وادی کے نوجوانوں کے مستقبل پر گہرے سائے ڈال دیے ہیں۔
تعلیم اور جبر کا چولی دامن کا ساتھ
مقبوضہ کشمیر میں تعلیم کا استحصال محض اسکولوں اور جامعات کی بندش تک محدود نہیں۔ یہ اس بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے کشمیریوں کو ان کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، وادی میں بے جا گرفتاریوں، میڈیا پر قدغنوں، اور تعلیمی سرگرمیوں کی معطلی نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں نسلوں کو تعلیمی پسماندگی میں دھکیل دیا جا رہا ہے۔بین الاقوامی برادری کی خاموشی بھارتی حکومت کو مزید شہہ دے رہی ہے۔ طاقتور عالمی ممالک، جو انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کی خاطر کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی یہ سفارتی کوششیں قابلِ تعریف ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی فورمز پر اجاگر کر رہا ہے، مگر محض مذمتی بیانات کافی نہیں۔

پاکستان کی اپنی تعلیمی صورتِ حال

یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ جب ہم کشمیریوں کے تعلیمی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، تو ہمیں اپنے ملک میں تعلیم کے بحران پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ خود شدید مسائل کا شکار ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں تقریباً دو کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں—جو کہ اسکول جانے کی عمر کے بچوں کا تقریباً 40 فیصد بنتا ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں میں تعلیمی سہولیات کی عدم دستیابی، صنفی امتیاز، اور تعلیمی بجٹ میں مستقل کمی جیسے مسائل نے تعلیمی ترقی کو مفلوج کر رکھا ہے۔وزیرِاعظم کا تعلیم کو بنیادی ترجیح قرار دینا خوش آئند ہے، مگر اس کے لیے صرف اعلانات کافی نہیں، بلکہ ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جب تک پاکستان اپنے تعلیمی نظام میں بنیادی اصلاحات نہیں کرے گا، تب تک بین الاقوامی سطح پر اس کی سفارتی کوششیں کمزور نظر آئیں گی۔تعلیم وہ بنیادی ہتھیار ہے جو کسی بھی قوم کو غلامی سے نکال کر ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتا ہے۔ یہ نہ صرف غربت سے نجات کا ذریعہ ہے بلکہ سماجی شعور اور سیاسی بیداری پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت جان بوجھ کر کشمیری نوجوانوں کو تعلیم سے محروم رکھ رہی ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے مؤثر آواز بلند نہ کر سکیں۔پاکستان اگر واقعی کشمیریوں کے حق میں مضبوط سفارتی جنگ لڑنا چاہتا ہے، تو اسے خود کو ایک مثالی تعلیمی ماڈل کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ ایک ایسا پاکستان جہاں ہر بچے کو تعلیم تک رسائی حاصل ہو، جہاں جدید نصاب، بہترین اساتذہ اور معیاری تعلیمی ادارے موجود ہوں، وہ نہ صرف کشمیریوں کے لیے امید کی کرن بنے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی بات زیادہ مؤثر انداز میں منوا سکے گا۔وزیرِاعظم شہباز شریف کے بیان نے ہمیں ایک اہم سبق دیا ہے: تعلیم اور انصاف لازم و ملزوم ہیں۔ اگر پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے خود کو کشمیری عوام کے حقیقی وکیل کے طور پر پیش کرنا ہے، تو اسے پہلے اپنے اندرونی تعلیمی مسائل کو حل کرنا ہوگا۔
ماضی میں حکومتوں نے تعلیمی ترقی کے بہت سے وعدے کیے، مگر عملی طور پر خاطر خواہ اقدامات نہ ہونے کے باعث صورتحال جوں کی توں رہی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تعلیم کو محض ایک نعرہ بنانے کے بجائے اس پر حقیقی سرمایہ کاری کی جائے، تاکہ پاکستان نہ صرف اپنے شہریوں کے لیے روشن مستقبل کی ضمانت دے سکے بلکہ کشمیریوں کے حق میں بھی زیادہ مضبوط اور مؤثر آواز بلند کر سکے۔
اگر پاکستان کشمیری عوام کے حقوق کے لیے سنجیدہ ہے، تو اسے اپنی اندرونی تعلیمی اصلاحات پر بھی اتنی ہی سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے تعلیمی نظام کو اس نہج پر لے جانا ہوگا کہ عالمی برادری اسے ایک مثال کے طور پر دیکھے۔
تعلیم محض ترقی کی کنجی نہیں بلکہ یہ آزادی، انصاف، اور خودمختاری کی ضمانت بھی ہے۔ اگر پاکستان اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بناتا ہے، تو یہ نہ صرف اپنے عوام بلکہ کشمیریوں کے لیے بھی ایک حقیقی امید کی کرن بن سکتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو نہ صرف سفارتی محاذ پر پاکستان کو مضبوط کرے گا بلکہ کشمیریوں کے لیے بھی ایک روشن مستقبل کی نوید دے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں