غزہ، ایک ایسا نام جو اب صرف ایک جغرافیائی مقام نہیں رہا، بلکہ مظلومیت، مزاحمت، اور انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والی داستان کا عنوان بن چکا ہے۔ وہ خطہ جو کبھی زیتون کے درختوں، گرمجوشی سے لبریز بازاروں، اور معصوم ہنسیوں کا مسکن تھا، آج ملبے کا ڈھیر، آنسوؤں کا دریا، اور جنگی جنون کی نذر ایک نوحہ زدہ سرزمین ہے۔گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں مزید ساٹھ فلسطینی اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں، جب کہ تین سو چوالیس شدید زخمی ہوئے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں 7 اکتوبر 2023 سے اب تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 62,004 ہو چکی ہے، جب کہ 156,230 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ہر ایک ہندسہ کسی ماں کی گود اجڑنے، کسی باپ کی امید چھن جانے، کسی بچے کے کھلونوں کا ویران ہو جانے کی دلخراش علامت ہے۔یہ سوال اب ہر صاحبِ ضمیر انسان کے دل میں اٹھ رہا ہے: انسانی حقوق کے عالمی ادارے، اقوامِ متحدہ، اور مہذب دنیا کہاں ہے؟ کیا انسانی زندگی کی قیمت صرف تب زیادہ ہوتی ہے جب وہ مغرب میں ہو؟ کیا فلسطینی بچوں کے جسم، ان کے خواب، ان کے مستقبل اور ان کی زندگیاں عالمی برادری کے نزدیک بے وقعت ہو چکی ہیں؟اقوامِ عالم کا طرزِ عمل صرف مایوس کن نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت کی حد تک پہنچ چکا ہے۔ بار بار جنگ بندی کی کوششیں، بے نتیجہ قراردادیں، اور ‘تشویش کے بیانات وہ کھوکھلے الفاظ بن چکے ہیں جو ہر حملے کے بعد نشر تو ہوتے ہیں، لیکن زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے۔ان حملوں کا ہدف صرف انسانی جانیں نہیں، بلکہ پورا معاشرتی ڈھانچہ ہے۔ اسپتال، اسکول، عبادت گاہیں، پناہ گزین کیمپ—کیا ہے جو اسرائیلی حملوں سے محفوظ رہا؟ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، امدادی مقامات پر بھی حملے جاری ہیں، جہاں صرف گزشتہ روز 27 افراد جان سے گئے اور 281 زخمی ہوئے۔ اب تک 1,965 افراد صرف امداد حاصل کرنے کی کوشش میں مارے جا چکے ہیں۔ یہ اعداد خود ایک ایسی قیامت کا پتہ دیتے ہیں جو غزہ پر ہر روز ٹوٹتی ہے۔غزہ اب صرف بموں اور گولیوں کا نشانہ نہیں، بلکہ فاقہ کشی اور قحط کا مرکز بھی بن چکا ہے۔ صرف گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں پانچ افراد بھوک اور غذائی قلت سے جاں بحق ہوئے، جن میں دو معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک 263 افراد، جن میں 112 بچے شامل ہیں، خوراک کی عدم دستیابی اور غذائی قلت کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ایسا قحط، جو کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں بلکہ انسان ساختہ اور دانستہ محاصرے کا نتیجہ ہے، آج کی مہذب دنیا کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ اسرائیل نے نہ صرف پانی، خوراک، ادویات اور ایندھن کی رسد بند کر رکھی ہے بلکہ امدادی قافلوں پر حملے کر کے صورتِ حال کو مزید بدترین بنا دیا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ مین اسٹریم عالمی میڈیا کا رویہ بھی غیرجانبدار نہیں رہا۔ اسرائیل کی جارحیت کو اکثر دفاعی کارروائی” قرار دیا جاتا ہے، جب کہ فلسطینیوں کی جدوجہد کو “دہشت گردی” کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس غیرمنصفانہ بیانیے نے نہ صرف عوامی رائے کو گمراہ کیا بلکہ ظالم اور مظلوم کے مابین فرق کو مٹا کر ایک سنگین اخلاقی بحران کو جنم دیا ہے۔غزہ کے معاملے میں مسلم دنیا کی خاموشی بھی دردناک حد تک مایوس کن رہی ہے۔ اگرچہ چند ممالک نے سخت بیانات جاری کیے ہیں، چند نے سفارتی سطح پر اسرائیل کی مخالفت کی ہے، لیکن عملی اقدامات کا فقدان چیخ چیخ کر اس امر کی گواہی دے رہا ہے کہ مسلمان اقوام اب صرف جذباتی تقریروں تک محدود ہو چکی ہیں۔کیا قبلۂ اول کے امین اتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ وہ چند مظلوم بچوں کو دوا، پانی، یا ایک محفوظ پناہ گاہ بھی فراہم نہیں کر سکتے؟ کیا اسلامی اتحاد کا تصور فقط کانفرنسوں تک محدود رہ گیا ہے؟
ان سب کے باوجود، اگر کوئی چیز ناقابلِ شکست نظر آتی ہے تو وہ فلسطینی عوام کی استقامت اور عزم ہے۔ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا کر بھی وہ ظلم کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔ اپنے ملبہ شدہ گھروں میں بھی وہ جینے اور مزاحمت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ معصوم بچوں کی آنکھوں میں اب بھی ایک روشن صبح کی امید جھلکتی ہے۔یہی وہ جذبہ ہے جو صیہونی ریاست کو سب سے زیادہ خوفزدہ کرتا ہے—یہ کہ غزہ کو مٹا دینا آسان ہو سکتا ہے، لیکن فلسطین کے خواب کو کچل دینا ناممکن ہے۔فلسطین کا مسئلہ کوئی نیا نہیں، لیکن اس کا حل تبھی ممکن ہے جب عالمی برادری اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں۔ فوری جنگ بندی، غیر مشروط امدادی رسائی، اور اسرائیل کی جارحیت پر پابندیاں وہ اولین اقدامات ہیں جو انسانی ہمدردی کے تحت فوری کیے جانے چاہئیں۔اس کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام، جس کے دارالحکومت القدس ہو، وہ دیرپا حل ہے جو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے۔یقیناً، ہمیں خاموش تماشائی بننے کے بجائے آواز بلند کرنی چاہیے۔ سوشل میڈیا، عوامی مظاہرے، اور فلاحی اداروں کی معاونت کے ذریعے ہم اپنے حصے کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو حقیقت سے آگاہ کرنا ہو گا، تاکہ وہ بھی اس عالمی منافقت کو پہچان سکیں اور سچ کے ساتھ کھڑے ہوں۔غزہ کی صورتِ حال صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، یہ انسانیت کا امتحان ہے۔ یہ دیکھنے کا وقت ہے کہ ہم بحیثیت انسان، بحیثیت مسلمان، اور بحیثیت باضمیر مخلوق کہاں کھڑے ہیں۔کیا ہم تاریخ میں ان لوگوں کے طور پر یاد کیے جائیں گے جنہوں نے ایک مظلوم قوم کی چیخوں پر کان بند رکھے؟ یا ان لوگوں کے طور پر جو کمزور ہونے کے باوجود حق کے ساتھ کھڑے رہے؟فیصلہ آج بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ کل شاید دیر ہو جائے۔
