پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل اب بھی روزمرہ کی خبروں کا معمول بنتا جا رہا ہے، اور ریاست تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ حالیہ دنوں میں بلوچستان میں پیش آنے والا بانو بی بی اور احسان اللہ سمالانی کا واقعہ اس سفاک روایت کا ایک خونی باب ہے، جو ہماری سماجی بے حسی اور ریاستی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس جوڑے کو ایک جرگے کے حکم پر قتل کیا گیا، اور ویڈیو میں دکھایا گیا کہ بانو کو مبینہ طور پر اس کا سگا بھائی گولی مار کر قتل کر رہا ہے۔ یہ ویڈیو وائرل ہوئی، عوام میں شدید غم و غصہ پھیلا، اور حکام کو مجبوراً کارروائی کرنا پڑی۔ سولہ افراد گرفتار کیے گئے، جن میں ایک قبائلی سردار اور بانو کی والدہ بھی شامل ہیں۔ لیکن قاتل خود تاحال فرار ہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے اسے “ٹیسٹ کیس” قرار دے کر غیر قانونی جرگہ نظام کے خاتمے کا وعدہ کیا، مگر بہت سے حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جوش صرف وقتی عوامی دباؤ کا نتیجہ ہے، جو میڈیا کی توجہ ہٹنے کے بعد سرد پڑ جائے گا۔ اور ماضی کے تلخ تجربات ہمیں یہی سکھاتے ہیں کہ صرف وقتی بیانات، قانون کی حکمرانی کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔
یہ معاملہ صرف بلوچستان تک محدود نہیں۔ راولپنڈی میں بھی 18 سالہ صدرا بی بی کو اس کے خاندان نے اس لیے مار ڈالا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔ اسے گھونٹ کر قتل کیا گیا اور لاش کو خفیہ قبر میں دفن کر دیا گیا۔ یہ قتل بھی مقامی پنچایت کے حکم پر ہوا۔ بعد ازاں جب پوسٹ مارٹم کیا گیا تو قتل ثابت ہوا، اور نو افراد گرفتار ہوئے جن میں اس کا باپ اور سابق شوہر بھی شامل تھے۔ لیکن یہ صرف دو واقعات ہیں۔ ایسے سینکڑوں کیس ہر سال رونما ہوتے ہیں جن کی نہ کوئی گنتی ہوتی ہے نہ کوئی انصاف۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2024 میں 405 غیرت کے نام پر قتل رپورٹ ہوئے، جو گزشتہ برس کے 226 کیسز سے تقریباً دوگنا ہیں۔ مگر ماہرین اور حقوق انسانی کے ادارے سمجھتے ہیں کہ اصل تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے، کیونکہ بیشتر کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے، یا انہیں مختلف عنوانات سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ تمام واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ 2016 میں غیرت کے نام پر قتل کے قانون میں کی جانے والی ترمیم، جس کے تحت مقتول کے اہل خانہ قاتل کو معاف نہیں کر سکتے، محض کاغذی کاروائی بن چکی ہے۔ جرگے اب بھی غیر قانونی فیصلے صادر کرتے ہیں، خاص طور پر قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کے علاقوں میں۔ پولیس، یا تو جان بوجھ کر، یا مقامی دباؤ کے تحت، ایسے معاملات میں مداخلت سے گریز کرتی ہے۔ اور جب تک ریاستی ادارے اس غیر قانونی نظام کو چیلنج نہیں کریں گے، تب تک انصاف محض ایک خواب ہی رہے گا۔
معاشرے میں مزاحمت کرنے والے خاندان یا خواتین اکثر تنہائی، سماجی بائیکاٹ یا مزید تشدد کا شکار بنتے ہیں۔ گواہوں کے تحفظ کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ اور وہ جو ریاست کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں، انہیں اکثر مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
سوال یہ ہے: کتنی اور عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہونی چاہئیں تاکہ ریاست جاگے؟ صرف عوامی غم و غصہ اور میڈیا کا شور شرابا کافی نہیں۔ قانون کا بول بالا ہونا چاہیے، اور رسم و رواج جو انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بنیں، انہیں کھلے عام چیلنج کیا جانا چاہیے۔
جب ریاست کی خاموشی ظلم کا ساتھ دینے لگے، تو مجرموں کے حوصلے بڑھتے ہیں۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل، ایک ایسا جرم ہے جو معاشرتی حمایت، رسم و رواج کی پشت پناہی، اور ریاستی بے عملی کے نتیجے میں پھلتا پھولتا جا رہا ہے۔ دی انڈیپنڈنٹ، ڈان اور حالیہ دی نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق، “غیرت” کے نام پر قتل کو ایک غیر اعلانیہ قبولیت حاصل ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں جرگہ اور پنچایت کلچر قانون سے بالاتر تصور کیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے 2019 میں جرگہ نظام پر پابندی عائد کی، مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یہ پابندی صرف کاغذوں میں زندہ ہے۔ بلوچستان سے لے کر پنجاب کے دیہی علاقوں تک، غیر رسمی عدالتی نظام بدستور قائم ہے اور اپنی من مانیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس نظام کے تحت عورت کو نہ صرف جرم کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ اسے اپنی زندگی، پسند، اور رائے سے مکمل طور پر محروم کر دیا جاتا ہے۔
یہ جرگے محض سفارش نہیں دیتے، بلکہ ان کے “فیصلے” موت کے پروانے بن کر سامنے آتے ہیں۔ اور جب ان کے خلاف ریاستی ادارے کچھ نہیں کرتے، تو یہ ایک اجتماعی گناہ بن جاتا ہے۔ پولیس یا تو سیاسی دباؤ کا شکار ہوتی ہے، یا قبائلی اثر و رسوخ کی وجہ سے خاموش رہتی ہے۔ یہی خاموشی قاتلوں کو مزید بے خوف بناتی ہے۔
غیرت کے نام پر قتل صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے خاندان، برادری، اور سماج کا جرم ہوتا ہے۔ بانو بی بی کا بھائی اگر قاتل ہے تو اس کی ماں، جرگہ، اور وہ تمام لوگ جو اس واقعے کے علمبردار بنے، سب شریکِ جرم ہیں۔ اسی طرح صدرا بی بی کا قتل بھی صرف باپ یا سابق شوہر کا فعل نہیں بلکہ ایک نظام کی شکست کا شاخسانہ ہے جو عورت کے حقِ انتخاب کو جرم سمجھتا ہے۔
اب وقت ہے کہ ریاست نرمی اور مفاہمت کی روش ترک کرے۔ ایک فعال اور خودمختار قومی کمیشن برائے انسدادِ غیرت کے نام پر قتل قائم کیا جائے، جو ہر کیس کی آزادانہ تحقیقات کرے، اور متاثرہ خاندانوں کو قانونی و نفسیاتی مدد فراہم کرے۔ ساتھ ہی، ایک جامع نیشنل ڈیٹا بیس بنایا جائے جس میں تمام صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے کیسز درج ہوں، تاکہ مستقبل کی پالیسی سازی میں حقیقی اعداد و شمار کی مدد لی جا سکے۔
اس سے بھی بڑھ کر، قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے پولیس اور عدلیہ کو مکمل آزادی، تربیت اور تحفظ فراہم کیا جائے۔ گواہوں کے لیے پروٹیکشن پروگرام متعارف کرایا جائے، اور جرم میں شریک ہر شخص — خواہ وہ جرگہ کا سردار ہو یا مقتولہ کا عزیز — قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
یہ فیصلہ اب ریاست کو کرنا ہوگا: کیا اس کا جھکاؤ رسم کی طرف ہے یا قانون کی طرف؟ کیونکہ جب تک قانون رسم سے کمزور رہے گا، غیرت کے نام پر قتل ہوتا رہے گا — اور ریاست، اپنے شہریوں کے خون میں لت پت، محض تماشائی بنی رہے گی۔
