امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعلان کہ امریکہ غزہ پر قبضہ کر کے اسے ترقی دے گا اور فلسطینیوں کو کہیں اور بسایا جائے گا، ایک نہایت خطرناک سامراجی سازش ہے جو نہ صرف فلسطینی عوام کی خودمختاری پر حملہ ہے بلکہ عالمی سامراجی پالیسیوں کا نیا اور کھلا مظہر بھی ہے۔ اس اعلان نے امریکی سامراج کے اصل عزائم کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے، جہاں وہ اسرائیل کی صہیونی حکومت کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔یہ اعلان اس حقیقت کو مزید اجاگر کرتا ہے کہ امریکہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھلی دشمنی کر رہا ہے اور اس کے اقدامات کا مقصد اسرائیل کے استعماری ایجنڈے کو مضبوط کرنا ہے۔ غزہ، جو پہلے ہی دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بن چکا ہے، اب امریکی سامراج کے براہ راست قبضے کی زد میں آ چکا ہے۔ فلسطینی عوام گزشتہ 75 سال سے اسرائیلی ظلم و جبر کا سامنا کر رہے ہیں، اور اب امریکہ اس ظلم میں شراکت دار بننے کے بجائے براہ راست غاصب بننے جا رہا ہے۔امریکہ کا غزہ پر قبضے کا خواب دراصل ایک نوآبادیاتی اور نسل کش سامراجی منصوبے کی توسیع ہے۔ فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بےدخل کرنے کی تجویز دینا درحقیقت Ethnic Cleansing یعنی نسلی صفائی کی ہی ایک شکل ہے۔ یہ وہی پالیسی ہے جس کے ذریعے 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بےدخل کر دیا گیا تھا اور ان کی زمینوں پر ناجائز صہیونی بستیاں تعمیر کی گئیں۔اب ٹرمپ اسی پرانے سامراجی منصوبے کو ایک نئے انداز میں لاگو کرنا چاہتے ہیں، جہاں فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے نکال کر غزہ کو امریکی اور اسرائیلی سرمایہ داروں کے لیے “ترقیاتی منصوبہ” بنا دیا جائے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام کو کہاں بسایا جائے گا؟ کیا انہیں جبر و ظلم کے ساتھ دوسرے عرب ممالک میں پناہ گزین بنا دیا جائے گا؟ کیا انہیں شام، اردن یا لبنان میں دھکیل دیا جائے گا جہاں پہلے ہی لاکھوں فلسطینی مہاجرین موجود ہیں؟یہ اعلان نہ صرف فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی دھجیاں اڑاتا ہے۔ عالمی برادری ہمیشہ فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتی آئی ہے، اور اقوام متحدہ کی متعدد قراردادیں واضح طور پر کہتی ہیں کہ فلسطینی عوام کو اپنے وطن میں آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔جب بھی امریکہ یا اسرائیل فلسطین میں “ترقی” کی بات کرتے ہیں، تو اس کا مطلب درحقیقت سرمایہ دارانہ استحصال، نوآبادیاتی قبضہ اور فلسطینی عوام کی مزید غلامی ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اعلان میں کہا کہ امریکہ غزہ میں “ہزاروں نوکریاں” پیدا کرے گا، لیکن اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ وہاں سامراجی سرمائے کی منڈی بنائی جائے گی، جہاں مقامی فلسطینیوں کو ایک سستی مزدور قوت کے طور پر استعمال کیا جائے گا، جبکہ تمام منافع امریکی اور اسرائیلی سرمایہ داروں کی جیب میں جائے گا۔یہ وہی پالیسی ہے جو سامراجی قوتیں عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اپناتی رہی ہیں۔ پہلے ان ممالک میں جنگ مسلط کی جاتی ہے، پھر انہیں “دوبارہ تعمیر” کرنے کے نام پر وہاں سامراجی معیشت قائم کی جاتی ہے، جہاں مقامی عوام کا استحصال کر کے ان کے وسائل کو بیرونی طاقتوں کے قبضے میں دے دیا جاتا ہے۔غزہ میں بھی یہی منصوبہ دہرایا جا رہا ہے۔ پہلے اسرائیل نے غزہ کو ایک کھلی
جیل میں تبدیل کر دیا، ہر طرف محاصرہ کر کے اسے دنیا سے کاٹ دیا، اور اب امریکہ وہاں قبضے کی تیاری کر رہا ہے تاکہ اسے ایک نئے سرمایہ دارانہ نوآبادیاتی ماڈل میں تبدیل کیا جا سکے۔یہ اعلان اس حقیقت کو بھی بے نقاب کرتا ہے کہ امریکہ نہ صرف اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے بلکہ وہ خود براہ راست فلسطین پر قبضے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو مکمل مالی، فوجی اور سیاسی حمایت فراہم کرتا رہا ہے۔امریکی کانگریس ہر سال اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتی ہے، جو فلسطینیوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔ غزہ پر بمباری کے لیے جو جنگی جہاز، میزائل اور جدید اسلحہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ سب امریکی امداد سے خریدا جاتا ہے۔ اب امریکہ صرف پردے کے پیچھے نہیں بلکہ کھل کر اسرائیلی مظالم کا حصہ بننے جا رہا ہے۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی سامراجی طاقت زیادہ دیر تک کسی قوم کو غلام نہیں رکھ سکی۔ ویتنام، الجزائر، کیوبا، عراق، افغانستان، اور کئی دیگر قوموں نے سامراجی طاقتوں کو شکست دی ہے۔ فلسطینی عوام کی مزاحمت بھی ناقابل شکست ہے، اور وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑتے رہیں گے۔فلسطینی عوام گزشتہ 75 سال سے مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے کتنی ہی بار انہیں کچلنے کی کوشش کی، لیکن ہر بار فلسطینی عوام پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد بھی فلسطینی عوام اپنی آزادی کی جنگ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔دنیا بھر میں ترقی پسند قوتوں، سامراج مخالف تحریکوں، سوشلسٹ اور کمیونسٹ گروہوں کو اس امریکی سامراجی اعلان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ فلسطین کی آزادی کسی نام نہاد امن منصوبے یا معاشی ترقی سے مشروط نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ ایک بنیادی انسانی، اخلاقی اور سیاسی مسئلہ ہے، جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا اعلان محض سرمایہ دارانہ فریب ہے، جس کا مقصد فلسطینی عوام کو مزید غلام بنانا، ان کے وسائل پر قبضہ کرنا، اور امریکی و اسرائیلی سرمایہ داروں کے لیے ایک نئی منڈی قائم کرنا ہے۔ لیکن یہ منصوبہ ناکام ہوگا۔ فلسطینی عوام اپنی سرزمین کا سودا نہیں کریں گے، اور سامراجی طاقتیں انہیں ہمیشہ کے لیے محکوم نہیں رکھ سکتیں۔یہ وقت ہے کہ پوری دنیا کی ترقی پسند، بائیں بازو کی، اور سامراج مخالف تحریکیں فلسطین کے ساتھ کھڑی ہوں۔ غزہ پر قبضہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا، اور فلسطینی عوام اپنی جدوجہد آزادی جاری رکھیں گے۔ سامراجی قبضہ ہمیشہ کے لیے نہیں رہ سکتا، اور وہ دن دور نہیں جب فلسطین کے عوام اپنی آزاد ریاست کا سورج طلوع ہوتا دیکھیں گے۔غزہ کسی کی جاگیر نہیں، فلسطین کی سرزمین ہے اور ہمیشہ فلسطین کی رہے گی!
پرنس کریم آغا خان: ترقیاتی خدمات کا درخشاں باب
اسماعیلی جماعت کے روحانی پیشوا پرنس کریم الحسینی آغا خان چہارم 88 برس کی عمر میں لزبن میں انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کی خبر آغا خان ترقیاتی نیٹ ورک نے جاری کی، اور ان کے نامزد جانشین کے اعلان کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ان کا شمار دنیا کے پندرہ ملین اسماعیلیوں کے 49ویں موروثی امام کے طور پر ہوتا تھا، اور وہ نہ صرف اپنی مذہبی قیادت بلکہ عالمی ترقیاتی منصوبوں میں اپنی خدمات کے باعث بھی جانے جاتے تھے۔ان کے انتقال پر عالمی رہنماؤں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ان کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے انہیں امن، رواداری اور ہمدردی کی علامت قرار دیا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ آغا خان نے اپنی زندگی کو عالمی امن اور خوشحالی کے لیے وقف کر رکھا تھا اور ان کی خدمات میں غربت کے خاتمے، تعلیم اور صنفی برابری کے لیے کام کرنا شامل تھا۔پرنس کریم آغا خان 13 دسمبر 1936 کو جنیوا میں پیدا ہوئے اور بچپن کا ابتدائی حصہ نئیروبی، کینیا میں گزارا۔ بعد ازاں وہ سوئٹزرلینڈ واپس آئے، جہاں انہوں نے لے روزے اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہوں نے امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ کی تعلیم حاصل کی۔1957 میں، جب ان کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان کا انتقال ہوا، تو وہ صرف 20 برس کی عمر میں اسماعیلی جماعت کے روحانی پیشوا بنے۔ انہوں نے اس ذمہ داری کو انتہائی دانشمندی اور جدید سوچ کے ساتھ نبھایا اور اپنی قیادت کے دوران نہ صرف اپنی جماعت کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات انجام دیں بلکہ عالمی ترقیاتی منصوبوں میں بھی ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔آغا خان” کا لقب، جو فارسی اور ترکی زبانوں سے لیا گیا ہے، ان کے پردادا کو 1830 کی دہائی میں ایرانی بادشاہ نے عطا کیا تھا۔ یہ منصب انہیں نہ صرف اسماعیلی جماعت کی روحانی رہنمائی کا اختیار دیتا تھا بلکہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں مقیم اسماعیلی برادری کے سماجی اور معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے بھی سرگرم رہے۔ ان کی قیادت کے تحت وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، افریقہ، یورپ اور شمالی امریکہ میں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بہتر ہوئیں۔آغا خان چہارم نے 1967 میں آغا خان ترقیاتی نیٹ ورک کی بنیاد رکھی، جو دنیا کی بڑی غیر سرکاری ترقیاتی تنظیموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس نیٹ ورک کے تحت 80,000 سے زائد افراد کام کرتے ہیں اور یہ تنظیم تعلیم، صحت، توانائی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے کام کر رہی ہے۔انہوں نے دنیا کے پسماندہ اور غریب ترین علاقوں میں اسکول، اسپتال اور انفراسٹرکچر کے منصوبے متعارف کرائے۔ ان کا ماننا تھا کہ غربت انتہا پسندی اور مایوسی کو جنم دیتی ہے، اور اسی وجہ سے وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ ترقیاتی کاموں کے ذریعے معاشرتی استحکام کو فروغ دیا جائے۔ 2007 میں نیویارک ٹائمز کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، “اگر آپ ترقی پذیر دنیا کا سفر کریں، تو دیکھیں گے کہ غربت مایوسی کو جنم دیتی ہے، اور مایوسی سے نکلنے کے لیے لوگ کوئی بھی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔”ان کی ترقیاتی حکمت عملی نے دنیا کے کئی خطوں میں مثبت تبدیلیاں پیدا کیں۔ ان کی تنظیم نے افریقہ اور ایشیا میں لاکھوں افراد کو بجلی کی سہولت فراہم کی، معیاری تعلیم کو فروغ دیا، اور صحت کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے یوگنڈا میں ایک بینک، ایک دواساز کمپنی اور ایک فش نیٹ فیکٹری کی بنیاد بھی رکھی، جس کا مقصد معیشت کو بہتر بنانا اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا تھا۔آغا خان چہارم ایک منفرد شخصیت کے حامل تھے، جنہوں نے روحانیت، ترقی اور سرمایہ داری کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔ وہ نہ صرف روحانی رہنما تھے بلکہ ایک کامیاب کاروباری شخصیت بھی تھے، جنہوں نے مختلف تجارتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی اور کئی اہم ترقیاتی منصوبوں کو ممکن بنایا۔مشہور جریدے وینٹی فیئر نے 2013 میں لکھا، “بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو روحانی اور مادی دنیا، مشرق و مغرب کے معاشروں کے درمیان اتنے شاندار انداز میں توازن قائم کر سکتی ہیں جتنا آغا خان کرتے تھے۔”آغا خان چہارم کو گھڑ دوڑ کا بےحد شوق تھا، اور ان کے گھوڑے کئی عالمی سطح کے مقابلے جیت چکے تھے۔ انہوں نے 1960 کی دہائی میں اس کھیل میں دلچسپی لینا شروع کی اور جلد ہی فرانس میں سب سے کامیاب گھوڑوں کے مالکان میں شمار ہونے لگے۔ان کے کئی گھوڑے ایپسم ڈربی، آئرش ڈربی اور پری دلا رک ڈی ٹرائمف جیسے بڑے اعزازات جیت چکے ہیں۔ سب سے مشہور گھوڑوں میں شیرگار کا نام آتا ہے، جسے 1983 میں آئرلینڈ سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ اس اغوا کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا اور اس میں مختلف قیاس آرائیاں کی گئیں، جن میں مافیا، معمر قذافی اور آئرش ریپبلکن آرمی کے ملوث ہونے کی افواہیں شامل تھیں۔آغا خان کی ذاتی زندگی بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہی۔ انہوں نے 1969 میں برطانوی ماڈل سارہ کروکر پول سے شادی کی، جس سے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ 1995 میں دونوں میں طلاق ہو گئی۔ بعد ازاں 1998 میں انہوں نے جرمن نژاد گبریلا زو لیننجن سے شادی کی، جن سے ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا، لیکن 2014 میں یہ شادی بھی ختم ہو گئی۔آغا خان چہارم کی وفات کے بعد ان کے جانشین کے اعلان کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اسماعیلی برادری میں جانشینی نسلی اور دینی دونوں اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے، اور اس فیصلے کا اثر دنیا بھر میں اسماعیلی جماعت پر پڑے گا۔ان کی وفاتہ ایک عالمی رہنما، ایک ترقیاتی ماہر اور ایک سماجی انقلاب کے داعی کا بھی خاتمہ ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کیا اور ان کے ترقیاتی منصوبے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے روشنی کی کرن بنے۔
بحری معیشت زوال پذیر
پاکستان کی جہاز رانی کی صنعت ایک طویل عرصے سے بحران کا شکار ہے، اور حالیہ رپورٹس اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ملک کو سالانہ 5 کھرب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ مالی نقصان صرف کمزور بندرگاہی فعالیت، ٹیکس چوری، جعلی بلنگ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال اور ناقص پالیسیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ قیادتی فقدان اور حکومتی بے حسی کا ثبوت بھی ہے۔پاکستان، جو 1,046 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی اور 2,40,000 مربع کلومیٹر کے خصوصی اقتصادی زون کا حامل ہے، اپنی سمندری صلاحیتوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر چکا ہے۔ عالمی تجارت میں جہاں بحری راستے سب سے زیادہ مؤثر اور کم لاگت سمجھے جاتے ہیں، وہیں پاکستان کے پاس موجود بندرگاہیں اپنی مکمل صلاحیت کے آدھے سے بھی کم پر کام کر رہی ہیں۔کراچی پورٹ صرف 47 فیصد اور پورٹ قاسم 50 فیصد استعداد پر کام کر رہی ہے، جو ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس قدر کم استعمال کا مطلب ہے کہ نہ صرف ملکی معیشت کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی بحری صنعت بھی پسماندہ نظر آ رہی ہے۔ اس صورتحال کو نظر انداز کرنا پاکستان کی بحری معیشت کے مکمل انہدام کے مترادف ہوگا۔پاکستان کی بحری صنعت میں ہونے والے مالی نقصانات میں ایک بڑا حصہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال کا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، صرف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے ہر سال تقریباً 60 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔اس سہولت کا اصل مقصد افغانستان کو ضروری اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا، لیکن اس کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سامان نہ صرف پاکستانی مارکیٹ میں اسمگل ہو رہا ہے بلکہ اس سے ٹیکس چوری، جعلی انوائسنگ اور تجارتی بے ضابطگیوں کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ اس سے ملک میں مقامی صنعتوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور ریونیو کی ایک بڑی رقم ضائع ہو رہی ہے۔پاکستان کی بحری بندرگاہیں عالمی سطح پر مسابقتی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کے 60 بڑی بندرگاہوں میں پاکستان کا کوئی مقام نہیں۔ کراچی پورٹ کا نمبر 61 واں جبکہ پورٹ قاسم 146 ویں نمبر پر آتی ہے، جو عالمی سطح پر پاکستان کے کمزور بحری کردار کی عکاسی کرتی ہے۔یہ صورتحال اس وقت اور بھی پریشان کن ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ممالک جن کے پاس بحری وسائل پاکستان سے کہیں کم ہیں، وہ بھی اپنی بندرگاہوں کو مکمل طور پر ترقی دے کر اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔بنگلہ دیش، دبئی، عمان، اور ملائیشیا جیسے ممالک نے جدید بندرگاہی سہولیات، مؤثر پالیسی سازی اور سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی بحری صنعت کو ترقی دی، جبکہ پاکستان اب بھی روایتی طریقوں پر قائم ہے۔بحری معیشت محض جہاز رانی تک محدود نہیں بلکہ اس میں مچھلی پکڑنے کی صنعت، سمندری سیاحت، ساحلی توانائی کے منصوبے اور بحری تجارت جیسے شعبے بھی شامل ہیں۔ اگر پاکستان اپنی سمندری صلاحیتوں کو صحیح طریقے سے بروئے کار لائے تو یہ معیشت میں اربوں ڈالر کا اضافہ کر سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی اور جغرافیائی محل وقوع اتنا اہم ہے کہ عالمی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں، لیکن پالیسیوں میں عدم تسلسل، کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے مواقع ضائع ہو رہے ہیں۔بین الاقوامی سرمایہ کار بارہا پاکستان میں بحری شعبے میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں، لیکن حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ مواقع ضائع ہوتے جا رہے ہیں۔ گوادر پورٹ، جسے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت ایک عالمی تجارتی مرکز بنانے کا منصوبہ تھا، اب بھی مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکا۔حکومت کو سنجیدگی سے اس صنعت پر توجہ دینا ہوگی، ورنہ پاکستان عالمی بحری معیشت میں اپنا کردار مکمل طور پر کھو سکتا ہے۔بحری معیشت کے اس بحران کو حل کرنے کے لیے چند اہم اقدامات ناگزیر ہیں۔حکومت کو سب سے پہلے بندرگاہوں کی استعداد کو مکمل طور پر استعمال میں لانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ جدید بندرگاہی سہولیات کے بغیر، پاکستان عالمی سطح پر اپنی موجودگی کو بہتر نہیں بنا سکتا۔افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو سختی سے مانیٹر کرنے کے لیے مؤثر پالیسیوں کا نفاذ ناگزیر ہے۔ جب تک اسمگلنگ، جعلی انوائسنگ اور دیگر مالی بے ضابطگیاں بند نہیں ہوتیں، پاکستان کی بحری صنعت مکمل طور پر منافع بخش نہیں بن سکتی۔بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے ایک محفوظ اور دوستانہ ماحول پیدا کرنا ہوگا تاکہ وہ پاکستان میں بحری صنعت میں سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔اس کے علاوہ، بحری سیاحت اور ماہی گیری کی صنعت کو فروغ دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس موجود وسیع ساحلی علاقے کو اگر سمندری سیاحت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ ملک کے لیے اضافی زرِمبادلہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔پاکستان کو اپنی بحری تجارت کو بہتر بنانے کے لیے فری زونز (آزاد تجارتی علاقے) متعارف کروانے چاہئیں جہاں کم ٹیکس اور سہولیات فراہم کر کے عالمی تجارتی جہازوں کو راغب کیا جا سکے۔حکومت کو فوری طور پر ایک طویل المدتی پالیسی مرتب کرنی ہوگی جس کے ذریعے بحری معیشت کو ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی کا حصہ بنایا جائے۔نتیجہ: سمندری وسائل کو نظر انداز کرنا خودکشی کے مترادفپاکستان کے پاس موجود بحری وسائل ملکی معیشت کے لیے ایک سنہری موقع فراہم کرتے ہیں، لیکن انہیں نظر انداز کرنے کی قیمت بہت بھاری ہو سکتی ہے۔ سالانہ 5 کھرب روپے کا نقصان پاکستان کی بحری معیشت کی تباہ حالی کو ظاہر کرتا ہے، اور اگر اس پر فوری توجہ نہ دی گئی، تو پاکستان عالمی بحری معیشت میں اپنا مقام مکمل طور پر کھو سکتا ہے۔حکومت کو اب مزید وقت ضائع کیے بغیر، بحری صنعت میں وسیع اصلاحات متعارف کروانی ہوں گی تاکہ پاکستان اپنی سمندری تجارت کو بڑھا سکے، عالمی بندرگاہوں میں اپنا مقام بہتر بنا سکے، اور قومی معیشت کو مستحکم کر سکے۔سمندر کی گہرائیوں میں پاکستان کے روشن مستقبل کے خزانے چھپے ہوئے ہیں، لیکن انہیں حاصل کرنے کے لیے اب قوم کو ایک نئے جہاز پر سوار ہونا ہوگا!