اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی غیرمشروط قرار داد میں رمضان کے دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں 14 ارکان نے حق میں ووٹ دیا اور ایک (امریکہ) نے غیر حاضری کے ساتھ اتنی مہربانی کی کہ قراداد کو ویٹو نہ کیا۔
تاہم اگلے دن، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے برقرار رکھا کہ یہ قرارداد غیروشروط تھی – ایک ایسا بیان جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے حوالے سے غلط ہے لیکن جو یقینی طور پر زمینی حقائق کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ اسرائیلی مسلح افواج نے دعویٰ کیا کہ ان کے جیٹ طیاروں نے 60 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔ غزہ میں منگل کو غزہ کی وزارت صحت نے 70 ہلاکتوں کا دعویٰ کیا۔
چاہے جیسا بھی ہو، امریکہ کی عدم شرکت کو اسرائیلی مداخلت پر امریکی سیاسی قیادت کے بڑھتے ہوئے غصے کی عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو شہری ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہ کیے جانے اور علاقے میں خوراک کی اجازت دینے سے مسلسل انکار کے سبب پیدا ہوا ہے۔
انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کی درجہ بندی، ایک درجن سے زیادہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، علاقائی اداروں اور امدادی گروپوں کی تحقیق نے تباہ کن بھوک کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد 11 لاکھ کا اندازہ لگایا ہے- (2023 کے آغاز میں، غریب ساحلی انکلیو کی آبادی 23 لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی)
تاہم، شکوک و شبہات برقرار ہیں کہ اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات کے ساتھ ہی سلامتی کونسل میں امریکی عدم شرکت کے پیچھے ووٹروں کے غضپے میں کمی کرنا ہے جو ڈیموکریٹ انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل کو جدید ترین ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی پر اظہار ناراضگی کر رہے تھے۔ پہلی بار اپنے دفاع کے اسرائیلی بیانیے کا اب کوئی اثر نہیں رہا کیونکہ اسرائیلی مسلح افواج کی جانب سے بے تحاشہ طاقت کے استعمال کی خوفناک تصاویر سوشل میڈیا پر مظلوم فلسطینیوں کی طرف سے اپ لوڈ کی جا رہی ہیں۔
اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوشل میڈیا جعلی خبریں پھیلاتا ہے، افراد/ اداروں کے خلاف تباہ کن مہم چلاتا ہے اور ملزمان کو دفاع یا جواب کا آپشن دیے بغیر بدنام کرتا ہے، پھر بھی یہ ایک ایسا جن ہے جو اب بوتل سے باہر ہے۔ ; اور قومیں ٹکنالوجی میں ہمارے مقابلے میں کافی زیادہ ترقی یافتہ ہیں ابھی تک ایسی ٹیکنالوجی نہیں لا پائی ہیں جو اس جن کو دوبارہ بوتل میں ڈال سکے۔
سوشل میڈیا آؤٹ لیٹ پر پابندی لگانے سے افراد/اداروں کے خلاف زہر کے بہاؤ کو نہیں روکا جا سکے گا کیونکہ یہاں تک کہ ایپ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پابندی، جو پہلے ٹویٹر تھا، نے انتظامیہ کے کئی اراکین کو پابندی کو نظرانداز کرنے کے لیے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک/ وی پی این استعمال کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ اگرچہ ملک میں بڑے اسٹیک ہولڈرز پر شدید زبانی حملے کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود وسیع پیمانے پر نگرانی یا کسی بھی سوشل میڈیا نیٹ ورک پر مکمل پابندی کامیاب نہیں ہو سکی ہے کیونکہ حملوں کی تعداد اور بدنیتی میں کمی نہیں آئی ہے۔
یہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہونا چاہیے کیونکہ ملک متعدد مسائل سے دوچار ہے، جس میں ایک وسیع اقتصادی تعطل سے لے کر دہشت گردانہ حملوں میں اضافے تک شامل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں ہونے والی غلطیوں سے کچھ قیمتی سبق سیکھنے کی ضرورت پر اس سے زیادہ زور نہیں دیا جا سکتا۔
غلط فیصلوں کے زریعے جآئز مقصد حاصل نہیں ہوسکتا- جیسے حکومت جبر کے ساتھ نجکاری کے پراسس کو چلانے کا قصد کرنا- اس بات کے زبردست شواہد موجود ہیں کہ کسی بھی کمپنی کو پرائیویٹائز کرنے کی کوئی بھی کوشش، خاص طور پر جہاں طاقتور یونینز کام کرتی ہیں، ہمیشہ عدالت میں پہنچتی ہیں۔ چند ماہ قبل اس وقت کی نگراں حکومت نے عوامی توانائی کے شعبے کی کمپنیوں کو ضروری خدمات قرار دیتے ہوئے ہڑتال کی کارروائی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ ایک کوشش ہو سکتی ہے جس کا مقصد ان کی مجوزہ نجکاری کے خلاف یونین کی مزاحمت کو کچلنا ہے۔ اس کے جواب میں، کمپنیوں کی متاثرہ یونینوں نے ٹریڈ یونین کے حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے لیے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی مداخلت کی درخواست کی ہے اور جب کہ اس کا نتیجہ ابھی تک واضح نہیں ہے، تاہم اسٹیک ہولڈرز کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ قانونی چارہ جوئی کے بہت کم امکانات کے ساتھ نجکاری کا عمل مکمل طور پر شفاف ہو۔ جیسا کہ پاکستان اسٹیل ملز کے ساتھ ہوا۔ پی آئی اے ملازمین کی پیپلز یونٹی نے مجوزہ نجکاری کے خلاف گزشتہ ماہ سندھ ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرائی تھی۔ اور ذوالفقار علی بھٹو اور جسٹس شوکت صدیقی کے مقدمات کے حالیہ فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انصاف میں خواہ تاخیر کیوں نہ کی گئی ہو بہر حال اسے فراہم کیا گیا۔
سوشل میڈیا نے مزاحمت کو کچلنے کی کسی بھی کوشش یا کسی بھی مسئلے پر بحث کو بے کار قرار دیا ہے اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں واضح طور پر ظاہر ہونے کے بعد اس کے حقیقت میں بیک فائر ہونے کے امکانات کو بڑھا دیا ہے۔ مرکزی دھارے کا میڈیا اس سادہ وجہ سے کامیاب نہیں ہوا ہے کہ اب وہ سوشل میڈیا پر معلومات کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔ لہٰذا کوئی یہ دلیل دے گا کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے لیے اسے تھپتھپانے یا اس کے استعمال کرنے والوں کے خلاف تعزیری اقدامات کرنے سے کہیں زیادہ کارآمد ہوگا جن میں سے اکثر اس ملک کے رہائشی بھی نہیں ہیں۔
بجلی کے سرکاری اداروں کی نا اہلی کی سزا صارفین کیوں بھگتيں؟
روزنامہ قوم ملتان میں شایع ہونے والی ایک بجلی کی کھپت میں مسلسل انحطاط بارے ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بہت ہی خوفناک انکشافات سامنے آئے ہیں- نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے کہا ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی ازاد کمپنیوں کی کل استعداد پیداوار کے مقابلے میں محض 26 سے 27 فیصد بجلی خریدی جارہی ہے جبکہ بجلی کے صارفین سے 80 فیصد چارجز نہ استعمال ہونے والی بجلی کی قیمت کے طور پر بطور کیپسٹی چارجز کے طور پر وصول کیے جارہے ہیں جبکہ پوری دنیا میں کیپسٹی چارجز 30 سے 35 فیصد کے درمیان ہی رہتے ہیں- تحقیقاتیی رپورٹ نے بتایا ہے کہ بجلی کے کیپسٹی چارجز کے سبب ملکی صنعتوں کو بجلی مہنگے داموں دی جا رہی ہے جس سے مصنوعات کی لاگت بڑھ رہیی ہے اور پاکستانی صعنتکار عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر پا رہے ہیں- اس سے یہ اندزہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہئیے کہ بجلی کے کیپسٹی چارجز نہ صرف بجلی کے عام صارفین پر بہت بڑا بوجھ ہیں بلکہ یہ ہماری صعنتوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہورہے ہیں- نیپرا کا کہنا ہے کہ بجلی کی کھپت میں اضافے کی بجائے کمی کی ذمہ داری پاکستان کے پاور سسٹم میں شامل ادارے ہیں جن میں وزرات توانائی ، سنٹرل پرچیزنگ ایجنسی ، بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اور ٹراسمیشن لائن سسٹم کمپنی ہیں- یہ ساری تفصیل پڑھ کر ایک ہی سوال ذہن میں آتا ہے: بجلی کے سرکاری اداروں کی نا اہلی کی سزا صارفین کیوں بھگتیں اور جو بجلی وہ استعمال ہی نہیں کر رہے اس کی قیمت کیوں دیں؟ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں مسلسل فیول سرچارج ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی درخواستیں نیپرا کو دیتے ہیں اور اس طرح سے وہ اپنے مجموعی خسارے کو قابو میں رکھنے کی سبیل کرتے ہیں لیکن اس دوران ان کے اندر جن سٹرکچرل خرابیوں کے سبب ان کی مالیاتی حالت پتلی رہتی ہے وہ انہیں دور کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا سکے ہیں نہ ہی حکومت نے اس طرف کوئی پیش قدمی کی ہے۔ اخر کب تک محض بجلی کے صارفین پر بوجھ ڈالنے سے خساروں پر قابو پانے کی پالیسی کام دکھاتی رہے گی- عوام کی قوت خرید بجلی، تیل اور گیس کے بلوں میں ٹیکسز میں اضافوں سے پہلے ہی ختم ہونے لگی ہے اور ان کے ہاں اپنی آمدنی سے کچھ حصّہ بچا لینا تو اب ایک خواب سا لگ رہا ہے تو جلد بدیر حکومت کے پاس صارفین پر سارا بوجھ ڈالنے کا آپشن ختم ہوجآغے گا، پھر وہ کیا کرےگی؟