دو برس گزر چکے ہیں اُس سانحے کو جس نے مشرقِ وسطیٰ کی بنیادیں ہلا دیں — 7 اکتوبر 2023 کے وہ واقعات جب حماس کے حملوں نے اسرائیل کے جارحانہ غرور کو چیلنج کیا، اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن گیا۔ اب، دو سال بعد، مصر میں حماس اور اسرائیل کے نمائندے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ مذاکرات واقعی پائیدار امن کی طرف بڑھ سکتے ہیں؟ تاریخ اور زمینی حقیقت دونوں اس کے برعکس گواہی دیتے ہیں۔ اسرائیل کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کسی بھی معاہدے کی پاسداری کرے گا، اور اس کی موجودہ حکومت — جو شدت پسند صہیونی عناصر پر مشتمل ہے — امن نہیں بلکہ مکمل تسلط کی خواہش رکھتی ہے۔گزشتہ دو برسوں میں جو کچھ غزہ میں ہوا وہ محض ایک جنگ نہیں تھی؛ وہ انسانیت کے خلاف جدید دور کا پہلا لائیو اسٹریم نسل کشی تھی — ایک ایسی درندگی جو عالمی ضمیر کے سامنے، براہِ راست کیمروں کے ذریعے انجام دی گئی۔ اسرائیل نے غزہ کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا، 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 20 ہزار سے زیادہ بچے شامل تھے۔ عورتیں، بزرگ، حاملہ خواتین، معذور افراد — کوئی بھی اس وحشت سے محفوظ نہ رہا۔ اسرائیل نے محاصرہ، بھوک، اور بمباری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ مغربی دنیا، جو خود کو انسانی حقوق کی علمبردار کہتی ہے، اس ظلم کی شریکِ جرم بنی رہی۔امریکہ، برطانیہ، فرانس، اور جرمنی جیسے ممالک نے نہ صرف اسرائیل کے جرائم کی پردہ پوشی کی بلکہ اسے سیاسی، مالی اور عسکری سرپرستی فراہم کی۔ دوسری طرف، مسلم دنیا نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔ عرب ممالک، جو فلسطین کے مسئلے کے تاریخی وکیل تھے، اب تجارتی مفادات” اور “سفارتی تعلقات” کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہی خاموشی دراصل اسرائیل کی اصل قوت ہے۔غزہ آج ایک اجتماعی قبرستان بن چکا ہے۔ اسپتال تباہ، اسکول ملبے میں تبدیل، بچے ماؤں کی لاشوں کے پہلو میں رو رہے ہیں، اور دنیا کے دارالحکومتوں میں سفارت کار اب بھی ’’فریقین سے تحمل‘‘ کی اپیل کر رہے ہیں۔ یہ وہی منافقت ہے جس نے عالمی انصاف کے نظام کو ایک تماشا بنا دیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ حماس کے حملوں سے پہلے بھی اسرائیل نے 18 برس تک غزہ کا ظالمانہ محاصرہ برقرار رکھا۔ یہ علاقہ ایک کھلی جیل بن چکا تھا جہاں پانی، خوراک، دوائی، تعلیم، اور آزادی سب پر پابندیاں تھیں۔ 20 لاکھ سے زائد انسان اس ’’قیدِ ناحق‘‘ میں زندگی گزار رہے تھے۔ اس پس منظر میں 7 اکتوبر کے واقعات کو صرف ’’دہشت گردی‘‘ کہہ دینا غیر منصفانہ اور سطحی ہوگا۔ یہ ایک مجبور عوام کی چیخ تھی جو برسوں کی ذلت اور غلامی کے خلاف اٹھی۔اب جب کہ مصر میں مذاکرات جاری ہیں، تل ابیب کی گولہ باری بدستور جاری ہے۔ اسرائیلی فوج مغربی کنارے میں بھی جبر و ظلم کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ ہر دن نئے شہید، نئی لاشیں، نئی نسل کی تباہی کی خبر لاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ٹرمپ کا امن منصوبہ محض ایک دکھاوا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم رکھنا نہیں بلکہ امریکی صدر کی سیاسی خودنمائی ہے — ایک ایسا “حل” جو اسرائیل کو فاتح اور فلسطینیوں کو محکوم ثابت کرتا ہے۔اس امن منصوبے میں نہ انصاف کی بنیاد ہے، نہ مساوات کی۔ اسرائیل سے اس کے جرائم کا حساب لینے کی کوئی بات نہیں۔ 67 ہزار شہداء کی قربانی، ہزاروں معذوروں کی چیخیں، لاکھوں یتیم بچوں کے آنسو — یہ سب کچھ محض ایک ’’سیاسی توازن‘‘ کے تحت نظرانداز نہیں کیے جا سکتے۔ اگر عالمی برادری واقعی امن چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے انصاف دینا ہوگا۔ انصاف کے بغیر امن کا کوئی مفہوم نہیں۔غزہ کا مستقبل تبھی محفوظ ہو سکتا ہے جب اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرایا جائے — جب جنگی جرائم پر عالمی عدالت میں مقدمے چلیں، جب مغربی ممالک اپنی منافقانہ دوغلی پالیسیوں سے توبہ کریں، اور جب عرب دنیا خوابِ غفلت سے جاگے۔غزہ کے عوام کو ’’تکنوکریٹ کمیٹی‘‘ یا ’’عبوری حکومت‘‘ نہیں چاہیے۔ انہیں آزادی، خودمختاری، اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق چاہیے۔ ایک ایسا فلسطین جس کی سرحدیں مکمل ہوں، جس کا دارالحکومت یروشلم (القدس) ہو، اور جہاں کوئی اسرائیلی ٹینک، کوئی چیک پوسٹ، اور کوئی ڈرون ان کی سانسوں پر پہرہ نہ دے۔ جب تک یہ نظریہ ختم نہیں ہوتا، غزہ میں ہر امن معاہدہ عارضی ثابت ہوگا۔آج دنیا کو ایک فیصلہ کرنا ہے — کیا وہ ظلم کے ساتھ کھڑی رہے گی یا مظلوم کے ساتھ؟ کیا وہ طاقت کے نشے میں اندھی ریاست کے جرائم پر پردہ ڈالتی رہے گی یا انسانیت کے ساتھ کھڑی ہوگی؟غزہ کا مستقبل صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل یہ آگ کسی اور شہر، کسی اور قوم کو جلا ڈالے گی۔غزہ کے بچے، جو کھنڈرات میں کھیل رہے ہیں، وہی آنے والے کل کا مقدمہ بنیں گے۔ وہ دنیا سے پوچھیں گے — جب ہماری ماؤں پر بم برس رہے تھے، تمہاری عدالتیں کہاں تھیں؟ جب ہمارے اسکولوں کو ملبے میں بدلا جا رہا تھا، تمہارے اصول کہاں تھے؟ اور جب ہم بھوک سے مر رہے تھے، تمہارے ضمیر کیوں خاموش تھے؟غزہ کے مستقبل کا فیصلہ بند کمروں میں نہیں، بلکہ عالمی ضمیر کی عدالت میں ہوگا۔ اگر انصاف زندہ رہا، تو فلسطین بھی زندہ رہے گا۔ اگر انصاف مر گیا، تو انسانیت بھی دفن ہو جائے گی۔اور شاید اسی لیے آج بھی غزہ کے ملبے سے ایک صدا بلند ہو رہی ہے —۔
“ہم ملبے میں بھی زندہ ہیں، ہم شکست نہیں مانیں گے۔ ہمارا وطن مٹی میں ضرور ہے، مگر ہم خود مٹی نہیں ہوئے۔”
