یہ حقیقت کسی تجزیے یا تفصیل کی محتاج نہیں کہ اسرائیل کی غزہ پر یلغار صرف حماس کو ختم کرنے کی کوشش نہیں بلکہ پورے فلسطینی عوام کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور انہیں ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کا ایک سفاک منصوبہ ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد تل ابیب نے جو بربریت شروع کی، اس کے ابتدائی دنوں سے ہی واضح تھا کہ ہدف عسکری تنصیبات نہیں بلکہ نہتے شہری، بچے، عورتیں اور بزرگ ہیں۔اقوام متحدہ کا آزادانہ بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری اس حقیقت کی تازہ ترین گواہی ہے۔ منگل کو اس ادارے نے اسرائیلی قیادت — وزیرِاعظم، صدر اور سابق وزرائے دفاع — پر یہ سنگین الزام عائد کیا کہ انہوں نے براہِ راست نسل کشی پر اکسانے کے بیانات دیے۔ یہ محض ایک قانونی یا سیاسی جملہ نہیں، بلکہ ایک سنگین فردِ جرم ہے جسے اب دنیا نظرانداز نہیں کر سکتی۔یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات لگے ہوں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (MSF)، اقوام متحدہ کی خصوصی ماہر فرانسسکا البانیز اور حتیٰ کہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالرز جیسی معتبر آوازیں اس ظلم کو پہلے ہی نسل کشی قرار دے چکی ہیں۔ اسرائیل چاہے انہیں جھوٹ اور پروپیگنڈہ کہہ کر رد کرے، لیکن زمینی حقائق — بچوں کی مسخ شدہ لاشیں، ماں باپ کے سامنے بھوک سے تڑپتے نوزائیدہ — کسی جھٹلائی جانے والی حقیقت نہیں۔تاریخ کا یہ المیہ اور بھی دردناک ہے کہ وہ قوم جس کے آباؤ اجداد خود ہولوکاسٹ جیسے انسانیت سوز جرم کے شکار تھے، آج خود ایک جدید نسل کشی کے مرتکب ہیں۔ ہولوکاسٹ کی یاد میں دنیا کو مسلسل یہ سبق دیا گیا کہ “پھر کبھی نہیں” لیکن غزہ میں جاری قتل عام اسی وعدے کا کھلا مذاق ہے۔بعض مورخین کے مطابق اس نسل کشی کی جڑیں 1948 کی نَکبہ میں پیوست ہیں، جب لاکھوں فلسطینیوں کو زبردستی اپنی سرزمین سے بے دخل کیا گیا۔ لیکن اگر نَکبہ تاریخی تفسیر اور تعبیر کے مباحث میں لپٹی ہے تو غزہ کا قتلِ عام براہِ راست ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔ ٹی وی اسکرینوں اور موبائل فون پر ہر روز زندہ شواہد دنیا کے سامنے آرہے ہیں۔ یہ کوئی خفیہ یا مبہم معاملہ نہیں بلکہ ایک لائیو نسل کشی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا ابہام اور دوغلے پن کو چھوڑ دے۔ وہ ریاستیں اور ادارے جو ہمیشہ “نیور اگین” کا نعرہ بلند کرتے ہیں، اگر وہ آج خاموش رہتے ہیں تو ان کا یہ نعرہ محض منافقت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ فلسطینی عوام کی نسل کشی رکوانے کے لیے عالمی برادری کو متحد ہونا ہوگا۔ اسرائیلی قیادت پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے، جیسا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد نیورمبرگ ٹرائلز میں نازی قیادت کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا۔محض مذمتی بیانات اب کافی نہیں۔ اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی سربراہی میں ایک جامع بائیکاٹ، ہتھیاروں کی فراہمی پر مکمل پابندی، تجارتی و سفارتی تعلقات کی معطلی — بالکل اسی طرح جیسے نسل پرست جنوبی افریقہ پر عالمی پابندیاں عائد کی گئی تھیں — فوری طور پر نافذ کیے جانے چاہئیں۔ اگر کوئی ریاست یا طاقت اسرائیل کو اس کی بربریت میں فنڈنگ اور اسلحہ فراہم کرتی ہے تو اسے بھی شریکِ جرم سمجھا جائے۔فلسطین کے بچے آج انسانیت کے امتحان کا استعارہ ہیں۔ اگر دنیا ان کے قتل پر خاموش رہتی ہے، اگر عالمی طاقتیں اسرائیل کو کھلی چھوٹ دیتی ہیں، تو پھر انسانی حقوق، بین الاقوامی قانون اور انسانیت کے اصول محض کتابی جملے رہ جائیں گے۔ غزہ کی مٹی سے اٹھنے والی چیخیں صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی ہیں، اور اگر یہ نسل کشی یونہی جاری رہی تو یہ صدیوں تک عالمی ضمیر پر ایک بدنما داغ رہے گی۔
